خبرنامہ

ون یونٹ پر سندھ کے خدشات..قسط 10….ظفر محمود چیئر مین واپڈا

سندھ میں رائے عامہ کے ایک حصے کا خیال ہے کہ اُن کے صوبے کو آبی حقوق سے محروم کرنے کے لئے مغربی پاکستان کو وَن یونٹ بنایا گیا تھا۔ مقصد تھا کہ بھارت سے مذاکرات کے عمل جس کے نتیجے میں سندھ طاس معاہدہ ہوا اُس سے صوبہ سندھ کو علیحدہ رکھا جائے۔

اگرچہ اس تصور کا کالاباغ ڈیم منصوبے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے تاہم میں نے اس موضوع کا انتخاب اس لئے کیا ہے تاکہ وَن یونٹ کے قیام اور سندھ طاس معاہدے کی منظوری کے بارے میں عدم اعتماد کو دور کیا جاسکے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پانی کے مسائل پر بھارت کے ساتھ مذاکرات 1947ء سے 1960ء تک جاری رہے اور اِسی دوران 1955ء میں صوبہ سندھ کو وَن یونٹ میں ضم کر دیا گیا ۔ آیا ایسا سندھ کی منشا کے بغیر کیا گیا تھا اور کیا بھارت کے ساتھ مذاکرات سے صوبہ سندھ کو علیحدہ رکھنے کے لئے ہی ون یونٹ کے نئے آئینی ڈھانچے کا انتظام کیا گیا تھا؟
بدقسمتی سے پنجاب میں کالاباغ ڈیم کی حمایت کرنے والے وَن یونٹ کے قیام اور سندھ طاس معاہدہ جیسے معاملات پر صوبہ سندھ کی حساسیت کو سمجھ نہیں پاتے ۔سندھ میں رائے عامہ کا ایک حصہ اِسے غالباً مختلف زاویے سے دیکھتا ہے۔ وہ نہایت احتیاط کے ساتھ مرتب کئے گئے اس بیانیہ پر یقین رکھتا ہے کہ حصول آزادی کے بعد پنجاب کے غلبہ کے زیرِ اثر پاکستانی قیادت نے پہلے تو وَن یونٹ کے قیام کے ساتھ سندھ کی سیاسی شناخت چھین لی اور بعد ازاں اس سیاسی خلا میں ایک ایسے معاہدے پر اتفاق کیا جو صوبہ سندھ کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتاتھا۔ اُن کے نزدیک انڈس بیسن ری پلیسمنٹ ورکس(Indus Basin Replacement Works) بھی اس طرح ڈیزائن کیا گیا کہ سندھ پانی کے اپنے جائز حصے سے محروم ہوجائے، علاوہ ازیں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبوں میں اِن ترقیاتی کاموں کی بدولت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے راہ ہموار کی جاسکے ۔ اُن کی فہم کے مطابق یہ سب کچھ سندھ کی قیمت پر کیا گیا، جس نے ان کاموں کیلئے حاصل کئے گئے قرضوں سے استفادہ تو نہیں کیا، لیکن وہ ان کی ادائیگی کیلئے مساوی طور پر ذمہ دار ٹھہرا۔اس بیانیہ کا خاکہ جوش و جذبے کے ساتھ نہایت خوبصورتی سے تشکیل دیا گیا ہے ایک مہم جو کے انداز میں وہ پنجابی ذہن کے تاریک ترین نہاں خانوں میں وہ منفی رویے تلاش کرتے ہیں جو ابھی دریافت بھی نہیں ہوئے۔ ایک مصنف جنہوں نے وَن یونٹ کے قیام کو پانی کے معاملات کے ساتھ منسلک کیا ہے، محترم ایم ایچ پینہور ہیں۔ یہ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں اور ستارۂ امتیاز کے اعزاز کے ساتھ اُن کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے فروری 2001ء میں انور پیرزادہ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں نشاندہی کی کہ ’’1954ء میں ایوب کھوڑو نے 11 پیشگی شرائط کے ساتھ وَن یونٹ کے قیام کو منظور کیا تھا۔ اوّلین شرط یہ تھی کہ ’’ پانی کی تقسیم سے متعلق 1945 ء کا معاہدہ برقرار رہے گا۔‘‘
اِس بیان کو دیکھنے پر تجسس پیدا ہوا، کیونکہ سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم سے متعلق 1945 ء میں معاہدے کا مسودہ تو تیار ہوا تھا مگر ان دونوں صوبائی حکومتوں اور نہ ہی برطانوی راج کے زیرانتظام وفاق کی ان دو اکائیوں کی صوبائی اسمبلیوں نے اس کی توثیق کی تھی۔ میں نے وَن یونٹ کے بارے میں سندھ اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود دستاویزات کا جائزہ لیا اور سندھ اسمبلی کی اس مکمل قرارداد کا مطالعہ کیا جس میں وفاق کو وَن یونٹ سکیم اختیار کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔سرکاری ریکارڈ میں اس بات کی کہیں نشاندہی موجود نہیں ہے کہ اِس سیاسی سکیم کو اختیارکرنے کاعمل کسی بھی لحاظ سے پانی کے معاملات کے ساتھ جڑا ہوا تھا ۔ مزید برآں تقریباً تمام سیاسی مؤرخین نے وَن یونٹ سکیم کے بارے میں بہت کچھ تحریر کیا ہے مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اسے پانی کے معاملات کے ساتھ منسلک نہیں کیا۔وہ اسے صرف مشرقی پاکستان کی اکثریت کو تسلیم نہ کرنے اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے اشتراک کو مشرقی پاکستان کے مساوی لانے کی سیاسی کوشش سمجھتے ہیں۔
اِسی بیانیہ میں ایک اور مفروضہ بھی موجود ہے جس کے مطابق وَن یونٹ بنانے کا مقصد پانی کی تقسیم کے معاہدے سے سندھ کی صوبائی حکومت کو علیحدہ کرناتھا ۔ مناسب ہوگا کہ اس مفروضے کا جائزہ لینے سے پہلے سندھ طاس معاہدے کے پس منظر کا اجمالی تذکرہ کیا جائے ۔ مئی 1948 ء میں رونما ہونے والے آبی تنازعہ کو حل کرنے کیلئے دو ممکنہ طریقے تھے۔
(الف) بھارت کے ساتھ مل کر سندھ طاس کا مشترکہ انتظام و انصرام کیا جائے۔
( ب) دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں کی مستقل طور پر تقسیم کی جائے۔
مذکورہ بالادونوں صورتوں میں شمال کے بالائی علاقوں میں بہنے والے دریاؤں کے پانی کو جنوب کے زیریں علاقوں میں بہنے والے دریاؤں میں منتقل کرنے کی ضرورت تھی۔
امریکہ اور یورپی اقوام اِس تنازعہ کے پر امن اور مستقل حل کے خواہش مند تھے۔ عالمی بنک نے اس معاملے میں مداخلت کی اور سندھ طاس کے انتظام و انصرام کیلئے دونوں ملکوں کے مشترکہ نظام کی حمایت کی۔ڈیوڈ للی اینتھل(David Lilienthal)کو اس مقصد کیلئے بھارت اور پاکستان بھیجا گیا۔ للی اینتھل تعلیم یافتہ اور انتہائی قابل انسان تھے۔ وہ ہارورڈ لاء سکول سے فارغ التحصیل تھے اور انہوں نے ٹینسی ویلی اتھارٹی (Tennessee Valley Authority) کے معاملات کو نہایت مہارت کے ساتھ چلایا تھا۔ اس منصوبے کی بدولت سات ریاستوں کے آبی وسائل کے منصفانہ اور مؤثر انتظام کی وجہ سے علاقے میں خوشحالی آچکی تھی۔ ٹینسی ویلی اتھارٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے امریکہ کے اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ انہیں سندھ طاس کے انتظام کیلئے ممکنہ حل تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ للی اینتھل بھارت اور پاکستان آئے ، لیاقت علی خان اور جواہرلال نہروسے ملاقات کی اورامریکہ واپس جا کر اُنہوں نے کولیئرزمیگزین(Collier`s Magazine)کے اگست 1951 ء کے شمارے میں ’’ایک اور کوریا بننے کو ہے‘‘ کے عنوان سے مضمون تحریر کیا۔ ٹینسی ویلی اتھارٹی میں اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ سندھ طاس کے دریاؤں کا انتظام بھارت اور پاکستان مشترکہ طور پر کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون میں جو نتائج اخذ کئے وہ حوالہ کے طور پر پیش کئے جانے کے لائق ہیں۔ نہری نظام اور بیراجوں کے خطِ تقسیم کو دیکھنے کے بعد ان کی رائے تھی کہ ’’کسی کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ برصغیرکی تقسیم میں پنجاب کیلئے زندگی کا درجہ رکھنے والے پانی کے معاملات میں اس قدر بے دردی کا مظاہرہ کیوں کیا گیا ہے۔‘‘
