خبرنامہ

الیکشن جب بھی ہوں گے سیاسی جماعتو کی کامیابی کا پیمانہ کارکردگی ہو گی..تجزیہ: قدرت اللہ چودھری

تسابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بیرون ملک رہتے ہوئے بھی یہ زمینی حقیقت تسلیم کرلی ہے کہ اگلے الیکشن اب 2018ء ہی میں ہوں گے لیکن تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا پاکستان میں رہتے ہوئے اب بھی یہی خیال ہے کہ 2017ء میں الیکشن ہوسکتے ہیں۔ ویسے اگر عمران خان کی کہی ہوئی باتوں کو سچ مان لیا جاتا تو انہوں نے 2014ء ہی کو الیکشن کا سال قرار دے دیا تھا، دھرنے کے آغاز میں وہ پرامید تھے کہ ادھر وہ اسلام آباد پہنچے اور ادھر فضا میں کہیں سے اڑتا ہوا وزیراعظم کا استعفا سیدھا ان کی جھولی میں آگرے گا، حق الیقین کا یہی عالم تھا جو انہیں بار بار یہ کہنے پر مجبور کرتا تھا کہ انہیں اگر ایک سال بھی دھرنے پر بیٹھنا پڑا تو بیٹھیں گے اور استعفا لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ ایک سال تو انہیں نہیں بیٹھنا پڑا البتہ سال کا تیسرا حصہ وہ ضرور بیٹھے رہے، یہ بھی ریکارڈ ہے تاہم استعفا انہیں نہیں مل پایا۔ 2014ء ختم ہوا تو ان کا خیال تھا کہ 2015ء میں الیکشن ہو جائیں گے، ان کے مطالبے پر سپریم کورٹ کا جو کمیشن قائم ہوا اس نے قرار دیا کہ 2013ء کے انتخابات میں منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔ اس فیصلے سے ان کی تحریک کو جھٹکا لگا اور وہ ضمنی الیکشن بھی ہارتی رہی۔ 2015ء کا سن بھی گزر گیا اور 2016ء گزرنے میں بھی ایک ماہ باقی ہے، اب تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا ہے کہ الیکشن 2017ء میں بھی ہوسکتے ہیں۔ دنیا امید پر قائم ہے دیکھیں یہ سال تحریک انصاف کیلئے کیا لے کر آتا ہے، ممکن ہے انہیں کسی برہمن نے کہا ہو کہ یہ سال اچھا ہے۔ الیکشن وقت مقررہ پر ہوتے ہیں یا اس سے پہلے‘ اصل بات یہ ہے کہ جو جماعتیں الیکشن میں حصہ لینا چاہتی ہیں ان کی اس سلسلے میں کیا تیاری ہے؟ وفاقی حکومت کی کوشش تو بظاہر یہ لگتی ہے کہ وہ کچھ ایسے کام کر جائے جن کی بنیا دپر اسے دوبارہ ووٹ مل جائیں، حکومت کی جو بھی کارکردگی رہی وہ اس میں سے اپنے بعض کارنامے اس امید کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ سکتی ہے کہ اپنی حکومت کے دوران اس نے عوام کی خدمت کیلئے یہ کام انجام دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے وہ بھی اپنی کامیابیوں کا دفتر کھول سکتی ہے اور حکومت کے دوران جو کارنامے سندھی عوام کیلئے انجام دیئے ہیں ان کی بنیا دپر ووٹ مانگ سکتی ہے۔ اسی طرح کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے جس کا نعرہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا بدل رہا ہے اور تحریک انصاف نے وہاں گڈ گورننس کی مثالیں قائم کی ہیں، لیکن اس کا فیصلہ بہرحال ووٹروں ہی نے کرنا ہے کہ وہ ان دعووں کو کس طرح شرف پذیرائی بخشتے ہیں۔ ویسے اس صوبہ میں یہ روایت آج تک قائم نہیں ہوئی کہ جو جماعت صوبے کے اقتدار پر فائز رہی ہو اس نے دوبارہ بھی تسلسل کے ساتھ عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو۔ یہی دیکھنے میں آیا کہ جو جماعت اس صوبے میں ایک بار برسر اقتدار رہی وہ دوسری بار اقتدار سے باہر ہوگئی۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کئی مخلوط حکومتوں میں برسر اقتدار ضرور رہیں لیکن وقفے وقفے کے ساتھ۔ دوسری بات یہ ہے کہ 71ء کے بعد سے آج تک صوبے میں زیادہ تر مخلوط حکومتیں ہی رہی ہیں۔ اس لئے ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ تحریک انصاف کو 2018ء (یا اس سے پہلے) پورے پاکستان کا اقتدار ملے گا یا جو اقتدار اس کے پاس ہے وہ بھی چھن جائے گا۔ مولانا فضل الرحمان تو ابھی سے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2018ء میں صوبے میں جے یوآئی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت بنے گی۔ ویسے تو یہ دعووں کا موسم ہے کوئی بھی دعویٰ کیا جاسکتا ہے مثلاً شیخ رشید کو اب بھی امید ہے کہ یہ حکومت 2016ء سے پہلے چلی جائے گی۔ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن کا دعویٰ ہے کہ اگلے الیکشن کے بعد سندھ میں وزیراعلیٰ ان کا ہوگا۔ اب اگر آپ یہ دعویٰ پیپلز پارٹی کے کسی رہنما کے سامنے رکھیں تو وہ مذاق اڑائے گا اور ہوسکتا ہے کہ برا بھی مان جائے، لیکن اگر سید خورشید شاہ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ 2018ء کے بعد بلاول بھٹو زرداری پورے ملک کے وزیراعظم ہوں گے تو پھر کوئی بھی دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ 2018ء کا الیکشن جیتنے کیلئے پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی حکومت کی کامیابیاں گنوا سکتی ہے اور اپنی حکومت کو دوسری صوبائی حکومتوں کیلئے رول ماڈل کے طور پر پیش کرسکتی ہے۔ بلاول کے وزیراعظم بننے کیلئے ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اکثریت حاصل ہو، لیکن اکثریت کیلئے بلاول پنجاب کے ووٹروں کو کس طرح متحرک کریں گے اس کا جواب شاید پیپلز پارٹی کے پاس بھی نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے کیا پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی پوزیشن بحال کرسکے گی؟ اس کا انحصار بھی بلاول کی کارکردگی پر ہے۔ چند ماہ پہلے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر میں جس بری طرح ہاری ہے اس کے بعد نہیں لگتا کہ پنجاب میں کامیابی اتنی آسان ہوگی۔ پنجاب کی کابینہ میں گزشتہ روز جو توسیع کی گئی اسے بھی آنے والے الیکشن کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے اور خیال ہے کہ جو نئے وزراء لئے گئے ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں میں مسلم لیگ کی کامیابی کیلئے فعال کردار ادا کریں گے۔ کارکردگی