خبرنامہ

دُنیا کے دیگر ممالک نے اپنے آبی تنازعات کو کیسے حل کیا ؟ (قسط نمبر3)….ظفر محمود ۔ چیئرمین واپڈا

یورپ ۔ دریائے ڈینیوب۔ آبی تنازعات کے باہمی حل کی روشن مثال
اگر دُنیا میں آبی تنازعات کے حل اور دریا ؤں کے مشترکہ انتظام کے حوالے سے مختلف ممالک کے درمیان باہمی تعاون کی سب سے زیادہ روشن مثال تلاش کرنی ہو تو میرا انتخاب دریائے ڈینیوب ہوگا۔
دریائے ڈینیوب 10 ممالک میں سے گزرتا ہے۔ یہ دریا2 ہزار 780 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی گزرگاہ جرمنی کے بلیک فاریسٹ سے بحر اسود تک پھیلی ہوئی ہے۔ کل8 لاکھ 17 ہزار مربع کلومیٹرپر اِس دریا کے آبی اثرات ہیں ، جس میں پورا ہنگری جبکہ رومانیہ، آسٹریا ، سلوینیا، کروشیا اور سلواکیہ کے بیشتر علاقے شامل ہیں ۔ اس کے ثمرات سے بلغاریہ، جرمنی، جمہوریہ چیک، مالدووا، سربیا، یوکرائن اور بوسنیا ہرزیگووینا کے بیشتر علاقے مستفید ہوتے ہیں۔ اٹلی، سوئیٹزرلینڈ، البانیہ اور پولینڈ کا کچھ حصہ بھی دریائے ڈینیوب کے زیر اثر ہے۔ دریائے ڈینیوب ایک ڈیلٹا بناتا ہوا بحرِ اسود میں جاگرتا ہے۔ یہ ڈیلٹا یورپ کا مرطوب زمین پر مشتمل دوسرا بڑا خطہّ ہے۔
19ویں صدی کے آغاز تک جہاز رانی اور دیگر مقاصد کیلئے دریائے ڈینیوب کے استعمال پر لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ جب اس دریا کے اردگرد واقع ممالک سیاسی اور عسکری گروہ بندی کا شکار ہوئے تو اِن لڑائی جھگڑوں کی پیچیدگی میں بھی اضافہ ہوا اور یہ زیادہ تواتر کے ساتھ رونما ہونے لگے۔چنانچہ اِن تنازعات کا حل تلاش کرنا مشکل اور خطرناک ہوتا گیا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس دریا کے پانی کی تقسیم خطّے میں تنازعہ کی بڑی وجہ نہیں تھی بلکہ عسکری اور تجارتی مقاصد کیلئے دریائے ڈینیوب کا استعمال تاریخ کے مختلف ادوار میں لڑائی جھگڑے کا سبب بنا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اِن تنازعات کی نوعیت بدل گئی اور اب ان میں سے بیشترکا تعلق سیلاب کی روک تھام اور آلودگی جیسے مسائل سے جڑ گیا۔ یورپی باشندوں کیلئے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ اِن مسائل کوکامیابی سے حل کرنے کیلئے دریائے ڈینیوب کے ارد گرد واقع ممالک کے درمیان 70 سے زائد دوطرفہ یا کثیر فریقی معاہدے طے پائے۔
یہ دریا ہمارے دریائے سندھ سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ دونوں دریاؤں میں بہنے والے پانی کی مقدار بھی تقریباً یکساں ہے۔ دریائے سندھ کی طرح دریائے ڈینیوب کا بالائی علاقہ بھی ایک پہاڑی ندی کی مانند ہے، جہاں پانی کا درجہ حرارت کم اور رفتار بہت تیزہے۔ وسطی ڈینیوب دھیما پڑنا شروع ہوتا ہے جبکہ اس کا پھیلاؤ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ زیریں ڈینیوب وسیع و عریض سیلابی میدانوں پر مشتمل ہے جہاں اس کی رفتار اور بھی کم ہو جاتی ہے۔
دریائے ڈینیوب پر پہلا ڈیم 1927ء میں ویلشوفن(Vilshofen) کے مقام پر تعمیر کیا گیا۔ یہ علاقہ زیریں باواریا (Lower Bavaria) میں واقع تھا ، جو اب جرمنی میں شامل ہے۔ اب تک دریائے ڈینیوب اور اس میں گرنے والے چھوٹے دریاؤں پر 700 سے زائد ڈیم بنائے جاچکے ہیں ۔ دریائے ڈینیوب کا بالائی حصہ اپنے قدرتی بہاؤ کی بدولت پن بجلی کے منصوبوں کی پیداوار کیلئے انتہائی موزوں ہے۔ ڈینیوب پر تعمیر کئے گئے 62بڑے ڈیموں میں سے 59دریا کے پہلے ایک ہزار کلومیٹر پر واقع ہیں ۔ باقی تین میں سے ایک سلواکیہ جبکہ دو ڈیم سربیا اور رومانیہ کے درمیان آئرن گیٹس پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ بالائی ڈینیوب پر اوسطاً ہر 16 کلومیٹر پر ایک ڈیم اور اس سے متّصل آبی ذخیرہ موجود ہے۔ دریائے ڈینیوب پر تعمیر کئے گئے پن بجلی منصوبوں کی مجموعی پیداواری صلاحیت 29 ہزار 200 میگاواٹ ہے۔ اس دریا پر تعمیر کئے گئے سب سے بڑے دو ڈیم آئرن گیٹ ڈیم I اور آئرن گیٹ ڈیم I I ہیں، جنہیں بالترتیب 1972 ء اور 1984 ء میں مکمل کیا گیا تھا۔ یہ دونوں ڈیم سربیا اور رومانیہ کے درمیان سرحد کا حصہ ہیں اور ان پر دو پن بجلی گھر بھی قائم ہیں ۔ دریائے ڈینیوب کے تحفظ کیلئے قائم انٹرنیشنل کمیشن کے مطابق ڈینیوب کا تقریباً 80 فیصدحصہ سیلاب کی روک تھام کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے ۔ جبکہ اس کی کل لمبائی کے تقریباً 30فیصد حصے میں پن بجلی کی پیداوار کیلئے اضافی پانی جمع کیا جاتا ہے۔ سیلاب کی روک تھام اور پن بجلی کی پیداوار کیلئے استعمال ہونے والے دریا کے حصے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ واقع ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم سے قبل یورپی کمیشن دریائے ڈینیوب کے انتظام کا ذمہ دار تھا۔ لیکن اِس جنگ کے اختتام پر 1948 ء میں بلغراد میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں وفود کی اکثریت نے ، جن کا تعلق مشرقی علاقے میں واقع ممالک پر مشتمل بلاک سے تھا، دریا کے کنٹرول کو گزرگاہ کے استعمال کے حوالے سے ہر ملک کی اپنی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ بلغراد کنونشن نے کمیشن کو جزوی قانون سازی کے اختیارات بھی دیئے، تاہم اس قانون سازی کا دائرہ محض جہازرانی اور جانچ پڑتال کے عمل تک محدود تھا۔ تاریخی طور پر کمیشن کی سب سے بڑی ذمہ داری دریا میں جہاز رانی کیلئے سازگار حالات کو یقینی بنانارہا ہے۔ علاوہ ازیں کمیشن نے دریا پر پراجیکٹس کی تعمیر کیلئے علاقائی طور پر بھی منصوبہ بندی کی ہے۔ کمیشن کا اجلاس سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے تاہم کمیشن کا خصوصی سیشن بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ کسی بھی تجویز کی منظوری کیلئے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے لیکن عملی طور پرتمام امور اتفاقِ رائے سے طے کئے جاتے ہیں۔
کمیشن آج کل دریا میں آلودگی کے مسئلے سے نبردآزما ہے۔ ڈینیوب متعدد بڑے شہروں بشمول چار دارالحکومتوںیعنی ویانا، بریٹسلاوا، بڈاپسٹ اور بلغراد سے گزرتا ہے ۔ اس دوران لاکھوں افراد کے استعمال شدہ پانی کی گندگی کے ساتھ ساتھ زرعی اور صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے آلودہ ہونے والاپانی بھی ڈینیوب میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ دریا میں پانی کے گرتے ہوئے معیار کو بھانپتے ہوئے دریائے ڈینیوب کے اردگرد واقع ممالک نے بخارسٹ کے اعلامیہ پر دستخط کئے۔ یہ قابلِ تعریف پیش رفت 1985 ء میں ہوئی، جس کی بدولت ڈینیوب ریور پروٹیکشن کنونشن1994 ء کی راہ ہموار ہوئی۔
جنوب مشرقی ایشیا۔دریائے می کونگ ۔ تعاون اور اختلاف کا امتزاج
جنوب مشرقی ایشیا میں دریاؤں کی مینجمنٹ کی ایک دلچسپ مثال میکونگ دریا سے متعلق ہے۔ پانی کے بہاؤ کے اعتبار سے یہ دُنیا کا آٹھواں بڑا اورلمبائی کے لحاظ سے بارہواں بڑا دریا ہے۔ اس دریا کا آغاز جنوب مغربی چین کے صوبے چنگھائی (Qinghai)میں سطح مرتفع تبّت کے ٹنگھلا (Tanghla) پہاڑی سلسلے میں 4 ہزار 500 میٹر کی بلندی سے ہوتا ہے۔ یہ دریا 4 ہزار 880 کلومیٹر طویل ہے اور چین، میانمار، لاؤس، تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور ویتنام سے گزرتا ہوا ساؤتھ چائنا سمندر میں جاگرتا ہے۔ یہ خطہ آزادی کیلئے لڑی جانے والی جنگوں،ممالک کے درمیان تنازعات اور ان کے اندرونی خلفشارکا شکار رہا ہے۔ یہاں پر بسنے والے لوگوں کی زندگیوں پراِس تباہی کے دوران سماجی، اقتصادی اور ثقافتی اثرات مرتب ہوئے۔ ان سب باتوں کے باوجود میکونگ بیسن جنوب مشرقی ایشیا میں معاشی خوشحالی کے ایک بڑے وسیلے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ برسات کے دنوں میں یہ لوگوں کیلئے مشکلات کا باعث بھی بنتا ہے۔1961ء،1978ء،1991ء،1996ء اور2000ء میں اس دریا کی بدولت خطے میں بڑے پیمانے پر تباہی آئی۔خشک موسم کے دوران خطے کے اندر بالخصوص میکونگ ڈیلٹا کے جنوب مغربی حصے میں پانی کی قلت بھی پیدا ہوجاتی ہے اور نتیجتاً زیریں ڈیلٹا میں سمندر کا پانی اوپر چڑھ آتا ہے۔ میکونگ دنیا کے کم ترقی یافتہ علاقوں کے دریاؤں میں سے ایک ہے ۔ لہٰذا دریا کے اردگرد واقع متضاد خیال خطّوں اور ممالک کے درمیان دریا کے مشترکہ انتظام کو چلانے میں تاریخی طورپر دشواریاں حائل رہی ہیں۔ زیریں طاس میں آبی وسائل کے ترقیاتی منصوبوں کی پلاننگ اور تحقیق کیلئے باہمی رابطے، نگرانی اور کنٹرول کی غرض سے 1957ء میں اقوام متحدہ اور دیگر مغربی ممالک کی مدد سے میکونگ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔یہ کمیٹی کمبوڈیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویت نام پر مشتمل ہے۔ 1995 ء میں اس کمیٹی کی میکونگ ریور کمیشن کے طور پر ازسرِنو توثیق کی گئی۔ 1996 ء میں چین اور میانمار میکونگ ریور کمیشن کے ڈائیلاگ پارٹنرز بنے اور اب یہ سب ممالک ایک فریم ورک کے تحت مل جل کر کام کر رہے ہیں۔ میکونگ کا انتظام ایک بین الاقوامی دریا پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کیلئے جامع سوچ کا نہایت کامیاب اطلاق ہے۔
کمیٹی اور بعد ازاں کمیشن کی پوری تاریخ میں پانی کی حصہ بندی کبھی مسئلے کے طور پر سامنے نہیں آئی۔کیونکہ1975 ء میں پانی کے ’’موزوں اور منصفانہ استعمال‘‘ کی تفصیلات طے ہوجانے کے بعد سے اب تک ان پر عمل کیا جارہا ہے۔
1965 ء میں نام نگم(Nam Ngum) دریا پر پن بجلی کی پیداوار کیلئے لاؤس اور تھائی لینڈ نے ایک اورمعاہدے پر دستخط کئے۔ نام نگم لاؤس میں واقع ہے اور یہ میکونگ کا معاون دریا ہے۔ معاہدے کے تحت تھائی لینڈ نے لاؤس سے فاضل بجلی خریدنے پر رضامندی ظاہر کی۔ دونوں ممالک کے درمیان شدید تناؤ کے باوجود بجلی کی خرید و فروخت میں کبھی تعطل نہیں آیا۔
چین کی تیزی سے پھلتی پھولتی معیشت، آبادی میں اضافہ، زرعی پیداوار میں اضافہ کی ضرورت، گھریلواستعمال میں پانی کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور بجلی کی قلت جیسے عوامل نے چینی حکام کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ بالائی علاقے میں میکونگ دریا کے وسائل سے استفادہ کریں ۔ لہٰذا یہ بات تعجب کا باعث نہیں ہے کہ چین نے پن بجلی کی پیداوار کیلئے میکونگ دریا پر 15 ڈیم تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ چین کی جانب سے یکطرفہ طور پر ان ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر سے میکونگ دریا کے زیریں علاقوں میں واقع ممالک میں شدید تشویش پائی جاتی ہے ۔ میکونگ ریور کمیشن کیلئے ایک اور بڑی آزمائش یہ بھی ہے کہ لاؤس اور تھائی لینڈ نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ میکونگ دریا پر ڈیم بنائیں گے۔ کمبوڈیا اور ویت نام نے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی ہے۔ اگرچہ میکونگ ریور کمیشن طاقتور فورم نہیں ہے لیکن اس کی بدولت رکن ممالک کو ایک ایسا پلیٹ فارم ضرور میسر ہے جہاں وہ اس نوعیت کے گھمبیرمسائل زیرِ بحث لاسکتے ہیں۔