خبرنامہ کشمیر

کشمیر کے ہر گھر میں ایک مقبول بٹ موجود ہے:شاہ مالی بیگم

سرینگر ۔ (اے پی پی) مقبوضہ کشمیرمیں معروف کشمیری رہنماء شہید محمد مقبول بٹ کی والدہ شاہ مالی بیگم نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کیلئے چار بیٹوں کی قربانی پیش کی ہے۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق شاہ مالی بیگم کیلئے مزاحمت کی علامت بننا اتنا آسان نہیں تھا،انہوں نے کشمیر کاز کیلئے اپنے چار بیٹوں کانذرانہ پیش کیا اور گذشتہ کئی دہائیوں سے شدید مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا۔شاہ مالی بیگم کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کے برادر اصغر حبیب اللہ بٹ کو1976میں حراست کے دوران لاپتہ کردیا گیا ،وہ اس وقت 12ویں جماعت کے طالب علم تھے اور مقبول بٹ اس وقت مقبول بٹ جیل میں نظربند تھے۔مقبول بٹ کے دوسرے بھائی غلام نبی بٹ 19نومبر1994کو چھانہ پورہ سرینگر میں مردہ پائے گئے تھے۔ان کے سر اور جسم کے دیگر اعضاء زخمی تھے تاہم پولیس نے اسے ایک حادثہ قرار دیا۔خاندان کے ایک اور فرزند منظور احمد جو جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سے وابستہ تھے کو بھارتی فوجیوں نے 4اکتوبر 1995کوایک جعلی مقابلے میں ترہگام میں شہید کردیاتھا۔شاہ مالی بیگم نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شہید محمد مقبول بٹ کے مشن کوہر قیمت پر اسکے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ انہیں فخرہے کہ انہوں نے اپنے چار بیٹوں کو کشمیر کاز کیلئے وقف کیا۔انہوں نے کہاکہ کشمیری عوام جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور یہی جدوجہد جموں وکشمیر کی مکمل آزادی پر منتج ہوگی۔شاہ مالی بیگم کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام اپنی حق پر مبنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور ہر کوئی اس میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے اور ہماری تحریک آہستہ آہستہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ رہی ہے۔شاہ مالی نے کہاکہ کشمیر کے ہر گھر میں ایک مقبول بٹ موجود ہے۔مقبول بٹ کے زندہ رہنے والے واحد بھائی ظہور بٹ پر 6مرتبہ کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا ہے۔محمد مقبول بٹ ترہگام کپواڑہ میں 18فروری1938کو پیدا ہوئے تھے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم ترہگام میں ہی حاصل کی اور اسکے بعد وہ سینٹ جوزف اسکول بارہمولہ میں تعلیم حاصل کرنے گئے جہاں انہوں نے تاریخ اور پولٹیکل سائنس مضامین پڑھے اور اسکے بعد وہ اننت ناگ میں ایک پرائیویٹ اسکول میں تعینات ہوئے۔ آخر میں انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں قانون اور صحافیت کی تعلیم حاصل کی اور وہیں انجام نامی میگزین میں بحیثیت سب ایڈیٹر ملازمت اختیار کی اور بعد میں انہوں نے تحریک آزادی میں شمولیت اختیار کی اور بالآخر انہیں 1984کے دوران تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