خبرنامہ

دُنیا کے دیگر ممالک نے اپنے آبی تنازعات کو کیسے حل کیا ؟ (قسط نمبر4)…ظفر محمود ۔ چیئرمین واپڈا

سرائیل، اُردن اور تنظیم آزادئ فلسطین کے درمیان 1994 ء کا امن معاہدہ۔ دشمن ممالک کے مابین تعاون
یہ معاہدہ اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ پانی کے مسائل اُن ممالک کے درمیان بھی حل ہوسکتے ہیں جو ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ دریائے اُردن ایسے پانچ ممالک کے درمیان بہتا ہے ،جو آپس میں جنگیں لڑ چکے ہیں۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے بارانی خطہ میں واقع ہے۔ اس لئے یہاں پانی کی قلت کی وجہ سے پائیدار امن اور سلامتی کے حوالے سے اضافی خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔ دریائے اُردن کے بارے میں اہم مسئلہ یہ تھا کہ اس دریا کے اردگرد واقع ممالک یعنی اسرائیل، اُردن، لبنان اور شام کے درمیان پانی کے سالانہ بہاؤ کی منصفانہ تقسیم کیسے کی جائے؟ فریقین کے درمیان عدم اعتماد کو دور کرنے کیلئے کسی غیر جانبدار شخصیت کی ثالثی درکار تھی۔ چنانچہ یہ فریضہ امریکہ کے خصوصی ایلچی نے سرانجام دیا۔چونکہ اس خطے میں پانی کا زمین، مہاجرین اور سیاسی خودمختاری جیسے دیگر متنازعہ امور کے ساتھ گہرا تعلق تھا اور ہے ، اس لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی ایرک جونسٹن سے موسوم ’’جونسٹن مذاکرات‘‘کے ذریعے ان تمام ممالک کے درمیان پانی کے حقوق کے بارے میں تنازعہ پر ثالثی کی کوشش کی گئی۔تمام ممالک کیلئے قابلِ قبول مشترکہ پلان میں عربوں اور اسرائیل کی تجاویز کو ہم آہنگ کیا گیا۔ امریکہ نے پیشکش کی کہ وہ دریائے اُردن کے ترقیاتی کاموں پر اُٹھنے والی لاگت کا دوتہائی حصہ ادا کرے گا۔ ابتداء میں عربوں نے اس پر اعتراض کیا لیکن بالآخر وہ اس بارے میں بین الاقوامی نگرانی پر رضامند ہوگئے ۔ مشترکہ (یونیفائیڈ) پلان بنا جو بعد ازاں جونسٹن پلان کے نام سے مشہور ہوا۔اس پلان میں تمام ممالک کیلئے دریائے اُردن کے پانی کے حصے مختص کئے گئے اور 0.324 ملین ایکڑ فٹ اسرائیل،0.584 ملین ایکڑ فٹ اُردن،0.107 ملین ایکڑ فٹ شام اور 0.028 ملین ایکڑ فٹ پانی لبنان کو دیا گیا۔ اگرچہ اس معاہدے کی کبھی توثیق نہیں کی گئی لیکن تمام فریقین نے اس معاہدے کی عمومی تیکنیکی جزئیات اور پانی کی حصہ بندی پر عمل کیا ہے۔
1967 ء کی اسرائیل۔ عرب جنگ کے دوران اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ گولان کی پہاڑیاں دریائے اُردن سمیت مشرقِ وسطیٰ کیلئے پانی کا بڑا منبع ہیں۔ 1978 ء میں اسرائیل کی لبنان کے خلاف جارحیت اور فلسطینی سرزمین کو اپنے اندر ضم کرنے کی ایک بڑی وجہ پانی بھی تھا۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھرپور سفارتی کوششوں کے باعث اُردن اور اسرائیل دریائے اُردن میں شراکت داری اور پانی کی تقسیم کے معاہدے پر متفق ہوگئے۔
1994 ء کا یہ معاہدہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تمام متنازعہ معاملات کو حل کرنے کیلئے امن کے مربوط انتظام کا ایک حصہ ہے۔ اس معاہدے کا آرٹیکل 6 اور Annex-2 دونوں ممالک کے درمیان پانی کی حصہ بندی اور ایک دوسرے کے سرحدی علاقوں میں دریائی اور زیرِ زمین پانی کے وسائل کے حوالے سے حقوق اور فرائض سے متعلق ہے۔ یہ معاہدہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان پانی کی سالانہ حصہ بندی اور پانی کی مقدارمیں اضافہ کیلئے طریقۂ کار سے متعلق رہنمائی کرتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق پانی کے مشترکہ وسائل کا کسی دوسرے ملک کے لئے ضرررساں استعمال قطعی طور پر ممنوع ہے۔ اس پلان میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ ہر ملک کیلئے پانی کا حصہ دریاکے زیرِاثر قابلِ کاشت رقبے کی بنیاد پر متعین کیا جائے گا۔ یہ پلان ہر ملک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا پانی اپنی منشا کے مطابق استعمال کرے اور اگر وہ چاہے تو اپنے حصے کے پانی کو دریائے اُردن کے بیسن سے باہر بھی منتقل کر سکتا ہے۔