اگر ہم اس غیرجانبدار مُبصر کی ذیل میں دی گئی رائے کا بغور مطالعہ کریں تو اِس سے آبی تنازعہ اور نتیجتاً طے پانے والے سندھ طاس معاہدے پر ہماری ذہنیت اور سوچ میں موجود ابہام کی وضاحت ہوجائے گی۔ انہوں نے تحریر کیا کہ ’’ تقسیم سے ہندوستان کو، تقریباً نہ ہونے کے برابر نہریں اور نظامِ آبپاشی سے سیراب اراضی ملی۔سندھ طاس میں 2 کروڑ 20 لاکھ ایکڑ آبپاش زمین میں سے پاکستان کے پاس ایک کروڑ 80 لاکھ ایکڑ اراضی موجود ہے، جبکہ بھارت کے پاس تقریباً 50لاکھ ایکڑ آبپاش اراضی ہے۔ بھارت کے حصے میں سندھ طاس کا جو رقبہ آیا ہے وہاں 2 کروڑ لوگ آباد ہیں جبکہ پاکستان کے حصے میں آنے والے سندھ طاس کے علاقوں میں کم و بیش 2 کروڑ 20 لاکھ لوگ آباد ہیں۔ سندھ طاس کے بھارتی حصے میں 3کروڑ 50 لاکھ ایکڑ مزید اراضی واقع ہے۔ اگر اس اراضی کو سیراب کیا جائے تو غذائی پیداوار بڑھ سکتی ہے جو نہایت مفید ہوگی۔ چنانچہ بھارت نہروں، ہیڈورکس اور ڈیموں کی تعمیر پر پوری رفتار سے پیش رفت کر رہا ہے تاکہ مذکورہ 3 کروڑ 50 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کرنے کیلئے بالائی جانب سے پانی کے بہاؤ کو تبدیل کیا جاسکے۔‘‘
پاکستان کے ردّعمل کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت کے مذکورہ عمل سے وہ اس پانی سے محروم ہوجائے گا جس پر اُس کا قانونی اور اخلاقی حق بنتا ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ یہ اُس کا پانی ہے، اُس کے ڈیم ہیں اور اُس کے باشندوں کو بھی خوراک چاہیء۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ چنانچہ اس وجہ سے ایک تلخ تنازعہ نے جنم لیا، ایک ایسا تنازعہ جس سے 4 کروڑ 20 لاکھ لوگوں کی زندگی وابستہ ہے۔‘‘ اُنہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’’یہ خالصتاً بارود ہے۔ اس آتش گیر مواد کی موجودگی میں برصغیر پاک و ہند میں امن ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر پانی پر جلد کوئی بہتر حل سامنے نہ آیا، امن قائم نہیں ہوگا چاہے کشمیر میں استصوابِ رائے ہی کیوں نہ کرا دیا جائے‘‘۔
اُنہوں نے درج ذیل الفاظ میں ممکنہ حل تجویز کیا’’ دریائے سندھ کے پورے نظام کو ایک مربوط اکائی کے طور پر ترقی دی جانی چاہیء، اور امریکہ میں سات ریاستوں کے مابین تشکیل پانے والے ٹینسی ویلی اتھارٹی سسٹم کی مانند اِسے ایک یونٹ کے طور پر ہی ڈیزائن اور تعمیر کیا جانا چاہیء۔‘‘
یہ بات عیاں ہے کہ 1951 ء میں سندھ طاس کو مشترکہ طور پر ترقی دینے اور اس کے انتظام و انصرام کیلئے بھارت کے ساتھ تعاون ایک موہوم اور ناقابلِ قبول تجویز تھی۔ تو پھر متبادل کیا تھا؟ للی اینتھل کے اندازے کے مطابق آبی تنازعہ نہایت خطرناک تھا۔ بظاہر یہ ڈرامائی بات دکھائی دیتی ہے لیکن پانی کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا خطرہ مسئلہ کشمیر سے بھی زیادہ تھا۔ اِسی لئے دونوں ملکوں پر پانی کی تقسیم کے معاملے کو طے کرنے کیلئے بے انتہا دباؤ تھا۔
بھارت اور پاکستان کی جانب سے سندھ طاس کے مشترکہ انتظام کی بابت دستیاب آپشن کے بارے میں مجید اختر نے 2013 ء میں
The Geopolitics of Infrastructure: Development, Expertise and Nation on the Indus River کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔ وہ اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لے کر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’ 1954 ء میں للی اینتھل کی جانب سے پیش کئے گئے سندھ طاس کے مشترکہ نظام کا تصور رسمی طور پر ترک کر دیا گیا تھا، اور تمام فریقین نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ سندھ طاس کے دریاؤں کا بٹوارہ ہونا چاہئے جس کے تحت مغربی دریا پاکستان جبکہ مشرقی دریا بھارت کو دے دیئے جائیں۔ پاکستان نے اس بات پر اصرار کیا کہ یہ بٹوارہ دریائی پانی کی منتقلی کے بڑے منصوبوں کے بغیر نہیں کیا جا سکتا ۔ ان ترقیاتی کاموں کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو کھیت مشرقی دریاؤں سے سیراب ہوتے ہیں، وہ دریاؤں کے پانی کی منتقلی کے ساتھ بدستور سیراب ہوتے رہیں ۔
وَن یونٹ اور سندھ طاس معاہدے کے پس منظر کو اس لئے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جاسکے کہ مذکورہ دونوں عوامل سندھ کو اس کے پانی کے حصے سے محروم کرنے کیلئے پنجاب کی جانب سے کی گئی کسی سازش کا حصہ تھے۔