خبرنامہ خیبر پختونخوا

یہودیوں سے پیسے لینے والوں کے غبارے سے ہوا نکل چکی، فضل الرحمان

یہودیوں سے پیسے لینے والوں کے غبارے سے ہوا نکل چکی، فضل الرحمان

پشاور(ملت آن لائن)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی کے بعد یہودیوں سے پیسے لینے والوں کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔

پشاور میں ناموس رسالت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ نائن الیون واقعے کے بعد دنیا بھر میں مذہب غیر محفوظ ہوگیا تھا، امریکی سازش کے تحت مدارس کو دہشت گردوں کی آماجگاہ اور داڑھی والوں کو خطرہ قراردیا گیا، تمام غیراسلامی قوتیں مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوگئیں، امریکا چاہتا تھا کہ ہمارے نوجوان اٹھیں اور ریاست کے خلاف کھڑے ہوجائیں لیکن ہم نے اس وقت بھی اپنے اداروں کو تحفظ فراہم کیا، علمائے کرام نے نوجوانوں کو ریاست کے خلاف کھڑے ہونے سے روک کر امریکا کی اس سازش کو ناکام بنا دیا۔

مولافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات میں ایم ایم اے کا پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے خیبرپختون خوا پر سیکولر جماعت نے قبضہ کر لیا اور صوبے کی تہذیب کو ختم کرکے ثقافت کو بدلنے اورعلمائے کرام کو پیسے دے کر خریدنے کی کوشش کی گئی تاکہ فضل الرحمان کو تنہا کیا جا سکے لیکن علمائے کرام نے بتا دیا کہ ہم غریب تو ہو سکتے ہیں لیکن اپنا ایمان پیسوں کے عوض نہیں بیچ سکتے، بڑوں کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ آپ ان سے صلح کر لیں، انہیں اس صوبے میں تہذیب و اخلاق کو تباہ کرنے کے لئے لایا گیا ہے اور واقعی ثابت ہوگیا کہ یہ لوگ صوبے کے عوام کو روزگار فراہم کرنے کے بجائے ان کے کردار کو تباہ کر رہے ہیں۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اب ایم ایم اے بحال ہوچکی ہے ہم ان قوتوں سے صوبے کوچھینیں گے جو ہماری تہذیب پر حملہ آور ہیں ان لوگوں سے پاکستان کی اسلامی اور تہذیبی حیثیت خطرے میں ہے لیکن اب ایم ایم اے اپنے ثقافت و تہذیب کی حفاظت کرے گی ہم 50 لاکھ افراد کو ایک میدان میں جمع کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ اب یہودیوں سے پیسے لینے والوں کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے یہ لوگ ارمان بھی کریں گے اور شکست بھی کھائیں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ اور اس میں شہید ہونے والے بچوں کے لواحقین سے ہمدری کا اظہار کرتے ہوئے حکمرانوں سے واقعے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل تشویشناک ہے کہ اتنے سفاک واقعے کی تحقیقات نہ ہو سکیں جب کہ اس سانحے کی تحقیقات کے لئے تو جوڈیشل کمیشن بننا چاہئے تھا۔