خبرنامہ

امریکہ اور کینیڈا۔ ۔ کولمبیا ریور بیسن…ظفر محمود چیئر مین واپڈا..قسط 5

کسی بھی بڑے دریا کے بہاؤ میں ایسے موزوں مقامات جہاں سیلاب سے بچاؤ اور بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کیلئے پانی ذخیرہ کیا جاسکے ، قومی اثاثہ ہوتے ہیں۔ اِن منصوبوں کی تعمیر پر عدم اتفاق یا فنڈز کی کمی غالباً وہ ممکنہ رکاوٹیں ہیں جن کی بنا پر کوئی قوم قدرت کی اس نعمت سے بھرپور فائدہ نہیں اُٹھا پاتی۔اتفاق رائے کے حصول کے لئے ہمارے سامنے بین الاقوامی تعاون کی ایسی متعدد حوصلہ افزا مثالیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دو حتیٰ کہ دو سے زیادہ ممالک ایسے مقامات پر مشترکہ مفاد کے حامل منصوبوں کی تعمیر کیلئے باہمی تعاون پر رضامند بھی ہوئے اوراِس بارے میں انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ باقاعدہ معاہدے بھی کئے۔
ایسے ممالک کی مثالیں ہمارے لئے حوصلہ افزائی کا باعث ثابت ہوتی ہیں جو کسی دریا میں حصہ دار ہوتے ہیں اور منصوبوں کیلئے مل جل کر رقم کا بندوبست کرتے ہیں ۔ ان منصوبوں کی بدولت یہ ممالک پن بجلی کی پیداوار، سیلاب سے بچاؤ اور آبی ذخیرے میں جمع ہونے والے اضافی پانی کے استعمال جیسے فوائد سے مشترکہ طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ باہمی تعاون کا یہ رجحان گذشتہ صدی کے پہلے نصف حصے میں شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔ اس باہمی تعاون کی بہترین مثال دریائے کولمبیا کے انتظام کو چلانے کیلئے امریکہ اور کینیڈا کے درمیان طے پانے والا معاہدہ ہے۔ دریائے کولمبیا تقریباً 2 ہزار کلومیٹر طویل ہے ،جبکہ کولمبیا جھیل سے دریا کی گزرگاہ کے آخری حصے تک اس کی ڈھلوان 2 ہزار 690فٹ یا 820 میٹر ہے۔ یہ دریا کینیڈا سے ہوتا ہوا امریکہ میں داخل ہوتاہے اور پھر روز ویلٹ جھیل میں جاگرتا ہے۔
ہمارے لئے یہ بات جاننا بھی اہم ہوگا کہ اس دریا کے بارے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کافی دیر تک جاری رہنے والے باہمی تنازعہ کا نتیجہ ہے۔ 1950 ء کی دہائی کے وسط میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بہت بڑھ چکی تھی۔ اس کشیدگی کا آغاز امریکہ کی جانب سے لبّی ڈیم (Libby Dam) تعمیر کرنے کی کوشش سے ہوا۔ یہ پن بجلی کا بہت بڑا منصوبہ تھا اور اسے مونٹانا ریاست میں کوٹینا دریا(Kootenai River)پر تعمیر کیا جانا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ لبّی ڈیم کی تعمیر سے پانی دریا کے بالائی جانب کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا تک چڑھ آتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تنازعہ شدت اختیار کرتا گیااور نوبت ’ اگر تم میرے ساتھ بُرا کرو گے تومیں تمہارے ساتھ اس سے بدتر کروں گا‘ تک جا پہنچی۔
بالآخر 1964 ء میں دونوں ملک طویل مذاکرات کے بعد دریائے کولمبیا اوراس کے معاون دریاؤں کے پانی کے مشترکہ استعمال کیلئے ایک معاہدے پر متفق ہوگئے۔ کولمبیا معاہدہ کا مقصد کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا میں آبی ذخیرے کی تعمیر اور اس کا انتظام و انصرام تھا تاکہ کولمبیا اور کوٹینا (Kootenai) کے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرتے ہوئے سیلاب کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے اور دونوں ملکوں کیلئے زیادہ سے زیادہ پن بجلی پیدا کی جائے۔امریکہ کو جو فوائد دریائے کولمبیا کے زیریں علاقے میں حاصل ہوتے ہیں، اس معاہدے کی رُو سے وہ ان کا کچھ حصہ زرِ تلافی کے طور پر کینیڈین برٹش کولمبیا کو بھی ادا کرتا ہے۔1964ء کے معاہدے کے مطابق امریکہ کو لبّی ڈیم تعمیر کرنے کی اجازت حاصل ہوگئی اور 1972 ء میں اس نے مذکورہ ڈیم تعمیر کیا ۔ ڈیم کے نتیجے میں بننے والا کوکانوسا (Kookanusa) آبی ذخیرہ برٹش کولمبیا(کینیڈا) کے اندر 67 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ کینیڈا کو براہِ راست زرِتلافی تو ادا نہیں کیا گیا، لیکن لبّی ڈیم سے چونکہ پانی کا بہاؤ ریگولیٹ ہوتاہے ، جسے کینیڈا کوٹینا دریا کے زیریں حصوں میں بجلی پیدا کرنے کیلئے استعمال میں لاتا ہے۔ جبکہ لبّی ڈیم کی بدولت وہ دریائے کوٹینا اوردریائے کولمبیا میں سیلاب سے بچاؤ کا فائدہ بھی اُٹھاتا ہے۔امریکہ نے کینیڈا کو لبّی ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کے 60 سال کے دوران یعنی 2024 ء تک سیلاب کی روک تھام سے ہونے والے متوقع فوائد کے نصف حصہ کے برابر 64.4 ملین ڈالر ادا کئے ۔ اس کے علاوہ امریکہ نے کینیڈا کو 30 سال تک بجلی کی پیداوار میں اضافہ کی مد میں بھی 254.4ملین ڈالر کی ادائیگی کی۔یہ رقم جزوی طور پر کینیڈا میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے استعمال میں لائی گئی۔ بجلی کی یہ خرید و فروخت 31مارچ 2003ء تک جاری رہی۔ کینیڈا کو حاصل ہونے والے یہ فوائد اب برٹش کولمبیا کی صوبائی حکومت کو کلّی طور پر منتقل ہوچکے ہیں۔ برٹش کولمبیا کو ملنے والے فوائد میں 4 ارب یونٹ سالانہ بجلی بھی شامل ہے جس کے فوائد کا تخمینہ تقریباً 300 ملین امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ اب دریائے کولمبیا کو سیلاب سے بچاؤ اور بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے اور یہ مشترکہ مفاد کے لئے بین الاقوامی تعاون کی بڑی اچھی مثال ہے۔ دریائے کولمبیا پر اس منصوبے کی تعمیر سے پانی ذخیرہ کرنے کی جو سہولت میسر آئی، اس کی بدولت صرف پورٹ لینڈ کے علاقے میں 1997 ء میں آنے والے سیلاب کی ممکنہ تباہ کاریوں سے بچاؤ کی مد میں ایک ارب ڈالر کا فائدہ ہوا۔

