خبرنامہ

امریکہ ۔ وفاق کی مختلف اکائیوں کے درمیان مسائل..قسط 6..ظفر محمود چیئر مین واپڈا

پاکستان کی طرح امریکہ بھی ایک وفاقی مملکت ہے۔ یہاں اکثر دریا کسی ایک ریاست سے دوسری ریاست میں داخل ہوتے ہیں۔امریکی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں اِس ملک کے اندر آبپاشی، آب نوشی اور دیگر تجارتی مقاصد کیلئے پانی میں ساجھے داری کی وجہ سے ریاستوں کے درمیان شدید تنازعات اُٹھ کھڑے ہوئے۔ امریکی آئین اِن تنازعات کے حل میں صرف ایک محدود حد تک معاونت کرسکتا ہے۔آئین کے تحت تنازعات کو حل کرنے کیلئے کانگریس سے رجوع کرنا پڑتا ہے لیکن اِن مسائل کے حوالے سے یہ قدم عموماً کا رگر ثابت نہیں ہوتا اور اکثر معاملات میں فریقین نے اِن پیچیدہ مسائل کو مذاکرات کی میز پرہی حل کیا۔

پوٹو میک دریا۔ پانی کی قِلّت سے نمٹنے کی ایک عُمدہ مثال

امریکہ میں مختلف ریاستوں کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی معاہدوں کو بروئے کار لانے کی ایک دلچسپ مثال دریائے پوٹو میک کے بارے میں ہے۔ یہ دریا صرف 652 کلومیٹر طویل ہے لیکن ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے علاوہ یہ چار ریاستوں میں بہتا ہے، جن میں میری لینڈ، پنسلوانیا، ورجینیا اور ویسٹ ورجینیا شامل ہیں۔ کانگریس نے 1940 ء میں پوٹو میک دریا کے بارے میں انٹرسٹیٹ کمیشن قائم کرنے کی منظوری دی۔ اِس کمیشن میں چاروں ریاستوں ، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا اور وفاقی حکومت کا ایک ایک نمائندہ شامل تھا۔ 1960 ء کی دہائی کے آخر تک کانگریس اور چاروں ریاستیں پانی کی قِلّت کے معاملے پر تشویش کا شکار ہوچکی تھیں۔اس تشویش کے نتیجے میں فریقین نے انٹرسٹیٹ کمیشن کے دائرہ اختیار کو بڑھا دیا ،تاکہ باہمی تعاون کی ایک ایسی تنظیم قائم کی جاسکے جو خشک سالی کے دوران دریا سے پانی کے استعمال کو ایک جامع انتظام کی شکل دے سکے۔ تاہم دریائے پوٹو میک کے بارے میں انٹر سٹیٹ کمیشن کے پاس اپنی سفارشات کے نفاذ کیلئے کوئی قانونی اختیار نہیں ہے۔1978 ء میں دریائے پوٹومیک کے بیسن میں واقع ریاستیں پانی کے زیادہ استعمال اور خشک سالی جیسے مسائل کو حل کرنے کیلئے باہمی تعاون پر رضامند ہوگئیں، جس کے بعد 1982 ء کا معاہدہ طے پایا ۔ اِس معاہدے کے تحت پانی سے متعلق اداروں کو اس بات کی اجازت دے دی گئی کہ وہ جیننگز رینڈولف ڈیم(Jennings Randolph Dam) پر پانی ذخیرہ کرنے کے حقوق خرید سکتے ہیں اور خشک سالی کے دوران دیگر چار ڈیموں سے پانی کے اخراج کے انتظام کو باہمی طور پر اس طرح مربوط بنا سکتے ہیں گویا اُن سب کا انتظام کسی ایک ادارے کے تحت چلایا جارہا ہو۔
تعاون کے اس انتظامی ڈھانچے کے تحت مالی معاملات کیلئے کسی بھی حکومت کا ایک ادارہ کسی دوسری حکومتی ادارے سے ’’واٹر شیڈ سروسز‘‘ یا خدمات خریدتا ہے اور اگر کوئی فریق خشک سالی کے دوران پانی کے اخراج کا مطالبہ کرتا ہے تو اُسے مذکورہ ڈیم کے آپریشن اور مرمت پر اُٹھنے والے اخراجات کا ایک مخصوص حصہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

