ضیا شاھد کے انکشافات

اشفاق احمد اور ہم …ضیا شاہد.. قسط ..3

اشفاق صاحب سے ایک اور قریبی تعلق چند برس پہلے بنا اور ان کی وفات کے بعد ہمارے کالم نویس اور فوج کے سابق لیفٹیننٹ کرنل محمد مکرم خان سے معلوم ہوا کہ ان کا خاندان اشفاق صاحب کے خاندان سے کتنا قریب ہے اور کتنے گہرے تعلقات رکھتا ہے۔ بہاولنگر کی ایک تحصیل چشتیاں کے گاؤں بخشن خان میں اشفاق صاحب کے والد اور بھائی کی پراپرٹی بھی ہے اور مکرم خان صاحب کے والد تقسیم سے قبل اپنے خاندان کی باتیں کرتے ہیں تو بار بار اشفاق صاحب کے والد ڈاکٹر خان محمد اور ان کے بیٹوں کا ذکر ہوتا ہے۔ میں کبھی ڈاکٹر صاحب سے نہیں ملا لیکن ان کا خوف اور دبدبا اتنا تھا اور وہ ایسی شہرت کے مالک تھے کہ ہم ہائیکورٹ کے سامنے وکیلوں والی سڑک پر واقع ایک پرانی بلڈنگ جس پر فیسرین کا بورڈ لگا ہوا تھا کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کیل چھائیوں کے علاج کے لئے فیسرین بنائی۔ مشہور تھا کہ وہ اپنا نسخہ کسی کو نہیں دیتے۔ انتہائی سخت گیر ہیں لہٰذا جاوید احمد خان کے اصرار کے باوجود کہ وہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جائیں گے ہم نے انکار کیا البتہ اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ سے ملنے کے لئے ہم ہر وقت تیار ہو جاتے تھے۔ اُردو ڈائجسٹ کے زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن میں پروڈیوسر کی آسامیاں نکلیں تو میں انٹرویو دینے گیا۔ ریڈیو اسٹیشن کے سامنے ایمپرس روڈ پر ایک کوٹھی میں انتظامیہ کا دفتر تھا۔ سٹوڈیو ریڈیو اسٹیشن کے پہلو میں چھوٹی سی عارضی عمارت میں بنا ہوا تھا۔ پارٹ ٹائم ہونے کے باوجود مجھے اُردو ڈائجسٹ سے 1150 روپے ماہوار ملتے تھے۔ ان دنوں ایم اے یا ایم ایس سی کرنے والے نوجوان لیکچرار بنتے تو تنخواہ تین سو پچاس روپے ماہوار ہوتی تھی۔ میرے پاس اپنے ذاتی پیسوں سے خریدی ہوئی کار تھی اور میں بڑے مالی فراغت کے دن بسر کر رہا تھا لیکن ٹیلی ویژن نئی ایجاد تھا۔ مجھے ڈرامے لکھنے پروگرام بنانے کا شوق تھا لہٰذا میں نے پرنٹ میڈیا چھوڑ کر ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھنے کی کوشش کی۔ پندرہ بیس امیدوار دفتر کے مختلف کمروں میں بیٹھے ہوئے تھے اور باری باری خواجہ شاہد حسین کے پاس جا رہے تھے جو غالباً پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے۔ عارضی طور پر مجھے شہنشاہ نواب پروڈیوسر کے کمرے میں بیٹھنے کے لئے کہا گیا۔ ان سے میری تھوڑی بہت سلام دُعا تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کس پوسٹ کے لئے انٹرویو دینا ہے میں نے ابھی جواب میں کچھ کہنا چاہا ہی تھا مگر اچانک بلاوا آ گیا۔ پانچ منٹ میں انٹرویو ختم ہو گیا۔ میں نے اپنی ترجمہ شدہ کتابیں دکھائیں اُردو ڈائجسٹ کا تازہ شمارہ پیش کیا جس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں میرا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ یونیورسٹی کی اسناد کی فوٹو سٹیٹ دکھانا چاہیں تو انہوں نے منع کر دیا۔ میں نے صحافت کا عملی تجربہ بتایا جو ان دنوں دس گیارہ سالوں پر محیط تھا۔ کہنے لگے کہ آپ سے مزید انٹرویو کی ضرورت نہیں آپ ٹریننگ اکیڈمی چکلالہ جانے کی تیاریاں کریں۔ میں نے پوچھا جناب کچھ معلومات مل سکتی ہیں کہ سیلری وغیرہ کیا ہو گی۔ انہوں نے کہا چھ سو روپے ماہور۔ میں نے کہا اس شکل میں میرے لئے مشکل ہو گا کیونکہ میں ابھی یونیورسٹی میں دوسرا ایم اے کر رہا ہوں۔ پہلے میں نے گولڈ میڈل لیا تھا مجھے پارٹ ٹائم ملازمت کے عوض بھی ساڑھے گیارہ سو روپے ماہور مل رہے ہیں۔ اسلام آباد جانے سے گھر چھوڑنا پڑے گا اور آدھے سے زیادہ تنخوا تو اخراجات پر صرف ہو جائے گی۔ خواجہ صاحب نے کہا کہ اس صورت میں آپ الگ سے درخواست مجھے بھیج دیں فی الحال تو پروڈیوسرز کی آسامیاں ہیں جن کا گریڈ اور معاوضہ یہی ہے۔ میں سوچوں گا کہ آپ کو اگلے گریڈ میں براہ راست کس جگہ رکھا جائے۔ واپسی پر برآمدے ہی میں مجھے اشفاق احمد مل گئے۔ سلام دعا کے بعد میں نے انٹرویو کی تفصیل بتائی۔ اشفاق صاحب مجھے ہاتھ سے پکڑ کر کوٹھی سے باہر لے آئے۔ اب اشفاق صاحب اور میں ایمپرس روڈ پر کھڑے تھے، انہوں نے بڑی شفقت سے کہا ضیا ! میرے خیال میں جب تم تعلیم مکمل کر کے فل ٹائم اپنے ادارے کو دو گے تو یقیناًپندرہ سو اور دو ہزار روپے کے درمیان تمہارا معاوضہ ہو گا۔ سرکاری نوکری خواہ ٹی وی کی ہو انسان کو پابند کر دیتی ہے۔ پھر یہ تو ہے بھی نیوز پروڈیوسر کی ۔ تم نہ کچھ لکھ سکتے ہو نہ تمہارا کوئی شوق پورا ہو سکتا ہے جب تعلیم سے فارغ ہو جاؤ تو صحافت کے ساتھ ساتھ جو جی میں آئے کرنا۔ یہ کہہ کر وہ رخصت ہو گئے اور میں نے ٹی وی جوائن کرنے کا ارادہ اور خیال دل سے نکال دیا حالانکہ دو تین ماہ بعد پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز سے ایک خط موصول ہوا کہ میں اسلام آباد آ کر خواجہ صاحب سے ملوں۔
اردو ڈائجسٹ میں سات برس کام کرنے کے بعد میں نے استعفیٰ دیا اور کہانی کے نام سے ایک ہفت روزہ شروع کیا۔ مجھے خوشی تھی کہ میں اس کا پبلشر اور ایڈیٹر ہوں۔ ہم نے لاہور میں ہزاروں پوسٹرز دیواروں پر لگوائے۔کہانی دراصل امریکی انگریزی ماہناموں ٹروسٹوری ‘ رئیل سٹوری وغیرہ کی طرز پر مرتب کیا گیا تھا اور ایرانی ہفت روزہ ’’بانوان‘‘ کی لے آؤٹ سائز اور ڈسپلے سے میں بہت متاثر تھا اس لئے اس کی کاپی کرنے کی کوشش کی۔ پہلا پرچہ لے کر میں سب سے پہلے اشفاق صاحب کے پاس گیا اور خوشی خوشی انہیں دکھایا۔ اشفاق صاحب نے اس کی ورق گردانی کی اور مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ ضیا! میں نے پیش گوئی کی تھی نہ اس میدان میں رہو تم بہت آگے جاؤ گے۔ جب میں اٹھنے لگا تو اشفاق صاحب بولے ہمت نہ ہارنا اور ڈٹے رہنا۔ پھر کہا کہ میں تو داستان گو کے سلسلے میں ہمت ہار گیا تھا۔ اصل میں رسالہ نکالنا ایک بات ہے اور اس کے لئے اشتہار جمع کرنا دوسری اور بزنس کے بغیر رسالہ ہو یا اخبار چلتا نہیں۔ بزنس پر توجہ دینا اور کمرشل نقطہ نظر سے ضرور سوچنا یہ وہ سبق ہے جو میں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا۔ میں نے داستان گو کی تعریف شروع کردی بڑا خوبصورت پرچہ تھا۔ فوٹو آفسٹ پر پہلا تجربہ تھا۔ میٹر بہت دلچسپ ہوتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ وہ سنتے رہے اور پھر بولے لیکن فوٹو آفسٹ سے بٹر پیپر پر آگیا تھا اور بالآخر بند ہوگیا تھا حالانکہ میں اور بانو دن رات اس کے لئے محنت کرتے تھے۔ پھر بولے ضیا اگر تم نے مجھ سے پہلے مشورہ کیا ہوتا تو میں یہ تجویز کرتا کہ رسالے کا نام کہانی کا نام کہانیاں رکھو اور اسے اردو‘ انگریزی اور دوسری زبانوں سے ترجمہ شدہ فکشن کا رسالہ بناؤ۔ اس کا سائز بھی داستان گو کا رکھو یا زیادہ سے زیادہ ڈائجسٹ سائز پر لے آؤ۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور واپس چلا آیا۔کہانی چھ سات برس تک شائع ہوتا رہا۔ پھر وہی اشفاق میں اور یاسمین دن رات اس کیلئے کام کرتے تھے۔ یاسمین نے کہانیاں لکھیں‘ ترجمے کئے‘ پروف ریڈنگ کی۔ جب پریس سے رسالہ چھپ کر آجاتا تو رفیق مغل (خبریں کے موجودہ نیوز ایجنٹ) اسے پاکستان بھر کے ایجنٹوں کو بھجواتے۔ ریل کے بنڈل‘ ڈاک کے بنڈل اور آخر میں دفتری سے سینکڑوں پیکٹ ایک ایک رسالے کے بنوا کر جس پر چھپے ہوئے ایڈریس چسپاں کئے جاتے تھے ہمارے گھر کے برآمدے میں ڈال دیتے۔ ہم سب مل کر ان پر ڈاک کے ٹکٹ لگاتے اس کام میں گھر آئے ہوئے مہمان اور میرے دونوں بچے نوشین اور عدنان پیش پیش ہوتے تھے۔ (امتنان ابھی پیدا نہیں ہوا تھا) اس کے باوجود کہ کہانی کی سرکولیشن کبھی آٹھ نو ہزار فی ہفتہ سے کم نہیں رہی تھی لیکن اشفاق صاحب کا مشورہ ٹھیک ثابت ہوا کہ میں اس کی بزنس سائیڈ پر توجہ نہ دے سکا اور اشتہارات کی کمی کی وجہ سے یہ تجربہ کمرشل اعتبار سے کامیاب نہ تھا جبکہ میرا دوسرا ہفت روزہ ’’صحافت‘‘ بغیر اشتہاروں کے صرف تیز سیاسی میٹر کی وجہ سے 63 ہزار کی تعداد تک پہنچا۔
(جاری ہے)