خبرنامہ کشمیر

بھارتی صحافیوں کے وفد کا دورۂ کشمیر ‘تاثرات…افتخار گیلانی نئی دہلی

حزب المجاہدین کے کمانڈر برھان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں تین ماہ سے جاری عوامی تحریک اور حال ہی میں سرحدی علاقہ اوڑی میں 18فوجیوں کی ہلاکت نے بھارت میں جہاں ایک طرف جنگی جنون برپا کر دیا ہے ، وہیں چند ہوشمند افراد حکومت اور میڈیا پر بھروسہ کرنے کے بجائے حالت کی تہہ تک جانے کی کوششیں بھی کررہے ہیں‘جس کا ادراک مجھے دہلی میں روزانہ ہو رہا ہے۔پچھلے دنوں ایک ہندی جریدہ سے وابستہ خاتون صحافی میرے آفس میں آدھمکی اور ایک ہی سانس میں پیلٹ گنوں کی طرح کشمیر پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میں نے مشورہ دیا کہ میرے جوابات پر انحصار کرنے کے بجائے وہ کشمیر جاکر حالات کا خود مشاہدہ کرے اور واپس آکر مجھے بھی باخبر کرے۔ اسی طرح چند ہفتہ قبل ہندی اور مراٹھی کے معروف صحافیوں سنتوش بھارتیہ اور اشوک وانکھڑے بھی معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔ ان کی بے چینی اور حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ آخر کشمیری بھارت کے جمہوری نظام کے خلاف کیوں صف آرا ہیں؟ میں نے ان کوبھی یہی مشورہ دیاکہ حقائق جاننے کیلئے وہ خود کھلے ذہن کے ساتھ سری نگر کا دورہ کریں اور ہوسکے تو جموں کے چناب ویلی اور پیر پنچال‘ علاقوں میں بھی جائیں۔ آخرکار ا ن دونوں صحافیوں اور ایک معروف تجزیہ کار پروفیسرابھے دوبے نے چار دن کشمیر میں گزارے۔ سنتوش بھارتیہ پارلیمان کے رکن بھی رہ چکے ہیں اور موجودہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں خصوصاً مرکزی وزیر اور سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) وی کے سنگھ کے قریبی جاننے والے مانے جاتے ہیں۔ واپسی پر بھارتیہ جی نے اپنے پرانے رفیق وزیراعظم نریندر مودی کو ایک طویل خط لکھا ہے ۔سنتوش بھارتیہ کے ہندی میں لکھے خط کے مندرجات میں یہاں نقل کرتا ہوں۔”پیارے وزیر اعظم صاحب! میں ابھی چار دن کے بعد جموں و کشمیر سے لوٹا ہوں۔ اور چاروںدن میں کشمیر کی وادی میں رہا اور مجھے یہ لگا کہ میںآپ کو وہاں کے حالات سے واقف کروں۔ مجھے یہ پورا یقین ہے کہ آپ کے پاس جموںو کشمیر کو لے کر خاص طور سے وادی کشمیر کو لے کر جو خبریںپہنچتی ہیں، وہ سرکاری افسروں کے ذریعہ اسپانسر شدہ خبریںہوتی ہیں، ان خبروں میںسچائی کم ہوتی ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی ایسامیکانزم ہو جو وادی کے لوگوں سے بات چیت کرکے آپ کو سچائی سے آگاہ کرائے تو میرا یقینی طور پر ماننا ہے کہ آپ ان حقائق کو نظر انداز نہیںکر پائیں گے۔ میں وادی میںجاکر مضطرب ہوگیا ہوں۔ زمین ہمارے پاس ہے، کیونکہ ہماری فوج وہاں پر ہے، لیکن کشمیر کے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ اور میںپوری ذمہ داری سے یہ حقیقت آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں کہ 80 سال کی عمر کے شخص سے لے کر 6سال تک کے بچے کے دل میں بھارتی نظام کے بارے میں بہت زیادہ غصہ ہے۔ اتناغصہ ہے کہ وہ اس نظام سے جڑے کسی بھی شخص سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ اتنا زیادہ غصہ ہے کہ وہ ہاتھ میں پتھر لے کر اتنے بڑے میکانزم کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اب وہ کوئی بھی خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں جس میںسب سے بڑا خطرہ قتل عام کا ہے اور یہ حقیقت میںآپ کو اس مقصد کو سامنے رکھ کر لکھ رہا ہوں کہ کشمیر میں ہونے والے صدی کے سب سے بڑے قتل عام کو بچانے میںآپ کا کردارسب سے اہم ہے۔ ہماری سکیورٹی فورسز اورہماری فوج میںیہ سوچ پنپ رہی ہے کہ جو بھی کشمیر میں نظام کے تئیںآواز اٹھاتا ہے‘ اسے اگر ختم کردیا جائے ، اس کی جان لے لی جائے ، اسے دنیا سے وداع کردیا جائے، تو یہ علیحدگی پسند تحریک ختم ہوسکتی ہے۔ہمارا نظام جسے علیحدگی پسند تحریک کہتا ہے، دراصل وہ علیحدگی پسندتحریک نہیںہے، وہ کشمیر کے عوام کی تحریک ہے۔ اگر 80 سال کے ضعیف سے لے کر 6 سال کا بچہ تک‘ آزادی، آزادی ، آزادی کہے، تو ماننا چاہیے کہ گزشتہ 60 سالوںمیںہم سے بہت بڑی غلطیاں ہوئی ہیں ۔۔ سکیورٹی فورسز پیلٹ گن چلاتی ہیں، لیکن ان کا نشانہ کمر سے نیچے نہیں ہوتا ہے، کمر سے اوپر ہوتا ہے، اس لیے دس ہزار لوگ زخمی پڑے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب !میں کشمیر کے دورے میں اسپتالوں میں گیا‘ مجھ سے دہلی میں کہا گیا کہ سکیورٹی کے چار پانچ ہزار افراد بھی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ ہزاروں کی تعداد ہمارے پرچار کا نظام بیان کرتا ہے جس پرکوئی یقین نہیں کرتا اور اگر ہے تو ہم صحافیوں کو ان جوانوں سے ملوائیے جو ہزاروں کی تعداد میں کہیں زیر علاج ہیں۔ ہم نے بچوں کو دیکھا جن کی آنکھیں چلی گئی ہیں، جو کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ لہٰذا میں یہ خط بڑے یقین اور جذبے کے ساتھ لکھ رہا ہوں۔ ہم تینوں کئی بار کشمیر کی حالت دیکھ کر روئے۔ کشمیر کے لوگو ں کو اس بات کا رنج ہے، اس بات کا دکھ ہے کہ ہریانہ صوبہ میں اتنا بڑا جاٹ احتجاج ہوا، گولی نہیں چلی، کوئی نہیں مرا۔ راجستھان میں گوجر آندولن ہوا، کوئی آدمی نہیں مرا، کہیں پولیس نے گولی نہیں چلائی۔ ابھی دریائے کاویری پانی کو لے کرکرناٹک میں، بنگلورو میں اتنا بڑا اندولن ہوا ، لیکن ایک گولی نہیں چلی۔لیکن کشمیر میں گولیاں چلتی ہیںاور کیوں کمر سے اوپر چلتی ہیںاور چھ سال کے بچوں پر چلتی ہیں؟‘‘