دریائے ڈیلاویئر۔خود مختار کمیشن کے زیرانتظام ایک خزانہ

دریائے پوٹو میک کے برعکس ڈیلاویئرریور بیسن کمیشن کو زیادہ قانونی اختیار حاصل ہے۔ نیویارک، نیوجرسی، پنسلوانیا اور ڈیلاویئر کی ریاستوں پر مشتمل یہ کمیشن 1961ء میں قائم کیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت نے بھی اس کمیشن کے قیام سے متعلق معاہدے پر دستخط کئے ، جبکہ کمیشن میں اس کی نمائندگی بھی ہے۔ دریائے ڈیلاویئر کے بیسن میں کئی ایک بڑے شہر واقع ہیں، جن میں پنسلوانیا کا شہر فلاڈلفیا ، نیوجرسی ریاست کے شہر ٹرینٹن اور کیمڈن، جبکہ ڈیلاویئر کا شہر ویلمنگٹن شامل ہیں۔ ڈیلاویئر دریا کے بیسن میں تقریباً 80لاکھ افراد رہتے ہیں۔اس دریا پر کئی ایک صنعتیں، بندرگاہوں کی سہولت اور بجلی پیدا کرنے کے کارخانے موجود ہیں۔ 1929 ء میں نیو جرسی نے نیویارک کی ریاست کو دریائے ڈیلاویئر کے بالائی علاقے میں پانی کا رخ موڑنے سے روک دیا۔ پانی کا رُخ تبدیل کرنے کا مقصد نیویارک شہر کو پانی فراہم کرنا تھا۔معاملہ عدالت میں پہنچا اور 1931 ء میں سپریم کورٹ نے مذکورہ مقصد کیلئے محدود پیمانے پر پانی کا رخ موڑنے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کر دی کہ زیریں علاقوں کیلئے پانی کی متعین کردہ مقدار کا اخراج جاری رکھا جائے۔ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے میں لکھا جانے والا یہ جملہ’’کسی دریا کی افادیت صرف استعمال میں لائی جانے والی چیز ہی نہیں بلکہ یہ ایک خزانے کی مانند ہے‘‘ ۔ اب دنیا بھر کے عدالتی فیصلوں کا حصہ بنتا ہے۔سپریم کورٹ نے مزید کہا ’’دریا زندگی کی بنیادی ضرورت فراہم کرتاہے، لہٰذا جن لوگوں کو اس پر اختیار حاصل ہے، اُن کے درمیان پانی کی محتاط راشن بندی ضروری ہے‘‘۔ ڈیلاویئر کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بیسن کیلئے پانی کی منصوبہ بندی، تقسیم/ حصہ داری، نئے آبی ذخائر کی تعمیر، سیلاب کے سدِّباب اور آلودگی پر قابو پانے کیلئے مختلف اقدامات عمل میں لاسکتا ہے۔ لیکن ابھی تک کمیشن نے اپنے تمام قانونی اختیار استعمال نہیں کئے۔ مثال کے طور پر کمیشن نے پانی کی حصہ بندی نہیں کی۔ اس حقیقت کے باوجود ڈیلاویئر ریور بیسن کمیشن ریاستہائے متحدہ امریکہ میں علاقائی دریا کے حوالے سے ریاستوں کے درمیان باہمی تعاون کی بہترین مثالوں میں سے ایک ہے۔