بعد ازاں اسرائیل، اُردن اور تنظیمِ آزادی فلسطین کے درمیان ’’ناروے امن اقدامات‘‘ کے زیراہتمام مشترکہ پانی کی تقسیم کے بارے میں معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی وجہ سے باہمی تعاون کے ذریعے فریقین کے لئے دریائی اور زیرِزمین پانی کا پائیدار اور منصفانہ استعمال ممکن ہوا۔ 1994 ء کے امن معاہدے کے ایک جزو کے طور پر اُردن، اسرائیل میں واقع جھیل کے اندر پانی ذخیرہ کرتا ہے جبکہ اسرائیل اس کے عوض اُردن کی اراضی اور کنویں استعمال کرتاہے۔
دجلہ اور فرات ۔ خود مختار ی کے حق کا استعمال ۔ پانی اور سیاسی معاملات کا گٹھ جوڑ
دریائے دجلہ اور دریائے فرات کا آغاز ترکی سے ہوتا ہے اور یہ شام سے گزرتے ہوئے عراق میں داخل ہوتے ہیں ۔ ان دریاؤں کے پانی کے استعمال سے متعلق امور کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دریا کے بالائی علاقے میں واقع ملک کا زیریں علاقے میں واقع ممالک سے سیاسی تنازعہ ہو تو وہ کس طرح اپنے علاقے میں پانی پر حقِّ خودمختاری استعمال کرتا ہے۔
ترکی سے شروع ہونے والا دریائے فرات شام سے بہتے ہوئے عراق کے اندر دریائے دجلہ میں جاملتا ہے۔ جہاں یہ شط العرب کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر خلیجِ فارس میں جاگرتا ہے۔ دریائے فرات مغربی ایشیا کا سب سے طویل دریا ہے۔ اگرچہ یہ دریا تین ممالک یعنی ترکی، شام اور عراق میں بہتا ہے لیکن اس کا طاس پانچ ممالک میں منقسم ہے۔ اس طاس کا 47 فیصد عراق، 28فیصد ترکی، 22 فیصد شام، 2.97 فیصد سعودی عرب اور 0.03 فیصد اُردن میں ہے۔ اِس بیسن کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ ہے۔ دریائے فرات کے مجموعی پانی کا 89 فیصد ترکی میں واقع 28 فیصد طاس سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شام میں دریا کے بیسن کا 22فیصد واقع ہے لیکن یہاں سے صرف 11 فیصد پانی دریائے فرات میں شامل ہوتا ہے، کیونکہ یہاں مقابلتاً کم بارش ہوتی ہے۔ باقی ممالک سے بہت معمولی مقدار میں پانی دریائے فرات میں شامل ہوتا ہے۔
1973 ء سے قبل دریائے فرات میں کم و بیش پانی کا فطری بہاؤ تھا کیونکہ ترکی میں دریا کے پانی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں تھا۔ 1974 ء میں ترکی میں کیبان ڈیم اور 1975 ء میں شام میں طبقا ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے فرات کے اندر پانی کا بہاؤ تبدیل ہوگیا۔ 1992 ء میں ترکی میں اتاترک ڈیم اوراس ڈیم سے متصل نظامِ آبپاشی کی تعمیرکی بدولت دریا میں پانی کا بہاؤ مزید متاثر ہوا۔
ترکی ، شام اور عراق کے اندر دریائے فرات کے طاس میں پانی کا استعمال آبپاشی، پن بجلی کی پیداوار اور آب نوشی جیسے مقاصد کے لئے کیا جاتا ہے۔ زراعت کیلئے اس کا استعمال سب سے زیادہ یعنی 70 فیصد ہے ۔ ترکی میں واقع دریائے فرات کے بالائی حصے میں جنوب مشرقی اناطولیہ پراجیکٹ کی تعمیر نے حالیہ عشرے میں دریا کے قدرتی بہاؤ کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ دریائے فرات پر مختلف ڈیموں کے ذریعے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 116 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ جبکہ اس دریا میں پانی کا سالانہ بہاؤ 24 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ یعنی دریا میں ہر سال دستیاب پانی کے مقابلے میں ذخیرہ کرنے کی صلاحیت چار سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
ترکی اور شام میں ڈیموں کی تعمیرشروع ہونے سے قبل دریائے فرات کا زیادہ تر پانی عراق استعمال کرتا تھا۔ دریائے فرات کے گرد واقع عراق وہ پہلا ملک ہے جس نے آبپاشی کیلئے دریا پر انجینئرنگ منصوبے تعمیر کئے اور ان کی مدد سے شام کے مقابلے میں 5گنا جبکہ ترکی کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ اراضی سیراب کی۔ لیکن 1960 ء کی دہائی کے آخر تک شام اور ترکی میں تعمیر کئے جانے والے آبپاشی کے منصوبوں کی تعداد عراقی منصوبوں سے تجاوز کر چکی تھی۔