سنتوش بھارتیہ کے مطابق کشمیر میں پولیس والوں سے لے کر تاجر، طلبہ، سول سوسائٹی ، قلم کار، صحافی، سیاسی پارٹیوں کے لوگ اور سرکاری افسروں ‘سب نے ان سے کہا کہ کشمیر کا ہر آدمی ہندوستانی نظام کے خلاف کھڑا ہوگیا ہے۔ ”جس کے ہاتھ میںپتھر نہیںہے اس کے دل میں پتھر ہے۔ یہ تحریک عوامی تحریک بن گئی ہے ٹھیک ویسی ہی جیسی 1942 ء میں انگریزوں کے خلاف بھارت چھوڑو تحریک تھی یا پھر جے پرکاش تحریک تھی جس میں لیڈر کا کردار کم تھا اور لوگوں کا کردار زیادہ تھا۔ ــ‘‘ اس وفد نے وزیر اعظم ، مرکزی وزیروں اور حکمران بی جے پی کے لیڈران کی طرف سے بار بار پاکستان پر الزام تراشی کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے۔ بھارتیہ کے بقول‘ کیا پاکستان اتنابڑا ہے کہ وہ پتھر چلانے والے بچوںکو روز پانچ سو روپے دے سکتا ہے اور کیا ہمارا نظام اتنا خراب ہے کہ اب تک ایک شخص کو نہیںپکڑ پایا جو وہاں پانچ پانچ سو روپے بانٹ رہا ہے؟ انہوں نے مودی کو خط میں لکھا وہ خود سوچیںکہ جب کرفیو ہے ، لوگ سڑکوں پر نہیںنکل رہے تو کون محلے میں جارہا ہے پانچ سو روپے بانٹنے کے لیے۔ پاکستان کیا اتنا طاقتور ہے کہ پورے کے پورے 60 لاکھ لوگوں کو بھارت جیسے 125کروڑ کی آبادی
والے ملک کے خلاف کھڑا کرسکتا ہے؟ ان کا کہنا ہے کہ یہ بیانات اور پاکستان پر الزام لگانا ان کو مذاق لگتا ہے اور کشمیر کے لوگوں کو بھی یہ مذاق ہی لگتا ہے۔ بھارتی میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں‘”ہمارے ساتھی راجیہ سبھا میںجانے یا اپنا نام صحافت کی تاریخ میں فرسٹ کلاس میںلکھوانے کے لیے اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ وہ ملک کے اتحاد اور سالمیت سے بھی کھیل رہے ہیں‘ لیکن وزیر اعظم صاحب تاریخ بے رحم ہوتی ہے، وہ ایسے صحافیوں کو محب وطن نہیں غدار مانے گی، کیونکہ ایسے لوگ جو پاکستان کا نام لیتے ہیں یا ہر چیز میں پاکستان کا ہاتھ دیکھتے ہیں، وہ لوگ دراصل پاکستان کے دلال ہیں،وہ ذہنی طور پر ہندوستان کے لوگوں میںاور کشمیر کے لوگوں میںیہ جذبہ پیدا کررہے ہیں کہ پاکستان ایک بڑا مضبوط، بڑا قادر اور بہت باریک بین ملک ہے۔ وزیر اعظم صاحب! ان لوگوں کو جب سمجھ میں آئے گاتب آئے گا یا سمجھ میں نہ آئے، مجھے اس سے تشویش نہیںہے۔ میری تشویش ہندوستان کے پیارے وزیر اعظم نریندر مودی کو لے کر ہے۔ نریندر مودی کو تاریخ اگر اس شکل میںدیکھے کہ انھوںنے کشمیر میں ایک بڑا قتل عام کرواکر کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ جوڑے رکھا،شاید وہ آنے والی نسلوں کے لیے بہت افسوسناک تاریخ ہوگی۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ تاریخ نریندر مودی کو اس شکل میں جانے کہ اس نے کشمیر کے لوگوں کا دل جیتا۔ انھیں وہ سارے وعدے پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی جوساٹھ سال سے کشمیریوں کے ساتھ کیے جا رہے ہیں۔ کشمیر کے لوگ سونا نہیںمانگتے ، چاندی نہیںمانگتے بس ان وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں ، جو ہم نے ان کے ساتھ کئے ہیں۔‘‘