دریائے کولاراڈو۔ جہاں دُنیا کے سب سے زیادہ ڈیم تعمیر کئے گئے ہیں

امریکہ میں کوئی ایسا آسان’’قانونی حل‘‘ موجود نہیں ہے، جو ایک سے زائد ریاستوں کے درمیان بہنے والے دریا کے پانی کی فوری اور منصفانہ تقسیم ممکن بنا سکے۔ خاص طور پر ایک ایسا دریا جو کئی ریاستوں کے درمیان سے گزرتا ہو۔ ایسی صورت میں بہتر طرزِعمل یہی ہے کہ باہمی تعاون پر مبنی ایک ایسے طریق�ۂ کار پر انحصار کیا جائے جس کے ذریعے دریائی پانی کے انتظامات کو اِس طور پر چلایا جائے گویاکہ دریا کے اوپر تعمیر کیا گیا سارا انفراسٹرکچر کسی ایک مشترکہ ادارے کی ملکیت ہے۔ اِس طرح کے انتظام میں سب سے اُمید افزا طریقہ وہ باہمی لین دین ہے جسے ’’ واٹر شیڈ خدمات کے عوض ادائیگیوں‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت ایک ریاست دوسری ریاست کو سیلاب سے بچاؤ کی خاطر کئے گئے اضافی اقدامات کے عوض رقم ادا کرتی ہے، یا خشک سالی کی صورت میں کوئی ادارہ دریا کے بالائی علاقوں میں واقع پانی اکٹھا کرنے کیلئے آبی ذخیرے کے ڈیم کی سہولت کرایہ پر مہیا کرے، یا کوئی ریاست اپنے حصے کے پانی کو کسی دوسری ریاست میں واقع آبی ذخیرے میں جمع کرے اور وقت پڑنے پر اُسے استعمال میں لائے۔ مثال کے طور پر دریائے کولاراڈو کے زیریں بیسن میں واقع ریاستوں نے پانی کو ایک دوسرے کے پاس جمع کرانے کا اچھوتا نظام اختیار کیا ہے۔ باہمی رضامندی سے ریاستیں کسی دوسری ریاست میں پانی ذخیرہ کرتی ہیں ۔ جو ریاست (یا مقامی ادارہ) اپنا پانی دوسری ریاست میں ذخیرہ کرنا چاہتا ہے وہ اس ریاست (یا مقامی ادارے) کو رقم ادا کرتا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے یہ مالی انتظام بھی ہے اورعملی انتظام بھی۔ اس بات کیلئے باہمی رضامندی وفاقی قوانین کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے جن کے تحت ریاستوں کو اس بات کی اجازت حاصل ہے کہ وہ اپنے پانی کے ’’غیر استعمال شدہ حصے‘‘ کو استعمال میں لائیں یا پھر اُسے ذخیرہ کرلیں۔

آل امریکن کینال : ضائع شدہ پانی کو بچانے اور اسے استعمال میں لانے کے لئے باہمی تعاون