افریقہ۔ دریائے نیل کا طاس۔ معاہدے کے تحت عائد ذمہ داریوں میں بدلتے رجحان اور تعاون کے نئے امکانات

دریائے نیل دُنیا کا طویل ترین دریا ہے اور اس کا بیسن 10 ممالک میں واقع ہے۔ ان ممالک میں برونڈی، مصر، اریٹیریا، ایتھوپیا، کینیا، روانڈا، سوڈان، تنزانیہ، یوگنڈا اور عوامی جمہوریہ کانگو شامل ہیں ۔ 30 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط دریائے نیل کا بیسن پورے افریقی براعظم کے کل رقبے کا 10 فیصد ہے۔ کم و بیش 16 کروڑ لوگوں کے ذریعہ معاش کا دارومدار دریائے نیل پر ہے۔ اس دریا کے بیسن میں واقع 10 ملکوں کی آبادی 30 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ان ممالک میں خشک سالی کا مستقل خطرہ پانی سے متعلق مسئلے کی سنگینی میں اضافہ کرتا رہتاہے جبکہ اراضی کے استعمال سے ہونے والی آلودگی سے اِس دریا کے زیریں جانب واقع ممالک میں پانی کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔ کینیا اور مصر کے علاوہ دریائے نیل کے بیسن میں واقع دیگر آٹھ ممالک دنیا کی 50 غریب ترین اقوام میں شامل ہیں ،اِس لئے آبی آلودگی کی وجہ سے اُنہیں قحط اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
مصر دریائے نیل کے بیسن میں سب سے نیچے واقع ہے لیکن یہ بیسن کا سب سے اہم ملک ہے۔ دریائے نیل کے بالائی علاقوں میں واقع ممالک یعنی کانگو، سوڈان اور ایتھوپیا اورزیریں جانب واقع ملک یعنی مصر کے درمیان اولین معاہدے زیادہ تر اُن کے غیرملکی حکمرانوں نے کرائے۔ اِن معاہدوں کے بارے میں ازسرِ نو مذاکرات ہوچکے ہیں کیونکہ دریائے نیل کے بالائی علاقوں کے ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں ہونے والے معاہدے غیرمنصفانہ ہیں اور وُہ اِن کے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتے۔
1929 ء میں مصر اور برطانیہ کے درمیان معاہدہ طے پایا ۔ برطانیہ اُس وقت کینیا، سوڈان، تنزانیہ اور یوگنڈا پر قابض تھا۔ 1958 ء میں سوڈان نے آزادی حاصل کی تو 1959 ء میں مصر اور سوڈان کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ ان دونوں معاہدوں کی رُو سے مصر اور سوڈان کو دریائے نیل کا 100 فیصد پانی استعمال کرنے کا کلّی اختیار حاصل تھا۔اِن معاہدوں کے مطابق مصر اس بات کا پابند تھا کہ وہ دیگر ممالک سے یہ معلوم کرے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں دریائے نیل کا کتنا پانی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس بیسن کے اکثر ممالک نے دریائے نیل پرآبپاشی کے منصوبے تعمیر نہیں کئے۔مگر وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا حق متاثر نہیں ہونا چاہیء۔ اس پس منظر میں یہ بات تعجب کا باعث نہیں ہونی چاہئے کہ ان ممالک نے مذکورہ دونوں معاہدوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ آبی تنازعات بلکہ اس حوالے سے ممکنہ طور پر ہونے والی جنگیں ملکوں کو بقائے باہمی کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مائل کرتی ہیں ۔ اپنے مشترک آبی وسائل کو بروئے کار لانے کی غرض سے کوئی نظام وضع کرنے کے لئے یہ ملک ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں اور باہمی تنازعات سے بچ نکلتے ہیں۔ اتفاقِ رائے کے حصول کیلئے دریائے نیل کے بیسن میں واقع ممالک نے 1999 ء میں Nile Basin Initiative کے نام سے اعلیٰ سطحی فورم تشکیل دیا۔یہ فورم دریائے نیل کے پانی کی منصفانہ تقسیم کوبروئے کار لاتے ہوئے خطے کی سماجی اور اقتصادی ترقی کیلئے رُکن ملکوں کے وزراء کو ایک دوسرے کو قریب لانے میں معاون ثابت ہوا ہے۔
