ضیا شاھد کے انکشافات

ذکر مولانا کوثر نیازی کا….از ضیا شاہد..قسط 2

شادمان چوک سے گورنر ہاؤس کو جانے والی سڑک پر تھانہ ریس کورس کے ساتھ ہی دائیں طرف مڑیں تو چنبہ ہاؤس کی تاریخی بلڈنگ سامنے آتی ہے جو وزراء اور اہم لوگوں کی لاہور میں سرکاری قیام گاہ تھی۔ پیپلزپارٹی کا عوامی کلچر تھا کہ جیالے ہر جگہ گھس جاتے تھے۔ ایک بار کوثرنیازی نے فون کرکے مجھے بلایا راجہ انور جو برادرم پرویز رشید کے ساتھ پیپلزپارٹی میں بہت سرگرم ہوتے تھے اور اب دونوں نوازشریف صاحب کی جماعت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں ان دنوں میرے ہفت روزہ میں راجہ انور ’’ہٹ کے آ‘‘ کے نام سے سیاسی مزاحیہ کالم لکھتے تھے۔ انہوں نے اوپر نیچے کوثرنیازی کیخلاف کئی کالم لکھے۔ ان کو غصہ تھا کہ ہمارے مشترکہ دوست طارق عزیز کو جو عمر بھر سے ’’نیلام گھر‘‘ کے حوالے سے مشہور رہیں گے مولانا کوثر نیازی نے بھٹو صاحب کی زندگی پر فلم بنانے کے لئے سرمایہ فراہم نہیں کیا۔ مولانا اپنی پوزیشن کو واضح کرنا چاہتے تھے کہ ان کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے اور وزارت اطلاعات کے پاس کوئی فنڈ نہیں ہے کہ پانچ کروڑ کی خطیر رقم انہیں دی جائے۔ میں چنبہ ہاؤس پہنچا تو مین بلڈنگ سے پہلے انیکسی کی طرز کے کمروں میں جیالوں کا ایک ہجوم پایا میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ مولانا کہاں ہیں ہر جگہ سے جواب ملا کہ آپ انتظار کریں یہیں اس بلڈنگ میں کسی کے ساتھ الگ مشاورت کررہے ہیں۔ موبائل کا دور نہ تھا ورنہ فون کرکے پوچھ لیتا بار بار لوگوں میں گھرے ہوئے ان کے پی اے سے سوال کرتا دوسری تیسری بار پوچھنے پر میرا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور میں نے کہا بھائی انہوں نے مجھے خود فون کرکے یہاں بلایا ہے آپ صرف انہیں اطلاع کردیں۔ اگر وہ مصروف ہوں گے تو میں خود اجازت حاصل کرکے چلا جاؤں گا۔ پی اے مجھے جانتا تھا اور کئی بار ان کے ساتھ میرے دفتر آچکا تھا۔ ان کا کمرہ پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ وہ بمشکل اپنی کرسی سے اٹھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر لاؤنج نما برآمدے میں لے آئے اور پھر میرا ہاتھ چھوڑ کر بولے ملنے والے بہت ہیں اور ان جیالوں کو کوئی نہیں روک سکتا بس آپ میرے پیچھے پیچھے اس طرح آئیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ انہوں نے دو چار چکر لگائے اور جب کوئی ہمارا پیچھا نہیں کررہا تو اچانک ایک دروازہ کھول کر اندر چلے گئے میں نے تعاقب کیا یہ وی آئی پی لوگوں کے بیٹھنے کا کمرہ تھا لیکن مولانا یہاں بھی نہیں تھے۔ میں نے پی اے کو ہاتھ کے اشارے سے پوچھا کدھر ہیں وہ بیڈ روم کے ساتھ جو چھوٹا سا ڈریسنگ روم ہوتا ہے اس میں گھس گئے اور ڈریسنگ روم میں سے باتھ روم میں چلے گئے میں وہیں کھڑا حیران ہورہا تھا کہ اب کیا کروں‘ اتنے میں وہ تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر جھانکے اور تیزی سے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا میں باتھ روم کا دروازہ کھول کر اندر گیا تو کموڈ بند کرکے مولانا اس کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک فائل میں لگی ہوئی درخواستوں پر دھڑا دھڑ دستخط کررہے تھے۔ مجھے ہنسی آگئی۔ مولانا نے کہا ضیاصاحب! ہماری پارٹی عوامی پارٹی ہے جہاں آپ ورکر کو اندر آنے سے نہیں روک سکتے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہر جگہ ہجوم اتنا ہوتا ہے کہ چھپ کر آنا اور چھپ کر فرار ہونا پڑتا ہے پھر بولے باہر لوگ بہت ہیں میں معافی چاہتا ہوں یہیں میری بات سن لو۔ بیٹھنے کی اور کوئی جگہ ہی نہ تھی میں اور ان کا پی اے الماری سے پشت لگا کر کھڑے ہوگئے اور مولانا نے جلدی جلدی کہا بھائی طارق عزیز صاحب اکیلے نہیں پانچ پارٹیاں ہیں جن میں سے تین کراچی کی ہیں‘ بھٹو صاحب کا ہر شیدائی ان پر فلم بنانا چاہتا ہے لیکن اپنے پیسوں سے نہیں بلکہ سرکاری پیسوں سے۔ بھٹو صاحب کسے خوش کریں اور کسے ناراض۔ انہوں نے میری بات سن کر کہا ہے کہ سب کو ٹال دو۔ اب ہر ایک سمجھتا ہے کہ میں جان بوجھ کر اسے پیسے نہیں دیتا۔ فلم تو دو اڑھائی کروڑ میں بھی بن سکتی ہے لیکن یہاں ایسے بھی ہیں جنہوں نے دس دس کروڑ روپے مانگے ہیں۔ راجہ انور ہماری پارٹی ہی کا ایک جیالا ہے بلکہ وہ کراچی کے معراج محمد خان اور فیصل آباد کے مختار رانا کی طرح انتہاپسند ہے۔ خدا کے لئے مجھے گالیاں دینا چھوڑو اور طارق عزیز سے کہو کہ خود بھٹو صاحب سے جا کر بات کریں ۔سرکاری فنڈ نہ سہی تو پرائیویٹ طور پر بھی کچھ صنعت کاروں سے یہ رقم دلوا سکتے ہیں ابھی وہ بات کر ہی رہے تھے کہ بیرونی کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو شک ہوگیا کہ مولانا اندر ہیں اور انہوں نے دروازہ زور زور سے پیٹنا شروع کردیا۔ پی اے نے تھوڑا سا دروازہ کھولا تھا کہ اسے دھکا دے کر مولانا کے چاہنے والے اندر گھس آئے اور میں نے بمشکل ایک سائیڈ سے زور لگا کر ڈریسنگ روم تک راستہ بنایا اور پھر جلدی سے بیڈ روم میں آیا اور وہاں سے باہر بھاگا۔ ان دنوں پیپلزپارٹی کو برسراقتدار آئے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا۔ پارٹی ورکروں کے جذبے جوان تھے اور ان کی بات نہ سنی جاتی تو وہ گردن تک پہنچتے تھے۔
کوثرنیازی کی زندگی کے سینکڑوں واقعات مجھے یاد ہیں ایک بار انہوں نے مجھے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ہماری پارٹی کے علاوہ تاجروں‘ صنعت کاروں‘ دانشوروں اور مذہبی حلقوں میں اس بات کو سراہا جائے کہ ہم اس سال تاریخ میں پہلی مرتبہ 80 ہزار لوگوں کو حج پر بھیج رہے ہیں۔ میں نے کراچی اور اسلام آباد میں بھی اپنے ذاتی دوستوں سے درخواست کی ہے کہ ایک ایک تقریب منعقد کریں جس میں پیپلزپارٹی کی ان خدمات کو سراہا جائے۔ لاہور کی تقریب آپ کروائیں۔ میں نے کہا آپ کو پتا ہے کہ مجھے پیپلزپارٹی کی حکومت سے کئی ایک اختلافات ہیں۔ آپ ماشاء اللہ وفاقی وزیر ہیں۔ کسی مولوی سے کہہ دیں وہ بخوشی یہ کام کروا دے گا۔ کوثر نیازی مُصر رہے بولے یہی تو میں چاہتا ہوں کوئی ایسا دوست یہ کام کرے جو ہماری پارٹی سے منسلک نہ ہو۔ میں نے کہا کام تو آپ نے اچھا کیا ہے لیکن اس شرط پر تقریب کرواؤں گا کہ اس میں صرف کثیر تعداد میں لوگوں کو حج کی سعادت سے نوازنے کی بات ہو گی۔ حکومت کے باقی کاموں کی آپ بھی واہ واہ نہیں کریں گے اور اپنی تقریب میں گفتگو اسی موضوع تک محدود رکھیں گے جو کام حقیقت میں آپ نے کیا ہے۔ وہ مان گئے چنانچہ میں نے دو تین صنعتکاروں ایک کرکٹ کے کھلاڑی، ایک فلم ایکٹر، ایک مال روڈ ایسوسی ایشن کے صدر اور کچھ 5 مزید لوگوں کو جمع کیا۔ ہم سب نے کچھ پیسے اکٹھے کئے اور انٹرنیشنل ہوٹل میں جو اب بند ہو چکا ہے۔ ہال بک کروایا اور مولانا صاحب کو اطلاع کر دی۔ جس روز کی تاریخ مقرر کی گئی تھی صبح سویرے سے اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ راولپنڈی سے گجرات تک شدید بارش ہو رہی ہے اور بے اندازہ ٹھنڈ ہے۔ چار بجے کا وقت تھا۔ فون پر ہمیں صرف یہ اطلاع ملی کہ مولانا کوثر نیازی بائی روڈ چل پڑے ہیں پھر کچھ پتا نہ چل سکا کیونکہ راستے میں سے انہوں نے کوئی فون نہیں کیا۔ ہم نے اندازہ لگایا تھا کہ چار نہیں تو پانچ بجے ضرور پہنچ جائیں گے مگر چھ بج گئے لیکن ان کا اتا پتا نہیں تھا۔ سات بجے سب کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا۔ تین ساڑھے تین سو کے قریب لوگ تھے جن میں نصف سے زیادہ چلے گئے بالآخر ہم نے خود ہی کھانے پینے کی چیزوں پر ہاتھ صاف کیا اور سب لوگ رخصت ہو گئے۔ میں صرف چھ سات لوگوں کے ساتھ کاؤنٹر پر بل ادا کر رہا تھا۔ لاہور میں بھی بارش ہونے لگی تھی جب مولانا پہنچے اور صرف گاڑی سے اتر کر ہوٹل میں داخل ہونے تک خود بھی پانی میں شرابور ہو گئے۔ انہوں نے بار بار معذرت کی اور کہا کہ جی ٹی روڈ پر اس قدر بارش تھی جو رفتہ رفتہ لاہور تک پہنچ گئی تھی لہٰذا انہیں تیز سفر کرنا مشکل ہو گیا۔ میں ہنسنے لگا اور میں نے کہا بس دیکھ لو شاید اللہ پاک کو آپ کی واہ واہ بھی منظور نہیں تھی۔ لگتا ہے آپ کی نیت میں کوئی گڑ بڑ ہے۔ ان کے ساتھ دو گاڑیوں میں چھ سات لوگ آئے تھے ہم انہیں ہال میں لے گئے اور اصرار کر کے چائے پلائی۔ ابھی تک کھانے پینے کی بہت سی چیزیں غیر استعمال شدہ تھیں۔ میں نے کہا آپ کی سزا یہ ہے کہ یہ سب کچھ کھا کر جاؤ۔ کوثر نیازی صاحب بہت خوش مزاج انسان تھے۔ کہنے لگے گاجر کا حلوہ مجھے بہت پسند ہے اور یہ میں نے آتے ہی بے تحاشا کھایا ہے مزید کھانے کے بعد میرا کیا بنے گا اس لئے معاف کر دو۔
ان کی سیاست کے بارے میں اخبار بین ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے۔ میں نے اپنی یادداشتوں میں محض ان باتوں کا ذکر کیا ہے جو میرے مشاہدے میں آئیں اور غیر سیاسی تھیں۔ ایک بار ’’فرنٹیئر گارڈین‘‘ پشاور کے ایڈیٹر اور معروف کارٹونسٹ یوسف لودھی نے اپنے سرورق پر کوثر نیازی کا ایک کارٹون چھاپا جس میں ان کے ایک ہاتھ میں بوتل اور دوسرے میں گلاس تھا۔ کارٹون کے نیچے لکھا
