ضیا شاھد کے انکشافات

اشفاق احمد اور ہم …ضیا شاہد.. قسط ..2

قارئین میں نے ابتدائی زندگی کی کچھ مثالیں دی ہیں۔ میرے خیال میں یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ میں اشفاق صاحب کی طرح ملتے جلتے حالات سے گزر رہا تھا بلکہ بعد میں جیساکہ میں بیان کروں گا زندگی کے ہر موڑ پر مجھے اشفاق صاحب کا خلوص، محبت، شفقت حاصل رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ان سے بہت سے رشتے تھے۔ میں ان کے مقابلے میں بہت کم عمر، بہت ناتجربہ کار اور بہت پیچھے تھا لیکن ان کا مزاج شروع ہی سے ایک خاص قسم کی درویشی سے عبارت تھا۔ جب وہ گہرے رنگ کا سوٹ اور چمکدار ٹائی پہنتے تو ادیب اور افسانہ نگار سے زیادہ فلم یا ٹی وی کے اداکار لگتے تھے تو بھی ان کی گفتگو اور مزاج میں دوستی کی جھلک نظر آتی تھی۔ انہوں نے قلم سے بہت کمایا بہت لکھا ڈرامے بنائے، ریڈیو پر صداکاری کی۔ بانو قدسیہ بھی پیچھے نہیں رہیں۔ انہوں نے بہت لکھا اور نام کمایا لیکن اس جوڑے نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کی ذاتی مسائل میں مخلصانہ مشورے دیئے۔
میں نے ابھی رشتوں کا ذکر کیا ہے۔ میرا سب سے گہرا اور مستقل رشتہ سلیم چودھری کے ذریعے قائم ہوا۔ سلیم چودھری کا اصل نام محمد شفیع تھا۔ وہ پنجاب کے محکمہ خوراک میں ملازم تھے۔ قلمی نام کے ساتھ لکھتے تھے۔ داستان گو کے پہلے دن سے آخری دن تک وہ اشفاق اور بانو قدسیہ کے اسسٹنٹ، ہیڈکلرک، جنرل منیجر، ہیلپر اور سب سے بڑھ کر قابل اعتماد ساتھی اور دوست تھے۔ داستان گو کی بندش کے بعد وہ اور اشفاق صاحب کے مستقل خوش نویس محمد یوسف اردو ڈائجسٹ میں آئے۔ سلیم چودھری کو پروف ریڈر کی ذمہ داری ملی لیکن رفتہ رفتہ ترجمہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اوریجنل لکھنے کی مہارت کے باعث سب ایڈیٹر بن گئے۔ وہ اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کی شادی سے بھی پہلے ان لوگوں سے واقف تھے اور ان کے گھر ان کی فیملی ممبر سمجھے جاتے تھے۔ میں ان کے ساتھ بے شمار مرتبہ اشفاق صاحب سے ملا۔ میں ان دنوں بی اے آنرز کلاس کا طالب علم تھا۔ ہم اشفاق صاحب سے باتیں کرنے ہفتے میں ایک آدھ بار ضرور جاتے تھے۔ میں ان کی کہانیوں کا قاری تھا۔ داستان گو کا معتقد تھا۔ ریڈیو پر ’’تلقین شاہ‘‘ کا چاہنے والا تھا۔ ’’اُچے برج لاہور دے‘‘ اور بعد ازاں ایک محبت سو افسانے کے نام سے جو ٹی وی ڈرامے سامنے آئے ان کا ایک ایک لفظ مجھے آج تک یاد ہے۔ اس سیریز کا پہلا ڈرامہ قرۃ العین تھا اور خوبصورت ترین کھیل اشتباہ نظر دادا اور دلدادہ مجھے آج تک یاد ہے۔ اشفاق صاحب تاریخ کے حوالے سے کردار تراشنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔ مغل بادشاہ کو بیٹے کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو اس نے مریض کے بستر کے گرد سات چکر لگائے۔ وہ خود گر پڑا اور راہئ ملک عدم ہو گیا مگر بیٹا آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھا دادا اور دلدادہ میں ایک شرابی دادا نے جس کا کردار ریڈیو کے معروف صدا کار آفتاب احمد نے ادا کیا تھا۔ پوتے کے بستر کے گرد سات چکر لگائے بوتل اس کے ہاتھ میں تھی۔ شاید اشفاق بتانا چاہتے تھے کہ اللہ سے دُعا مانگنے کے لئے مومن ہونا ضروری نہیں۔ گناہگار سے گناہگار انسان بھی خدا کو پکار سکتا ہے اور اس کی دُعا سنی جاتی ہے۔ پوتا بچ نکلا اور دادا گر پڑا۔
اشفاق صاحب قلم کے جادوگر تھے۔ وہ جس وقت چاہتے پڑھنے، سننے اور دیکھنے والے کو ہنسا سکتے تھے اور جب چاہتے رُلا سکتے تھے۔ ان کے ڈراموں کا اختتام اس قدر متاثر کرنے والا ہوتا تھا کہ ناظر دیر تک اس میں کھویا رہتا اور عام زندگی کے معمولات سے کٹ کر رہ جاتا۔ رفتہ رفتہ تصوف ان کی مادی زندگی پر غالب آ رہا تھا۔ من چلے کا سودا میرے خیال میں وہ موڑ تھا جہاں اشفاق صاحب نے کہانی یعنی واقعات کو پیچھے چھوڑ دیا اور طویل ڈائیلاگ سے اپنا فلسفہ لوگوں تک منتقل کرنا شروع کیا۔ بانو قدسیہ نے بڑی تفصیل سے کینٹ میں واقع بابا جی نور والوں کا ذکر کیا ہے۔ پھر وہی اتفاق کہ اشفاق صاحب کے علاوہ مجھے حنیف رامے اور ان کے بڑے بھائی رشید احمد چودھری (مکتبہ جدید پریس والے) نے بابا جی کے ڈیرے تک پہنچایا اور میں برسوں وہاں جاتا رہا، وہاں مریض کو دوا مل جاتی تھی پیاسے کو ٹھنڈا پانی، بابا جی کے بارے میں مشہور ہے کہ روزانہ ان کے ڈیرے پر جو کھانا بنتا تھا اس کے لئے اچھا گوشت خریدنے کے لئے خود جاتے تھے۔ بہت عمدہ اور لذیذ قورمہ تیار ہوتا تھا اور دن کے کسی حصے میں جائیں آپ کو تندور کی گرم روٹی اور اچھا سالن صاف ستھرے برتنوں میں مل جاتا تھا۔ بابا جی کا ذکر اشفاق صاحب نے بھی بہت کیا اور بانو قدسیہ نے بھی۔ میں اور یاسمین بھی وہاں جاتے رہے۔ ہماری بیٹی بھی ساتھ ہوتی تھی وہ ماشاء اللہ اب ڈاکٹر ہیں تاہم چین میں وہ تیز بولنے لگتیں تو کسی نہ کسی لفظ پر رک جاتی تھیں۔ ہم نے بہت ڈاکٹروں کو دکھایا۔ بالآخر رامے صاحب اور رشید چودھری صاحب نے مشورہ دیا کہ بابا جی کے پاس لے جائیں، بابا جی نے انہیں بڑے پیار سے بٹھایا اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ پھر بولے یہ تو بالکل ٹھیک ہے۔ ہم نے کہا جی کسی کسی وقت غصے میں جذبات میں تیز بولے تو اٹک جاتی ہے۔ انہوں نے کہا میں دُعا کروں گا اللہ صحت دے گا یہ بچی بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ بابا جی نور والے کے بہت مداح تھے۔ اشفاق صاحب بانو قدسیہ شہاب صاحب، حنیف رامے بعد میں اسی سلسلۂ دوستاں کی شاخیں آگے نکلیں تو ملک واصف علی واصف بطور دانشور سامنے آئے، یہی حلقہ احباب کم و بیش ایسی مجالس میں پیش پیش ہوتا تھا۔ ملک واصف علی واصف کی نشستیں ہفتہ وار ہوتی تھیں اور ہر بار کسی ایک فیملی کا انتخاب کر لیا جاتا اور وہ ہفتے کے مقررہ دن 40 سے 50 لوگوں کے لئے گھر پر کھانا تیار کرواتی۔ ملک واصف صاحب کی ہدایت ہوتی تھی کہ سادہ اور سنگل سالن رکھا جائے پھر بھی اکثر لوگ تکلف سے کام لیتے تھے۔ اس حلقے میں میرے تعلقات ایک نوجوان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے ہوئے، ان کے گھر واقع گلبرگ میں بھی کئی مجلسیں ہوئیں۔ وہ آگے چل کر سیاست میں آئے اور آج کل عملاً ڈپٹی وزیراعظم سمجھے جاتے ہیں۔ اسحاق ڈار سے میرا رشتہ آج بھی پرانی مجلس کے حوالے سے قائم ہے اور ہم جب کبھی آپس میں ملتے ہیں یا فون پر بات ہوتی ہے ہم نے کبھی سیاست کو موضوع گفتگو نہیں بنایا اسحاق ڈار میں ابھی تک جو روحانیت اور روحانی مراکز سے گہری دلچسپی ہے جس طرح سے وہ اولیائے کرام بالخصوص سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر برسوں سے حاضری دیتے ہیں جس محبت سے ان کے مزار کے غسل میں شریک ہوتے ہیں مجھے ہمیشہ ان میں ملک واصف کی گفتگو کا اثر محسوس ہوتا ہے۔
اُردو ڈائجسٹ کے زمانے میں سلیم چودھری کے علاوہ میرا ایک رشتہ تھرڈ ایئر سے ایم اے تک اپنے گہرے دوست اور کلاس فیلو جاوید احمد خان کے ذریعے بھی تھا جو اشفاق صاحب کے قریبی عزیز تھے اور سمن آباد ہی میں رہتے تھے۔ بانو قدسیہ یا اشفاق احمد کی ہر نئی کتاب ان کے پاس ہوتی تھی۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج کی طلبا یونین کا میں صدر منتخب ہوا تو جاوید احمد خان اور برادرم مسرور کیفی میرے زبردست سپورٹر تھے۔ اس سال ہم نے جاوید احمد خان کو پنجاب یونیورسٹی طلبا یونین کا صدر منتخب کروایا، وہ اشفاق صاحب کی طرح گورے چٹے خوبصورت نوجوان تھے اور بہت خوش پوش خوش مزاج اور رومان پرور شخصیت کے مالک تھے بعد ازاں وہ فوج میں چلے گئے اور آج کل لاہور میں اپنا بزنس کر رہے ہیں۔ اشفاق صاحب کے والد صاحب بھائیوں اور قریبی عزیزوں کے علاوہ وہ بانو قدسیہ کی فیملی کی ہر بات آ کر فخریہ انداز میں سناتے تھے کیونکہ ہم طالب علموں کے لئے اُجلے پھول اور گڈریا کے مصنف کی باتیں طلسم حیرت کدہ سے کم نہ ہوتیں تھیں جن سے ہم گھنٹوں محسور تھے۔ ان کے حوالے سے بھی اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کے گھر کی ہر خبر ہم تک مسلسل پہنچتی تھی، رہی سہی کسر میری شفیع خان عرف سلیم چودھری صاحب سے اشفاق سے ملاقاتیں پوری کر دیتیں اورینٹل کالج کے شعبہ اُردو میں یہ مثالی جوڑا سب کا آئیڈیل ہوتا تھا۔