خبرنامہ انٹرنیشنل

مائیک پومپیو:جوہری ہتھیاروں کے خاتمے تک شمالی کوریا پر پابندیاں برقرار رہیں گی

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپئیو کا کہنا ہے کہ ‘تمام جوہری ہتھیاروں’ کے خاتمے تک شمالی کوریا پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم نہیں ہوں گی۔

انھوں نے یہ بات جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول میں اپنے جاپانی اور کوریائی ہم منصبوں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

یہ پریس کانفرنس سنگاپور میں صدر ٹرمپ اور کم جونگ کی تاریخی ملاقات کے چند دن بعد ہوئی ہے۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اعلامیے پر دستخط کرتے ہوئے نئے تعلقات کے آغاز کا اعادہ کیا تھا۔

کم جونگ نے اپنے ماضی کے وعدہ کی پاسداری کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم کوریائی جزیرے میں مکمل جوہری ہتھیار تلف’ کریں گے۔

لیکن اس معاہدے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں یہ تفصیلات شامل نہیں ہیں کہ شمالی کوریا کیسے اپنے جوہری ہتھیار تلف کرے گا اور اس کی تصدیق کا طریقہ کار کیا ہو گا۔

‘ایک آہنی اتحاد’

ٹرمپ کم ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ سنگاپور سے جنوبی کوریا پہنچے جہاں انھوں نے اپنے علاقائی اتحادیوں سے ملاقات کی اور اس میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ اور جنوبی کوریا کی مشترکہ جنگی مشقوں کو منسوخ کر کے اتحادیوں کو حیران کر دیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ یہ اجلاس امریکہ اور شمالی کوریا کے تعلقات کے مابین ‘اہم موڑ’ ہے۔

ادھر سیئول میں امریکی وزیر خارجہ نے شمالی کوریا ذرائع ابلاغ کی ان خبروں کو مسترد کیا، جن میں کہا گیا تھا کہ امریکہ پیانگ یانگ کی بتدریج ترقی کے لیے اسے رعایت دے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘امریکہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی مکمل اور تصدیق شدہ تلفی کے لیے پرعزم ہے۔’
گو کہ صدر ٹرمپ اور کم جونگ کے مابین دستخط ہونے والی مشترکہ اعلامیے میں ‘مکمل جوہری ہتھیاروں کی تلفی’ کے بارے خصوصی طور پر وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے اصرار کیا عسکری مشقیں ختم ہونے کے اعلان کے بعد بھی امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان ‘آہنی اتحادی’ ہیں۔

یاد رہے کہ جنوبی کوریا اور جاپان نے ہمیشہ کہا ہے کہ مشترکہ مشقیں خطے میں اس کے استحکام کے لیے اہم ہیں۔

پریس کانفرنس کے دوران جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے مطابق ’سیؤل اور واشنگٹن کے تعلقات ویسے ہی مضبوط ہیں جیسے پہلے تھے۔‘

اُن کے جاپانی ہم منصب نے کہا کہ ’اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی پیش رفت کا آغاز بہت اہم ہے‘ اور تنیوں ممالک اس کے لیے ’مشترکہ کوشش‘ کریں گے۔

امریکہ اور شمالی کوریائی رہنماؤں کے مابین نے یہ اجلاس اپنی نوعیت کو واحد اجلاس تھا۔

گذشتہ کئی دہائیوں تک شمالی کوریا بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ تھا۔ اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جوہری ہتھیاروں کے حصول کے حوالے سے سفارتی سطح پر دباؤ کا سامنا تھا۔

جنگی مشقیں کیا ہیں؟

جنوبی کوریا میں 30 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ ان کی کورین افواج کے ساتھ بڑے پیمانے پر عسکری مشقیں ہوتی ہیں۔

کم جونگ سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے مشترکہ عسکری مشقیں ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔

عسکری مشقیں جنھیں عموماً ‘وار گیمز’ کہا جاتا ہے، یہ جنوبی کوریا کی افواج اور وہاں موجود امریکی افواج کے مابین ہوتی ہیں۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مشقیں ‘مہنگی’ بھی ہیں اور شمالی کوریا کے لیے’اشتعال انگیز’ بھی۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ‘پہلے سے طے کی گئی مشقیں مستقبل میں شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرت تک روک لی گئی ہیں۔’