ضیا شاھد کے انکشافات

حسنہ شیخ ، بحٹو کی دوسری بیوی..دوسریقسط…ضیا شاہد

گزشتہ روز حُسنہ شیخ اور سابق وزیراعظم ذوالفقار کے تعلق اور شادی کا تذکرہ ہوا۔ اسی روز میرے ایک محترم اور معزز قاری نے فون پر مجھے کہا کہ حُسنہ شیخ بھٹو کی دوسری نہیں بلکہ تیسری بیوی تھیں۔ میں نے ان کی تصحیح کو سنا لیکن مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ حُسنہ بھٹو کی تیسری بیوی ہی تھیں مگر میں اپنے قاری کی اصلاح کے لئے عرض کروں کہ میرا مقصد خاندان سے باہر بھٹو صاحب کی دوسری شادی بتانا تھا۔ قارئین واضح رہے کہ میں بھٹو صاحب کی پہلی بیوی امیر بیگم کا تذکرہ اسی سیریز میں پہلے کرچکا ہوں۔ اگرچہ حُسنہ بھٹو کی تیسری بیوی ہی تھیں لیکن خاندان سے باہر بھٹو کی دوسری شادی ہی تھی امید ہے میری اس وضاحت سے میرے معزز کرم فرما مطمئن ہوگئے ہوں گے۔ اب میں اپنے یادوں کے سفر کو مزید واضح کرتا ہوں۔
1973ء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بھٹو صاحب عمرے کے لئے جانے لگے تو مولانا کوثر نیازی نے ازراہ مذاق یہ کہا کہ جناب آپ اللہ کے گھر جارہے ہیں حُسنہ صاحبہ سے اپنا تعلق لیگل کرلیں۔ بھٹو صاحب مان گئے اور کوثر نیازی کا کہنا ہے میں نے بڑی سادگی سے ان کا نکاح پڑھایا تھا لیکن کسی طرح یہ اطلاع بیگم نصرت بھٹو تک پہنچ گئی اور انہوں نے نیند کی گولیاں کھالیں۔ بھٹو صاحب بہت پریشان ہوئے اور جب ان کی حالت سنبھلی تو انہوں نے یقین دلایا کہ آپ میری قانونی بیوی ہیں اور فرسٹ لیڈی ہی رہیں گی۔ حُسنہ کو کراچی میں ’’منزل‘‘ نامی گھر میں شفٹ کردیا گیا۔ بھٹو صاحب کے دوراقتدار میں متعدد وزراء ان سے ملنے اس ’’منزل‘‘ نامی گھر میں جاتے تھے۔ حُسنہ جو بہت حسین بنگالی خاتون تھیں ان کی آواز HUSKY تھی۔ بھٹو صاحب کی خواہش کے مطابق حُسنہ نے اپنا نام بدلنے کی کبھی کوشش نہ کی اور ہمیشہ حُسنہ شیخ ہی رہیں۔ بھٹو صاحب کے سارے قریبی جاننے والے اس بات سے آگاہ تھے۔ سندھ انتظامیہ کی طرف سے گھر کی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور لان اور باڑ کی صفائی بھی سرکاری اہلکاروں کے ذمہ تھی۔ کراچی میں حُسنہ نے ایک ٹریول ایجنسی چلائی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک فائیوسٹار ہوٹل میں پارٹنر تھیں ان کی والدہ انڈین تھیں اور کلکتہ کی رہنے والی تھیں جبکہ باپ بنگالی تھا۔ دو بھائی تھے جو حُسنہ کے ساتھ ہی پاکستان آگئے تھے۔ اس کا ایک بھائی کراچی میں ایک ملز کا مالک تھا جبکہ دوسرا حُسنہ کے ساتھ ہی بھٹو صاحب کے بعد لندن چلا گیا۔ حُسنہ کی بیٹی چنن کی شادی پر نور جہاں اور مہدی حسن نے بھی گیت گائے تھے۔ مولانا کوثر نیازی کا ایک انٹرویو جو میں نے ان کی پیپلزپارٹی سے علیحدگی اور نئی پارٹی بنانے کے بعد کیا اور جو ’’صحافت‘‘ کے بعد ’’نوائے وقت‘‘ میں بھی شائع ہوا اس میں بھی کوثر نیازی نے اپنے انٹرویو میں حُسنہ اور بھٹو کی شادی اور نکاح کا ذکر کیا ہے۔ سٹینلے والپرٹ کی ایک کتاب میں بھی حُسنہ شیخ کا تذکرہ موجود ہے اور یہ لکھا ہے کہ 1961ء میں بھٹو صاحب کی ڈھاکہ میں اس سے ملاقات ہوئی تھی جب وہ مرکزی وزیر تھے اور ان کی عمر 34 سال تھی۔ حُسنہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھٹو صاحب میری خوبصورتی سے نہیں بلکہ میری ذہانت سے متاثر ہوئے تھے۔ سٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے حُسنہ اور بھٹو صاحب کے مابین ذہن‘ جسم اور روح کا تعلق تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1990ء تک حُسنہ کا کچھ مشترکہ بزنس سندھ کے سابق وزیراعلیٰ جام صادق مرحوم سے بھی تھا۔ بھٹو صاحب جیل میں تھے تو حُسنہ نے عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان سے بار بار ملاقاتیں کیں اور ان سے درخواست کی کہ بھٹو صاحب کو رہا کروائیں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ شیخ زید نے کوشش بھی کی مگر ضیاء الحق نہ مانے‘ مرتضیٰ بھٹو نے اپنے والد کی رہائی کے لئے جو مہم چلائی اس کے لئے حُسنہ نے عرب ریاستوں کے سربراہوں سے فنڈز بھی حاصل کئے اور آخر میں مایوس ہوکر وہ دبئی سے لندن چلی گئیں تاہم دبئی ان کا دوسرا گھر رہا ہے کیونکہ شاہی خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات بھٹو صاحب ہی نے قائم کروائے تھے۔
حُسنہ شیخ کے بارے میں مجھے خاص معلومات کوثر نیازی نے اس وقت فراہم کیں جب وہ بینظیر بھٹو صاحبہ کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری الیکشن میں پیپلزپارٹی میں دوبارہ شامل ہوئے اور ان کے بہت سے جلسوں میں تقاریر کیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی میں واپسی کے باوجود بینظیر بھٹو صاحبہ کا دل ان کی طرف سے صاف نہیں ہوا وہ الیکشن جیت گئیں تو بھی حکومت کے مرکزی دھارے میں انہیں شامل نہیں کیا گیا بلکہ انہیں اسلامی نظریاتی کونسل کا سربراہ بنا دیا گیا۔ میری ان سے آخری ملاقات تین ساڑھے تین گھنٹے پر محیط تھی۔ انہوں نے ٹیلی فون پر مجھے دعوت دی تھی کہ میرا جی آپ سے ملنے کو چاہتا ہے۔ آپ اسلام آباد میرے گھر پر آؤ اور مجھے ملو اور میرے ساتھ رات کا کھانا کھاؤ۔ میں گیا تو نہ جانے کیوں وہ بہت آزردہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرپرسن نے مجھے دل سے معاف نہیں کیا۔ یوں تو بہت سے انکلوں کو انہوں نے حکومت سے باہر رکھا ہے۔ لیکن مجھ سے شاید انہیں زیادہ ناراضگی ہے۔ اپنی طرف سے انہوں نے مجھے کھڈے لائن لگایا ہے حالانکہ بھٹو صاحب ہر اہم معاملے میں مجھے ساتھ رکھتے تھے حتیٰ کہ پی این اے کی دھاندلی کے خلاف تحریک کے نتیجے میں حکومت پی این اے مذاکرات میں بھی انہوں نے حفیظ پیرزادہ کے ساتھ ساتھ مجھے بھی شامل رکھا لیکن بی بی کا دل مجھ سے صاف نہیں ہے۔ انہوں نے مجھے الگ جلسے کرنے کیلئے کہا اور کسی ایسے جلسے میں مجھے شامل نہیں کیا جو انہوں نے انتخابی تیاریوں کے سلسلے میں منعقد کئے۔ کوثر نیازی نے کہا کہ دراصل وہ مجھ سے اس لئے ناراض تھیں کہ ان کی والدہ مجھ سے ہمیشہ خفا رہیں اور ان کا خیال تھا کہ میں نے حُسنہ شیخ سے بھٹو صاحب کی شادی کروائی ہے اور میرے اوپر ایک سوتن کو لا بٹھایا ہے۔ پھر کوثر نیازی نے مجھے تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا میں نے تو نیک نیتی سے کہا تھا برسوں سے بھٹو صاحب شادی کے بغیر ہی حُسنہ شیخ کے بہت قریب تھے اور میں سمجھتا تھا کہ میرا لیڈر اسلامی احکام کے مطابق باقاعدہ نکاح کرلے۔ میں بہرحال ان کی بھلائی چاہتا تھا۔ حالانکہ بیگم نصرت بھٹو خود جانتی تھیں کہ ان دونوں کے تعلقات کس قدر مسلمہ اور قریبی تھے۔ پھر وہ بولے سیاست میں حکومت میں شمولیت آخری منزل ہوتی ہے میں اتنی دیر بھٹو صاحب کے ساتھ رہا اور ماں کی ناراضگی کے باوجود ایک بار پھر پارٹی میں شامل ہوا اور جان و دل سے پارٹی کی خدمت کی اتنے بڑے بڑے جلسوں میں ‘ میں واحد مقرر ہوتا تھا دوسری طرف بی بی بینظیر کے جلسے ہوتے تھے مگر میری ساری کوشش بیکار گئی لیکن شاید خدا نے مجھے اس کام کے لئے منتخب کیا ہے یہ ادارہ یعنی اسلامی نظریاتی کونسل جو مولویوں سے اپنی جان چھڑانے کے لئے حفیظ پیرزادہ نے آئین میں رکھوایا تھا وہ دائرہ کار اور اختیارات کے سبب کچھ نہ کرسکا لیکن میرے دل میں رہ رہ کر یہ بات آتی ہے کہ مجھ سے پیچھا چھڑایا گیا ہے وہ گھنٹوں مجھ سے گفتگو کرتے رہے لیکن ان کا دل بڑا دکھا ہوا تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ مولانا! ہم سب انسان ہیں آپ نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو غلطیاں بھی کی ہوں گی۔ آپ کو جو موقع ملا ہے آپ سیاست پر لعنت بھیجیں اور کونسل میں رہتے ہوئے دل و جان سے اسلام کی خدمت کریں اور اللہ پاک سے دعا کریں کہ آپ سے بحیثیت انسان جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ معاف کرے اور آپ کو دین کی خدمت کی توفیق دے۔ میں نے کہا کہ حُسنہ شیخ اور بھٹو صاحب کا معاملہ بھی اللہ پر چھوڑیں کوثر نیازی کہنے لگے کہ یقین مانو کہ یہ سب کچھ مذاق ہی مذاق میں ہوا تھا۔ لیکن میری نیت نیک تھی۔ میں نے کہا اللہ کوئی غلطی ہوئی ہے تو معاف کرے اور آئندہ غلطیوں سے بچنے کی توفیق ارزانی کرے۔ کوثر نیازی سے آخری ملاقات بہت دلچسپ تھی کہ نکاح پڑھوانے والا بھی میرے سامنے تھا اور ہر بات تسلیم کررہا تھا۔ بہت وقت گزر گیا اللہ تعالیٰ کوئی غلطی ہوئی ہے تو بھٹو صاحب اور کوثر نیازی‘ دونوں کو معاف کرے۔
حُسنہ شیخ کے بارے میں آخری معلومات بہت اہم ہیں اور عام لوگوں کو ان کے بارے میں کم ہی معلوم ہے کہ دبئی سے لندن جانے کے بعد وہ کیا کرتی رہیں۔ بھٹو صاحب کی زندگی میں وہ مسلسل ان کی رہائی کے لئے کوشاں رہیں بعد میں انہوں نے کچھ عرصہ شدید پریشانی کے عالم میں گزارا۔ پھر لندن سے اردو میں روزنامہ ’’ملت‘‘ شائع کرنا شروع کیا ظاہر ہے کہ وہ اخبار نویس نہیں تھیں صرف فنانسر تھیں۔ جن لوگوں کے سپرد اخبار کی ادارت عملاً تھی وہ پیشہ وارانہ اعتبار سے زیادہ مضبوط نہیں تھے۔ انہوں نے مولانا کوثر نیازی کے بارے میں ایک سٹوری شائع کی کہ وہ ’’لوطی‘‘ ہیں۔ برطانیہ کے قوانین انتہائی سخت ہیں اور اگر آپ نے جو تحریر چھاپی ہو اسے ثابت نہ کرسکیں اور مقدمہ کرنے والا اپنی عزت کی قیمت جتنی مقرر کرے عام طور پر اس رقم کی ڈگری ہوجاتی ہے۔ کوثر نیازی نے یہی دھمکی دی تھی کہ میں آپ کا اخبار تک بکوا دوں گا۔ مجھے رقم یاد نہیں لیکن اچھی خاصی مقدار تھی اور واقعی ان مالی مشکلات کی وجہ سے ’’ملت‘‘ بند ہوگیا۔ کہتے ہیں آج کل حُسنہ شیخ نے سیاسی لوگوں سے ملنا جلنا ترک کررکھا ہے اور وہ انتہائی سادگی اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہی ہے۔
حُسنہ شیخ بھٹو صاحب کی بیوی تھیں یا یہ محض الزام تراشی ہے اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ بھٹو صاحب نے کبھی اسے اون نہیں کیا۔ شاید شادی نہ ہو اور صرف حلقہ احباب میں شامل ہوں۔واللہ اعلم بالصواب