خبرنامہ

چودھری نثار اور پیپلز پارٹی کے رہنما ؤں کے درمیان ’’چاندماری‘‘ کا مقابلہ رہے گا..چودھری قدرت اللہ

منیر نیازی کا بہت ہی مشہور پنجابی شعر ہے:کج شہر دے لوک وی ظالم سنکج سانوں مرن دا شوق وی سیلگتا ہے چودھری نثار علی خان بھی ’’مرن دے شوق‘‘ میں مبتلا ہیں، پیپلز پارٹی اور بعض دوسری اپوزیشن جماعتیں ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ سیدھے سبھاؤ استعفا دینے کی بجائے ’’اشتعال انگیز‘‘ باتیں کر رہے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ اگر وہ یہ کہیں گے تو بات توتکار تک تو پہنچے گی۔ ’’پیپلز پارٹی کا کرپشن مخالف مہم چلانا ایسا ہی ہے جیسے بھارت میں بی جے پی مسلمانوں کے حقوق کیلئے مہم چلائے، بچے کی اوٹ پٹانگ باتوں کا جواب نہیں دے سکتا اچھا ہوتا کہ بلاول بھٹو اپنی والدہ کا پانامہ لیکس کا کیس بھی سپریم کورٹ میں لے جانے کا اعلان کرتے، استعفے کی باتیں کرنے والوں کا دباؤ نہیں مانتا، ان کے پلے ہی کچھ نہیں۔ جس شخص کی والدہ کا نام پاناما میں ہے وہ دوسروں کی بات کرتا ہے‘‘۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو ابھی چودھری نثار کے اس حملے کا جواب نہیں آیا لیکن اس میں زیادہ دیر بھی نہیں لگے گی، اب امید رکھنی چاہئے کہ استعفے کا مطالبہ زیادہ شدومد سے ہوگا۔ ویسے پیپلز پارٹی نے اپنے چار مطالبات کی منظوری کیلئے جو ڈیڈ لائن دے رکھی ہے وہ بھی زیادہ دور نہیں، ایک ہفتہ باقی ہے اس کے بعد ’’حکومت کو لگ پتہ جائے گا کہ تحریک کسے کہتے ہیں؟‘‘ ایسے معلوم ہوتا ہے چودھری نثار علی خان نہ تو استعفا دینے کے موڈ میں ہیں اور نہ ہی وہ اس تحریک سے خائف ہیں جو چلنے والی ہے، غالباً ان کا خیال ہے ’’وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟‘‘ چنانچہ امکان یہی ہے کہ چودھری نثار اور پیپلز پارٹی کے درمیان الفاظ کی پھلجھڑیاں چھوڑی جاتی رہیں گی اور چاند ماری کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ بھی کہا جاتا رہے گا کہ وہ اپنی حکومت کیلئے مشکل پیدا کر رہے ہیں۔ درست طرزعمل تو یہی ہے کہ سیاست دان شعلہ نوائی سے گریز کریں، ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں، ایک دوسرے کو ایسے ناموں سے پکارنے سے گریز کریں جو اشتعال کا باعث بنتے ہوں لیکن یہ کام دو طرفہ ہونا چاہئے یکطرفہ نہیں۔ الزام تراشی درست بھی ہو تو بھی جن پر الزام دھرا جاتا ہے وہ کوئی نہ کوئی جوابی الزام تو لگا ہی دیتے ہیں۔سیاستدان اگر مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل طے کرلیں تو اچھا رہے گا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ سندھ کے آئی جی وفاقی حکومت کے منع کرنے کے باوجود رخصت پر چلے گئے ہیں انہیں وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ایسا کرنے کیلئے کہا تھا، لیکن کیا یہ وزیراعلیٰ کا اپنا فیصلہ تھا یا حکمران پارٹی کے بعض رہنما آئی جی سندھ کی قانون پسندی سے دکھی تھے کیونکہ وہ جو کچھ بھی کر رہے تھے قانون کے مطابق حاصل اختیارات کے تحت کر رہے تھے یہاں تک کہ انہوں نے کلفٹن کے ایک بڑے گھر سے اسلحہ بھی برآمد کرلیا اور پھر دباؤ کے باوجود اسے واپس دینے کیلئے تیار نہ ہوئے۔ یہ کام تو بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا، حیرت ہوتی ہے کہ اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ اب جو آئی جی دس ہزار پولیس اہلکار میرٹ پر بھرتی کرلے اور کئی عشروں بعد یہ ’’سانحہ‘‘ رونما ہو کہ بغیر کچھ لیے دیئے لوگوں کو تقرر کے لیٹر تھما دیئے جائیں اور جن سیاستدانوں کو ’’کوٹہ‘‘ ملنے کی امید تھی وہ منہ دیکھتے رہ جائیں تو آپ ہی بتایئے ایسے آئی جی کو اس صوبے میں کون برداشت کرے گا؟ جہاں بیک وقت کئی لوگ وزیراعلیٰ بنے ہوئے ہیں، ایک وزیراعلیٰ تو وہ ہیں جن کے نام کے ساتھ یہ عہدہ لکھا جاتا ہے، باقی وہ ہیں جو بغیر نام کے وزیراعلیٰ کے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھیے کہ اگر کوئی ’’شوگر کنگ‘‘ اپنے ضلعے کے ایس ایس پی کو یہ ہدایت کرے کہ سارا گنا اس کی مل میں آنا چاہئے اور ایس ایس پی اس حکم کی بجا آوری کیلئے بھی تیار ہو اور اسے آئی جی یہ کہہ کر منع کردے کہ ایس ایس پی کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ کسی مل مالک کو گنا سپلائی کرنے میں ’’سہولت کار‘‘ بنے، یہ ان کا اپنا کاروباری معاملہ ہے تو پھر اس آئی جی سے وہی سلوک روا رکھا جانا ضروری تھا جو رکھا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ’’شوگر کنگ‘‘ نے اب رخصت پر بھیج دیئے جانے والے آئی جی اے ڈی خواجہ کو فون کرکے کہا ’’آپ میرے کام میں مداخلت نہ کریں‘‘ جس کا جواب خواجہ نے یہ دیا کہ سرکاری کام میں مداخلت تو آپ کر رہے ہیں۔ اب کوئی ہے جو یہ بتائے کہ اس بندۂ گستاخ کورخصت پر بھیجا جانا بنتا تھا یا نہیں؟اے ڈی خواجہ نے جو دس ہزار پولیس اہلکار بھرتے کئے تھے وہ اس وقت زیر تربیت ہیں۔ آپ اندازہ فرمایئے کہ سندھ کی سیاست میں لتھڑی ہوئی پولیس فورس کے اندر یہ غیر سیاسی اہلکار اگر فرائض انجام دینا شروع ہوں گے تو بہتری کی کتنی زیادہ گنجائش ہوگی۔ اگر سندھ کی پولیس اب تک مختلف شعبوں میں ناکام رہی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ بھرتیاں سیاسی مداخلت پر کی جاتی ہیں اور جو اہلکار سفارش پر بھرتی ہوتے ہیں وہ وردی پہن کر بھی قانون کی مرضی کے مطابق چلنے کی بجائے ان لوگوں کی مرضی سے چلتے ہیں جنہوں نے انہیں بھرتی کرایا ہوتا ہے۔ پولیس میں ایک بھرتی تو وہ ہے جو سفارش سے ہوتی ہے جبکہ دوسری بھرتی میں پیسے کا چلن ہوتا ہے‘ اب جو کوئی بھی پیسے دے کر تقرر نامہ حاصل کرے گا اس کا پہلا کام تو یہی ہوگا کہ وہ دیئے ہوئے پیسے پورے کرے۔ سندھ پولیس میں یہ خرابی بڑے طویل عرصے سے موجود تھی، اب اتنی پختہ روایت کو جس آئی جی نے بدلنے کی کوشش کی اس کو ٹھنڈے پیٹوں کس نے برداشت کرنا تھا جتنا عرصہ برداشت کرلیا اتنا ہی بہت ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور پارٹی کے بعض دوسرے رہنما اکثر و بیشتر پنجاب میں کسانوں کی حالت زار کا رونا روتے رہتے ہیں، دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی شکایت ہے کہ زراعت تباہ ہوگئی لیکن گنے کے کاشتکاروں کو جس طرح سندھ میں ذلیل و خوار کیا جاتا ہے کیا کسی کو اس کی خبر ہے؟ اور کوئی بتائے گا کہ بدین کے ایس ایس پی کو کس حیثیت میں گنے کے کاشتکاروں سے گنا مخصوص ملوں کو دینے کے ’’احکامات‘‘ دیئے جا رہے تھے اور جب آئی جی نے اپنے ماتحت کو اس غیر قانونی حرکت سے روک دیا تو انہیں کیوں جبری رخصت پر بھیج دیا گیا؟