اِس ضمن میں دریائے نیل پر تعاون کی ایک اور مثال اوون فالز ڈیم پر واقع نالوبالے (Nalubaale) پاور سٹیشن کی ہے ،جو وائٹ نیل پر تعمیر کیا گیا ہے ۔ یہ جگہ یوگنڈا میں وکٹوریا جھیل کے قریب واقع ہے اور یہاں اس مقام سے ہی اس دریا کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ ڈیم 1954ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ڈیم کی تعمیر سے قبل 1949ء میں مصر اور یوگنڈا کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ مذکورہ ڈیم کی وجہ سے دریائے نیل میں پانی کا بہاؤ متاثر نہیں ہو گا ۔ مصر نے یوگنڈا کو اپنے خرچ پر پن بجلی پیدا کرنے کے آلات فراہم کئے ، تاہم اس ڈیم کی تعمیر کے باعث وجود میں آنے والے آبی ذخیرے سے پانی کا اخراج مکمل طور پر مصر کے استعمال کے لئے تھا، لہٰذا مصر نے بجلی پیدا کرنے اور متاثرین کی از سر نو آباد کاری کے اخراجات یوگنڈا کو ادا کئے ۔کیونکہ اس آبی ذخیرے سے زیریں جانب واقع مصرکو فائدہ پہنچتا تھا۔
تاہم یہ بات مشاہدے میں آتی ہے کہ ایسے ممالک جو دریا کے کسی مشترکہ بیسن میں حصہ دار ہوتے ہیں ،اُنہیں اپنے حقوق کے لئے قانونی اصولوں کو مد نظر رکھنے پر اصرار کرنے کی بجائے عملی سوچ اپناتے ہوئے بالآخر سب کے لئے قابل قبول حل تلاش کرنا پڑتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے مابین سندھ طاس معاہدہ اور افریقی ممالک بشمول رونڈا ، برونڈی ، کانگو، تنزانیہ ، کینیا ، یوگنڈا ، ایتھوپیا، جنوبی سوڈان اور مصرکے درمیان دریائے نیل کے طاس کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے اسی رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔
براعظم افریقہ میں سرحدی جھڑپیں اور جنگیں معمول ہیں ،جہاں متنازع معاملات کا حل تلاش کرنے کی قابل تقلید مثالیں بھی کم ہیں، ، تاہم یہ بات باعثِ اطمینان ہے کہ یہاں ملکوں کی ایک بڑی تعدادپن بجلی کی پیداوار اور پانی ذخیرہ کرنے سے حاصل ہونے والے فوائد میں حصہ داری کے لئے اکٹھے ہورہے ہیں۔

بھارت اور بھوٹان

جنوب ایشیائی ملک بھوٹان میں 1974ء میں تعمیر کیا گیا چوکھا (Chukha) پراجیکٹ دریا کے بالائی اور زیریں جانب واقع ممالک کے درمیان سود مند تعاون کی بڑی اچھی مثال ہے ۔ بھوٹان میں واقع ہونے کے باوجود ڈیم کی تعمیر کے اخراجات بھوٹان نے برداشت نہیں کئے ۔اس کی تعمیر پر اٹھنے والی لاگت بھارت نے ادا کی ہے اور بھوٹان اب یہ رقم بھارت کو فاضل بجلی رعایتی نرخوں پر فروخت کرکے لوٹا رہا ہے۔ اس منصوبے کو مثال بنا کر اب بھارت اور بھوٹا ن متعدد نئے منصوبے بھی تعمیر کررہے ہیں۔ دوسری جانب نیپال میں 84ہزار میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن وہ اپنی اس صلاحیت سے تاحال فائدہ اٹھانے سے قاصر ہے ا ور اس کی بڑی وجہ اس ملک کا اندرونی سیاسی خلفشار ہے۔