خبرنامہ کشمیر

بھارت کا شہید مقبول بٹ اور افضل گورو کی باقیات واپس نہ کرنا ریاستی دہشتگردی کا منہ بولتا ثبوت

راولاکوٹ(آئی این پی) شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کی فیملی شاہ ولی بیگم (والدہ) ذاکرہ مقبول بٹ (اہلیہ ) شوکت مقبول بٹ ، جاوید مقبول بٹ (بیٹوں ) لبنی مقبول بٹ( بیٹی) بھائی ظہور احمد بٹ ، پرویز غلام نبی بٹ ، عادل منظور بٹ (بھتیجوں )نے ہندوستان سے مقبول بٹ کی باقیات کشمیریوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔مقبول بٹ کے خاندان میں نے کہا ہے کہ11فروری کو جب ’’تہاڑ جیل میں مدفون ،محمد مقبول بٹ اورشہداء چکوٹھی رو کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا اور ان کی زندگیوں کے مختلف اہم گوشوں کو اْجاگر کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ وہاں ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں شہید مقبول بٹ کا جسد خاکی دیا جائے ۔ تحریکِ آزادی کے موجودہ دور میں اگرچہ ایک لاکھ سے زائد لوگ جاں بحق کئے گئے ہیں اور ہزاروں کو گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیا گیا ہے، البتہ محمد مقبول بٹ شہید کی اپنی ایک منفرد تاریخ ہے اور وہ ایسے سرفروش ہیں، جنہیں اپنا حق مانگنے کے جْرم میں تختہ دار پر چڑھا کر قتل کیا گیا ہے اور ان کی لاش بھی ہم لواحقین کو نہیں لوٹائی گئی ہیں۔ شہید محمد مقبول بٹ اور مرحوم محمد افضل گورو کی باقیات نہ لوٹائے جانے کو ریاستی دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت اگرچہ ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے، البتہ دو کشمیری نظربندوں کو جن حالات میں پھانسی دی گئی اور جیل کے اندر ہی دفن کیا گیا اْس نے بھارتی جمہوریت کو شرمسار کیا ہے اور ثابت ہوگیا ہے کہ یہ اصل میں ایک استعماری ملک ہے اور یہاں عدل اور انصاف کی فرمانروائی ناپید ہے۔ محمد مقبول بٹ کی شہادت کے 30سال مکمل ہوگئے ہیں، البتہ ان کی باقیات کا ابھی تک انتظار ہے اور کشمیر میں ان کی نعش کی واپسی کے مطالبے کو لیکر مہینوں تک احتجاج ہوتا رہا اور اس میں ایک درجن کے لگ بھگ مزید نوجوان جابحق کئے گئے، البتہ بھارتی حکومت ٹس سے مس ہوئی اور نہ انہوں نے لوگوں کی اس جائز ڈیمانڈ پر کوئی توجہ دی ہے۔ کشمیر کے ان سپوتوں کی شہادت کو سیاسی قتل قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دونوں واقعات میں عدل اور انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا اور محض کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دھچکہ پہنچانے کے لیے دو بے گناہ انسانوں کو سولی چڑھایا گیا ہے۔ آزادی پسند رہنما نے البتہ کہا کہ محمد مقبول بٹ کی شہادت کشمیریوں کی تحریکِ آزادی میں ایک سنگ میل ثابت ہوگئی ہے۔ تہاڑ جیل میں جب تک ہماری یہ امانت محبوس رکھی جاتی ہے، ہمارے دل اس کی واپسی کے لیے دھڑکتے رہیں گے اور ہم اس کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس قتل کے لیے حکمرانوں کو براہ راست طور ذمہ دار قرار دیتے ہوئے۔ اس فیملی نے کہا کہ فاروق عبدآ نے محمد مقبول بٹ کی پھانسی کے آخری آرڈر پر دستخط کرکے اس کے لیے راہ ہموار کی ہے اور عمر عبدآ نے محمد افضل گورو کی پھانسی کے معاملے میں جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنے باپ کے سوچ کی تقلید کی ہے۔ عمر عبداللہ کی اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ اس کو اس پھانسی کے بارے میں قبل از وقت مطلع نہیں کیا گیا تھا، جبکہ ان سے باضابطہ مشورہ مانگا گیا تھا اور انہوں نے یہ کہہ کر اس معاملے کو جلدی نپٹانے کی صلح دی تھی کہ آگے کشمیر کا ٹورسٹ سیزن متاثر ہوجائے گا۔ ۱۱فروری کو مکمل اور ہمہ گیر ہڑتال کر کے کشمیری قوم ثابت کرے گی کہ وہ مقبول بٹ کو اپنا قومی ہیرو مانتے ہوئے خود مختار کشمیر کی صورت ان کا خواب شرمندہ تعبیر کرے گی ۔