خبرنامہ کشمیر

لائن آف کنٹرول پر بھارتی گولہ باری سے بے گناہ انسانوں کا قتل طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتاہے

مظفرآباد (ملت + آئی این پی) آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی گولہ باری سے بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام اور مسلسل جارحیت سے پیدا ہونے والی صورتحال دونوں ممالک کے درمیان کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بنیاد پرست بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اکھنڈ بھارت اور اٹوٹ انگ کے زعم میں اپنے ملک کے لئے روسی حکمران گوربا چوف کی طرح ثابت ہونگے۔ گجرات میں ہندو مسلم فسادات کو ہوا دے کر مسلمانوں کو ریاستی مشینری اور حکومتی مسائل کے ذریعے تہہ تیغ کرنے والا عالمی دہشت گرد وہی مشق اب مقبوضہ کشمیر اور سرحدی علاقوں میں مسلط کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ لہذا عالمی قوتیں خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اپنا کلیدی کردار کرتے ہوئے بھارتی کے جنگی جنون اور توسیع پسندانہ عزائم کا نوٹس لے۔ بے گناہ شہریوں کی ہلاکت لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اچھے پڑوسی ملک ہونے کا ثبوت دینے اور دیرپا امن قائم کرنے کے لئے ہر فورم پر پہل کی اور بے شمار رعائتیں بھی دیں لیکن ابھی تک نہ تو کمپوزٹ ڈائلاگ اور نہ ہی اقدامات برائے بحالی اعتماد کا کشمیریوں کو ذرا برابر فائدہ پہنچ سکا وہ گزشتہ روز لائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگیزی اور سرحدی خلاف ورزیوں سے ہونے والی شہادتوں پر اپنے شدید ردِعمل کا اظہار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر 123دنوں میں برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد عملاً مقتل گاہ بن چکا ہے۔ ہزاروں کشمیریوں کو زخی کر کے سینکڑوں کو آنکھوں کی روشنی سے محروم کر دیا گیا ہے اور حریت قائدین کی نظربندیاں، بلاجواز مقدمات کرفیو کا نفاذ، پیلٹ گن کا استعمال، انٹرنیٹ، موبائل سروس اور میڈیا پر پابندیاں روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مبصرین انسانی حقوق اور عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر مشتمل فیکٹ فائینڈنگ کمیشن تشکیل دے کر مقبوضہ کشمیر کے شہروں تک رسائی دینے کے لئے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے کیوں کہ اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بھی حل طلب متنازعہ اُمور ثالثی کے بغیر حل نہیں ہو سکتے جن کی منہ بولتی مثالیں سندھ طاس معائدہ، سیاہ چین سرکریک، بگلہار ڈیم ہیں۔ سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور سیکورٹی کونسل کی منظور شدہ قراردادوں کے مطابق جب تک مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے نہیں ہوتا تب تک دونوں ممالک کی افواج میں آمنا سامنا اور جنگی ماحول ختم نہیں ہو سکتا۔ دریں اثناء اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے سابق صدر، سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے کہا کہ حکومت آزاد کشمیر نے بھاری مینڈیٹ کے نشے میں چُور ہو کر انتقامی کارروائیوں کی تمام حدود و قیود پاؤ تلے روند کر رکھ دی ہیں۔ ہماری خواہش تھی کہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کو جمہوری روایات کے مطابق اپنے منشور پر عملدرآمد کیلئے اجتماعی کاموں میں تعاون فراہم کرتے۔ مگر اُنہوں نے سولوفلائیٹ اختیار کر رکھی ہے۔ تعلیمی پیکج میں بلا جواز رکاوٹیں، میڈیکل کالجز اور سڑکوں کی تعمیر میں سیاسی عداوت کا مظاہرہ پیپلزپارٹی کو ہی نہیں آزادکشمیر کی تمام اپوزیشن کو احتجاج پر مجبور کر رہا ہے لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ 14 نومبر کو آزادکشمیر بھر میں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور جلسے، جلوس کر کے حکومت کے خلاف پُرامن مظاحمتی عمل کا آغاز کریں گے اور 14 نومبر میرے سمیت سابق وزیراء، ممبران اسمبلی، پارٹی عہدیداران، کارکنان مظفرآباد پہنچیں گے جس کے بعد 15 نومبر کو باہمی مشاورت سے مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ہمارا ابھی حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے بجائے ملکی صورتحال اور تحریک کی تشویش ناک سنگین احساسیت کے پیش نظر قومی اتفاق رائے کو ریزہ ریزہ نہ کریں۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے وفاق میں بھی جمہوریت کے استحکام کے لئے اپنا منفرد کردار نبھایا ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو کی روشن خیال ترقی پسند سوچ ہی ہماری پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ لہذا حکومت اپنے پاؤں پر کھلاڑی کا وار کر کے اپنا ہی خون گرانا چاہے تو ہمیں کیا اعتراض ہے۔