بھارتیہ جی کے مطابق کشمیر میں اس بار بقرعید نہیں منائی گئی، کسی نے نئے کپڑے نہیں پہنے، کسی کے گھر میں خوشیاں نہیںمنائی گئیں۔ ـ”کیا یہ ہندوستان کے ان تمام لوگوں کے منہ پر طمانچہ نہیں ہے جو جمہوریت کی قسمیں کھاتے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ ساری تحریک وہاں کی سیاسی قیادت کے خلاف ایک بغاوت کی شکل اختیار کرگئی۔ جس کشمیر میں 2014ء میں الیکشن ہوئے، لوگوں نے ووٹ ڈالے، آج اسی کشمیر میںکوئی بھی شخص ہندوستانی نظام کے تئیں ایک لفظ ہمدردی کا کہنے کے لیے تیار نہیں ۔ میںآپ کو یہ سارے حالات اس لیے بتارہا ہوںکہ آپ پورے ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں، آپ اس کا کوئی راستہ نکال سکیں۔ ‘‘ وفد نے مشاہدہ کیا کہ کشمیر کے گھروں میں لوگ شام کوایک بلب جلاکر رہتے ہیں، زیادہ تر گھروں میں یہ مانا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اتنا دکھ ہے، اتنے قتل ہورہے ہیں، دس ہزار سے زیادہ پیلٹ گن سے زخمی لوگ ہیں، پانچ سو سے زیادہ لوگوں کی آنکھیںچلی گئی ہیں۔ ایسے وقت میں ہم چار بلب گھر میںجلاکرکیسے رہ سکتے ہیں۔” وزیر اعظم صاحب! میںنے دیکھا ہے کہ لوگ گھروں میںایک بلب جلا کر رہ رہے ہیں۔ میںنے کشمیر میںیہ بھی دیکھا کہ کس طرح صبح آٹھ بجے سڑکوں پر پتھر لگا دیے جاتے ہیں او رشام کو 6 بجے وہی لڑکے جنھوں نے پتھر لگائے ہوئے ہیں اپنے آپ سڑکوں سے پتھر ہٹادیتے ہیں۔ دن میں وہ پتھر چلاتے ہیں،شام کو وہ اپنے گھروں میں اس خدشے میں سوتے ہیں کہ نہ جانے کب سکیورٹی فورسز کے لوگ انہیںاٹھاکر لے جائیں، پھر وہ کبھی اپنے گھروں کو واپس لوٹیں یا نہ لوٹیں۔ ایسی حالت تو انگریزوں کے دور حکومت میں بھی نہیں تھی۔ لیکن آج پہلی باریہ تحریک آزادی دیہاتوں تک پھیل چکی ہے۔ ہر پیڑ پر ہر موبائل ٹاور کے اوپر ہر جگہ پاکستانی جھنڈا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے بہت سے لوگوں کے دل میں کوئی پشیمانی نہیں تھی کہ کشمیر کے لوگ ہندوستان کے نظام کو، اقتدار کو چڑانے کے لیے جب ہندوستان کی کرکٹ میںہار ہوتی ہے، تو جشن مناتے ہیں وہ صرف پاکستان کی ٹیم کی جیت پر جشن نہیں مناتے خوش نہیں ہوتے اگر ہم نیوزی لینڈ سے ہار جائیں، اگر ہم بنگلہ دیش سے ہار جائیں، اگر ہم سری لنکا سے ہار جائیں، تب بھی وہ اسی طرح خوشی کا اظہار کرتے ہیں‘ کیونکہ انھیں یہ لگتا ہے کہ ہندوستانی نظام کی کسی بھی کامیابی کو مسترد کرکے اپنی مخالفت کا اظہار کررہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب !کیا اس نفسیات کو ہندوستان کی سرکار کو سمجھنے کی ضرورت نہیںہے؟ کشمیر کے لوگ اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے، تو کشمیر کی زمین لے کر کے ہم کیا کریں گے۔‘‘ دعا ہے کہ سنتوش بھارتیہ اور ان کے ساتھیوں کی باتیں بھارتی راہنماوٗں کے دلوں میں اتر جائیں، تاکہ جنوبی ایشیا واقعی امن کا گہوارہ بن جائے