پاکستان میں دریاؤں کا پانی ، نہروں، راجباہوں اور کھالوں سے بہتا ہوا کھیتوں تک پہنچتا ہے۔ 1976 ء سے 2015 ء تک ہمارے دریاؤں میں بہنے والے پانی کی فی سال اوسطاً مقدار 145 ملین ایکڑ فٹ ہے، جس میں سے 101ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں میں منتقل کیا جاتا ہے ۔ نہروں میں منتقل کئے گئے 101 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے 40 ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں سے کھیتوں تک پہنچنے کے دوران کم ہوجاتا ہے۔ یہ کمی 4 ملین ایکڑ فٹ پانی کے بخارات میں تبدیل ہونے اور 36ملین ایکڑ فٹ پانی زمین کے اندر جذب ہونے کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔گویا کھیتوں تک صرف 61 ملین ایکڑ فٹ پانی ہی پہنچ پاتا ہے۔ زمین کے اندر جذب ہونے والے 36 ملین ایکڑ فٹ میں سے 20 ملین ایکڑ فٹ ہمار ے جنوبی علاقوں میں اُن جگہوں پر جذب ہوتا ہے جہاں زیرِ زمین پانی کھارا یعنی ناقابل استعمال ہے جبکہ 16 ملین ایکڑ فٹ پانی اُن علاقوں میں جذب ہوتا ہے جہاں زیرِزمین پانی میٹھا یعنی قابلِ استعمال ہے۔ اس پوری تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم کھارے پانی کے علاقوں میں موجود اپنی نہروں کو پختہ کرلیں تو 20 ملین ایکڑ فٹ پانی بچاسکتے ہیں۔ تاہم کھارے پانی کے علاقوں میں نہروں کو پختہ کرنے کا منصوبہ اس وقت تک تعمیر نہیں کیا جاسکتا جب تک اس منصوبے پر کی جانے والی سرمایہ کاری واپس ملنے کی اُمید نہ ہو۔اگر ہم اس 20 ملین ایکڑ فٹ پانی کو بچا پائیں تو پاکستان میں 20 ملین ایکڑ مزید قابلِ کاشت اراضی کو زرعی مقاصدکیلئے سیراب کیا جاسکتا ہے۔ دریائے کولاراڈوکی ذیل میں بیان کی گئی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی مختلف وفاقی اکائیوں نے ایسا کس طرح ممکن بنایا اور ہم یہ سب کچھ کیوں نہیں کرسکے۔
دریائے کولاراڈو کے زیریں علاقے میں تعمیر کی گئی آل امریکن کینال کئی سالوں تک مٹی کے کناروں والی کچیّ(ناپختہ) نہر تھی اور اس بنا پر زمین کے اندر جذب ہونے کی وجہ سے پانی کی بڑی مقدار ضائع ہوجاتی تھی۔ یہ نہر جو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد کے نزدیک شرقاً غرباً بہتی ہے، دریائے کولاراڈو کا پانی جنوبی کیلیفورنیا کے اضلاع میں واقع اراضی کو سیراب کرنے کیلئے پہنچاتی ہے۔ 2003 ء میں وفاق اور ریاست اس نہر کو پختہ کرنے اور نتیجتاً بچائے گئے پانی میں حصہ داری پر رضامند ہوگئے۔ سان ڈی ایگوکاؤنٹی واٹر اتھارٹی نے اس مقصد کیلئے رقم مہیا کی اور اس کے عوض اُس پانی کا ایک حصہ حاصل کر لیا ،جو قبل ازیں زمین کے اندر جذب ہوجاتا تھا۔
ہم ایسا کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوسکے؟ کیونکہ ہمارے نزدیک پانی کی کوئی مالی وقعت ہی نہیں۔ ہمارے اِسی طرز عمل کے پیشِ نظر کہا جاتا ہے کہ ’اگر کسی چیز کی قدروقیمت ہی نہیں ، تو آپ اس کے مستحق نہیں‘۔

متنازعہ ڈیم۔ اتفاقِ رائے سے تعمیر کیا گیا پارکرڈیم

1934ء میں وفاقی حکومت کیلیفورنیا اور ایری زونا کی ریاستوں میں بہنے والے دریا پر پارکر ڈیم تعمیر کرنا چاہتی تھی تاکہ پانی کی بڑ ی مقدار جنوبی کیلیفورنیا میں آبپاشی کیلئے بہم پہنچائی جاسکے۔ ایری زونا کی ریاست اس ڈیم کی تعمیر کی سخت مخالف تھی۔ اسے یہ خوف لاحق تھا کہ اس ڈیم کی تعمیر سے کیلیفورنیا ریاست، دریا میں دستیاب پانی کو ہتھیا لے گی۔ ایری زونا کے گورنر بی بی موئر (BB Moeur) نے ریاستی دستوں(فوج) کو مسلح ہونے اور ڈیم کی تعمیر روکنے کا حکم دے دیا۔جس کے بعد منصوبے پر تعمیراتی کام عارضی طور پر روک دیا گیا۔ بالآخر پارکرڈیم کے بارے میں یہ لڑائی سپریم کورٹ تک جاپہنچی جہاں ایری زونا یہ مقدمہ جیت گیا۔ امریکی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ وفاقی حکومت دو ریاستوں میں بہنے والے دریا پر کانگریس کی رضامندی کے بغیر ڈیم تعمیر نہیں کرسکتی۔ کانگریس نے پارکرڈیم تعمیر کرنے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی اس نے وسطی ایری زونا میں وفاقی گیلاریور اری گیشن پراجیکٹ تعمیر کرنے کی بھی ہدایت کی اور یوں دونوں ریاستوں کو وہی کچھ مل گیا، جو وہ چاہتے تھے۔