دریائے فرات اور دریائے دجلہ کے بارے میں پہلا معاہدہ 1920 ء میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان طے پایا۔ فرانس نے معاہدے پر شام کی جانب سے جبکہ برطانیہ نے عراق کی جانب سے دستخط کئے۔1980ء کے عشرے میں طے پانے والے دیگر دو معاہدوں نے بھی دریائے فرات کے پانی کی تقسیم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1987 ء میں شام اور ترکی نے اقتصادی تعاون کے پروٹوکول پر دستخط کئے۔ جس کے تحت ترکی اس بات پر رضامند ہوگیا کہ وہ شام کی سرحد کے پار کم از کم اوسطاً 500 کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی دریا میں چھوڑے گا۔جبکہ 1990 ء میں دوسرے معاہدے کی رُو سے عراق اور شام میں یہ بات طے پائی کہ ترکی سے شام کی حدود میں داخل ہونے والے پانی کی مجموعی مقدار کا 42 فیصد شام اور 58 فیصد عراق کیلئے مختص ہوگا۔
1974 ء کے وسط میں شام نے عراق کی یہ درخواست قبول کر لی کہ وہ طبقا سے بھی 0.162 ملین ایکڑ فٹ پانی کی اضافی مقدارعراق کو مہیا کرے گا۔ تاہم آنے والے برسوں میں عراق نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کیلئے پانی کے بہاؤ میں شدید کمی آگئی ہے اور یہ 920 مکعب میٹر فی سیکنڈ کے عمومی بہاؤ سے کم ہوکر 197 مکعب میٹر فی سیکنڈ کی ’’ناقابلِ برداشت‘‘ سطح پر آگیا ہے۔ عراق نے عرب لیگ سے اس معاملے میں مداخلت کا مطالبہ کیا۔مئی 1975 ء میں شام نے عراقی پروازوں کیلئے اپنی فضائی حدود بند کردیں جبکہ عراق اور شام نے مبینہ طور پر اپنی افواج مشترکہ سرحد پر منتقل کر دیں۔ سعودی عرب کی ثالثی کی بدولت دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ ختم ہوا اور 3 جون 1975 ء میں فریقین کے مابین وہ معاہدہ طے پایا جس کی بدولت دونوں ملکوں کے سر پرجنگ کی لٹکتی تلوار دور ہوئی ۔دوسری طرف شام کی جانب سے علیحدگی پسند کُردوں کی مدد کرنے سے ترکی اور شام کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تو پانی کے مسائل نے بھی پوری شدت کے ساتھ سر اٹھا لیا۔ جب ترکی نے 1997ء میں کُرد باغیوں پر حملہ کرنے کیلئے شمالی عراق میں چڑھائی کی تو ترکی اور عراق کے درمیان عسکری تناؤ مزید بڑھ گیا۔ اگست 1998 ء میں ترکی نے دھمکی دی کہ اگر شام نے کُرد باغیوں کی مدد جاری رکھی تو وہ شام پر حملہ کر دے گا ۔تاہم 2001ء میں ایک اہم پیش رفت ہوئی اور عدآنہ معاہدے کی رُو سے شام اس بات پر رضامند ہوگیا کہ وہ اپنے ملک میں کُرد باغیوں پر پابندی عائد کر دے گا اور تُرکی میں برسرپیکار کُرد باغیوں کی امداد سے بھی دست بردار ہوجائے گا۔ اور اس کے بدلے میں ترکی مشترکہ دریاؤں میں پانی کے بلاتعطل بہاؤ کو یقینی بنائے گا۔
اس تنازعہ میں جہاں سیاست اور پانی کے مسائل ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں، عراق کی پوزیشن خاصی کمزور ہے، کیونکہ تاریخی طور پر اس ملک میں بلاروک ٹوک آنے والا پانی بالائی ممالک میں تعمیر کئے گئے منصوبوں کی بدولت کم ہوچکا ہے جبکہ عراق میں قابلِ کاشت اراضی کا 30 فیصد حصہ آبپاشی کے فرسُودہ طریقوں، دریائے فرات کے بالائی علاقوں میں واقع ممالک کے عدم تعاون اور زمین میں نمکیات کی مقدار بڑھنے سے متروک ہوچکا ہے۔ تاہم ترکی یہ سمجھتا ہے کہ دریائے فرات میں 90فیصد پانی جبکہ دجلہ میں 50فیصد پانی اُس کے علاقوں سے شامل ہوتا ہے ،لہٰذا یہ پانی اُس کی ملکیت ہے۔ ترکی کے سابق وزیر اعظم سلیمان ڈیمرل نے 1992ء میں اپنے ایک بیان میں اس حوالے سے ترکی کی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا :
’’ہم نہیں کہتے کہ آپ کے تیل میں ہمارا حصہ ہے ، لہٰذا وہ بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمارے آبی وسائل میں شراکت دار ہیں ۔ یہ حقِ خود مختاری ہے اور ہمیں اپنی مرضی کے مطابق ہر کام کرنے کا حق حاصل ہے۔‘‘
سیاسی مسئلے پر جاری عدم تعاون کے باعث آبی وسائل پر حق خود مختاری کے حوالے سے ترکی کی پوزیشن میں سخت گیری آچکی ہے اور پانی کے مسئلے پر تینوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہنوز نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