’’رات پی زم زم پہ مے اور صبحدم
دھوئے دھبے جامۂ احرام کے
یہ کارٹون بہت مقبول ہوا اور بہت سے اخباروں اور رسالوں نے اسے قندمکرر کے طور پر شائع کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی وزارت میں بار بار یہ افواہ اڑتی رہی کہ انہوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میری طرح کے وہ لوگ جو انہیں شروع سے جانتے تھے۔ ہمیشہ ان افواہوں کی تردید کرتے۔ میں نے ہمیشہ لکھا اور کہا کہ اقتدار میں رہنے کے لئے کوثر نیازی صاحب بھٹو صاحب کے گھٹنے پکڑ لیں گے لہٰذا ان کے استعفیٰ دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ بھٹو صاحب کے اقتدار کے آخری دن تک ان کے ساتھ رہے البتہ جب بھٹو صاحب پر بُرا وقت آیا تو ہمیشہ کی طرح انہوں نے نئے صدر کے ایوان تک سرنگ لگائی اور دفعتاً پروگریسو پیپلزپارٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔ اس سے پہلے حنیف رامے پیپلزپارٹی کے مقابلے پر مساوات پارٹی بنا چکے تھے اور یہ پارٹیاں اصلی تے وڈی پیپلزپارٹی سے الگ ہو کر مارشل لا کی تپتی دھوپ میں سایہ دار درخت کی طرح تھیں کہ لوگ ان میں آ کر پناہ لیتے تھے۔ یہ پارٹیاں خود تو کبھی کامیاب نہ ہوئیں لیکن پیپلزپارٹی سے نکل کر ضیا حکومت کی پناہ میں ضرور آ گئیں۔ ان دنوں مولانا نے سب سے پہلا طویل انٹرویو میرے جریدے ’’صحافت‘‘ کو دیا جسے بہت سے اخباروں نے پورے کا پورا لفٹ کیا کیونکہ اس میں بہت سے انکشافات تھے۔
(جاری ہے)

حسنہ شیخ کی بھٹو صاحب سے شادی کا تذکرہ ہو یا بیگم نصرت بھٹو سے اپنے اختلافات پر کوثر نیازی صاحب نے بھرپور روشنی ڈالی۔ پھر برسوں تلک کوثر نیازی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ متوازی طور پر چلتے رہے یعنی دکھانے کو ایک فاصلہ ضرور تھا مگر وہ ضیا حکومت کے ساتھ تھے اورایک الیکشن میں تو وہ سینیٹر بھی بنے حالانکہ ان کی پارٹی کے پاس کوئی ایم پی اے نہیں تھا۔ پھر بینظیر بھٹو کے ساتھ دوبارہ ملے اور ان کی انتخابی مہم چلائی لیکن یہاں بھی ایک فاصلہ درمیان میں تھا کیونکہ بینظیر صاحبہ نے کبھی ان کے ساتھ مل کر تقریر نہیں کی بلکہ دونوں الگ الگ جلسوں میں پیپلز پارٹی کی مہم چلاتے رہے۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد محترمہ بینظیر بھٹووزیراعظم بنیں اور کوثر نیازی کو انہوں نے مرکزی سیاست سے ہٹاکر اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنا دیا۔ اس زمانے میں ان سے اپنی آخری ملاقات کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں جو حسنہ شیخ کے بارے میں میرے کالم میں چھپا ہے۔ مولانا کوثر نیازی بے شمار الزامات کے باوجود بہت حوصلے مند انسان تھے۔ تحریر و تقریر میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ایک بار روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے دفتر میں میر شکیل الرحمن صاحب کے کمرے میں ان کا ٹاکرا ارشاد احمد حقانی صاحب سے ہو گیا۔ دونوں بہت پرانے دوست بھی تھے اور میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ روزنامہ ’’تسنیم‘‘ لاہور میں وہ اکٹھے کام بھی کر چکے تھے۔ ارشاد احمد حقانی صاحب ضیا الحق کے سخت خلاف تھے۔ پیپلز پارٹی پر تنقید بھی کرتے تھے لیکن مجموعی طور پر پیپلز پارٹی کو جمہوریت کے لئے بہت مفید خیال کرتے تھے، بینظیر بھٹو صاحبہ کے بڑے مداح تھے۔ کوثر نیازی کہنے لگے حقانی صاحب! آپ کی تحریروں سے لگتا ہے کہ اس بار پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو آپ وہاں ہوں گے جہاں میں پانچ سال رہ کر آیا ہوں۔ حقانی صاحب ہنسنے لگے۔ دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں اور ایک دوسرے کے خلاف لکھ رہے تھے لیکن میں نے بغور ان دنوں اختلاف رائے کے باوجودان کی دوستی تاہم رواداری اور ایک دوسرے کی انتہائی عزت اور احترام کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں نے پوری زندگی میں صرف ایک بار کوثر نیازی کو غصے میں پایاا ور یہاں تک کہ ایک طرف ان کا اخبار ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ تھا تو دوسری طرف آغا شورش کاشمیری کا ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ تھا۔ شورش کی مشکل یہ تھی کہ وہ نثر اور نظم دونوں میں بہت فصیح و بلیغ اردو لکھتے جو تشبیہوں اور استعاروں میں ہوتی تھی۔ وہ گندے سے گندے لفظ کے اتنے خوبصورت اور صاف ستھرے مترادفات سے واقف تھے کہ مطلب بھی ادا ہو جاتا اور زبان اور لہجے میں سوقیانہ پن بھی نہ آتا۔ کوثر نیازی جتنی شستہ زبان بولتے تھے ان کا اخبار جن لوگوں کے سپرد تھا وہ سیدھی لٹھ بازی کے قائل تھے۔ بہرحال لاہور میں کوثر نیازی اور شورش کاشمیری کی ایک دوسرے پر اپنے اپنے انداز میں تبرّے بازی جاری تھی کہ مال روڈ پر ان دونوں کا ٹکراؤ ہو گیا اور ابتدائی کلمات کے بعد نوبت مار کٹائی تک جا پہنچی۔ بعد میں دونوں کے حامیوں کا کہنا تھا کہ پہل آغا صاحب نے کی یا پہلا تھپڑ کوثر نیازی نے مارا بہرحال آغا صاحب معمر تھے شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ کوثر نیازی صاحب خوب صحت مند اور نوجوان تھے اور ان کے چہرے پر تازہ خون کی دمک تھی لہٰذا دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کہ لوگ ان کو چھڑاتے کوثر نیازی صاحب آغا شورش کی کافی پٹائی کر چکے تھے۔ اس زمانے میں آغا شورش کاشمیری رائٹ اور لیفٹ کے چکر میں جماعت اسلامی کے ساتھ اور پیپلز پارٹی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے البتہ کوثر نیازی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے اکیلے ’’مولوی‘‘ ہونے کے باوجود بے شمار مولوی حضرات سے اکیلے جنگ کر رہے تھے۔ ان کے ہفت روزہ ’’شہاب‘‘ پر بھی کئی ادوار آئے۔ پہلا دور وہ تھا جب اس پر ایڈیٹروں کے طور پر کوثر نیازی کے نام کے ساتھ نعیم صدیقی کا نام ہوتا تھا جو اپنے طور پر ایک ماہنامہ ’’سیارہ‘‘ بھی نکالتے تھے۔ پہلے دور کا ’’شہاب‘‘ علمی ادبی اور سیاسی ہفت روزہ تھا۔ دوسرادور شروع ہوا تو پرچہ خالصتاً مذہبی اور ایوب خان کی تعریفوں کی حد تک سیاسی ہو گیا جسے محکمہ اوقاف ہر ماہ رشوت کے طور پر خریدتا تھا۔ تیسرا دور اخباری سائز پر چھپنے لگا یہ تبرّا بازی کا شاہکار اور گالم گلوچ سے بھرپور ہوتا تھا۔ برادرم نذیر ناجی اس کے ایڈیٹر تھے۔ نذیر ناجی نے بھی یہ جنگ خوب لڑی اور بے شمار اخبارات و رسائل کے مقابلے میں چو مکھی کیا آٹھ مکھی لڑائی لڑتے رہے۔
***
کوثر نیازی بے تکلف دوستوں میں بیٹھتے تو مجلس کو زعفرانِ زار بنا دیتے۔ ایک بار انہوں نے مجھے لطیفہ سنایا کہنے لگے بھٹو صاحب نے ایک روز میرا ہاتھ پکڑا اور بولے ’’یارا مولوی یہ جتنے بڑے بڑے مولانا ہیں وہ اپنی تقریر سے پہلے عربی میں کچھ بولتے ہیں۔ مجھے پوری طرح سمجھ میں نہیں آیا لیکن مولوی! تم بھی تقریر سے پہلے ’’نصلی مصلی‘‘ بولا کرو۔ ان کا اشارہ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم کی طرف تھا۔ میں نے انہیں پوری عربی سنائی تو کہنے لگے مجھے کاغذ پر لکھ دو میں بھی اپنے پبلک جلسوں میں آغاز سے پہلے ’’نصلی مصلی‘‘ بولا کروں گا۔ بھٹو صاحب معصوم آدمی تھے میں کئی بار درخواست کرتاکہ اپنی گفتگو میں کوئی ایسا ویسا لفظ نہ بول دیا کریں مگر وہ صاف دل آدمی تھے جو دل میں آتا کہہ دیتے۔ ایک بار کہہ دیا کہ ’’ہاں ہاں میں شراب پیتا تھا غریب کا لہو نہیں پیتا‘‘ اس کے بعد علمائے کرام ان کے پیچھے پڑ گئے اور میرے لئے بھٹو صاحب کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا۔ ایک بار پھر کچھ اس قسم کا موقع آیا جب جلسہ عام میں انہوں نے جوش جذبات میں اپوزیشن کو گالی دے دی۔ ایک اور مرتبہ یہ کہہ دیا کہ جب میں کام کرتے کرتے تھک جاتا ہوں تو بس تھوڑی سی پیتاہوں۔ تنہائی میں میں ہاتھ جوڑتا کہ خدارا احتیاط کیا کریں مگر وہ کہتے عوام صاف گوئی کو پسند کرتے ہیں تم ٹی وی والوں سے فوٹیج نکلوا کر دیکھ لو ہمارے لوگ ایسی بات پر کتنی تالیاں بجاتے ہیں۔ جب بھٹو صاحب جیل میں تھے اور ان کی حکومت ختم ہو چکی تھی میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ انٹیلی جنس والوں کے ذریعے بھٹو صاحب اپنے کچھ وزیروں کی خفیہ سرگرمیوں کی فلمیں اور فائلیں بھی بنواتے تھے۔ تو کوثر نیازی کہنے لگے بھٹو صاحب دوستوں کے دوست تھے لیکن اس بارے میں کسی کو نہیں بخشا جاتا تھا۔ میں نے کہا سب سے زیادہ فلمیں تو پھر آپ کی ہوں گی۔ مولانا کہنے لگے نہیں سوہنے منڈے کی تھیں یاد رہے بھٹو کابینہ میں حفیظ پیرزادہ کو خود بھٹو سوہنا منڈا کہا کرتے تھے۔ میں نے سوال کیا کیا یہ بھی درست ہے کہ وہ غیر ملکی مہمانوں کی خفیہ فلمیں بھی بنواتے تھے تو کہنے لگے چھوڑو یار بہرحال ان کی ان باتوں سے سب کو ڈررہتا تھا کیونکہ وہ ذرا خفا ہوتے تو ہمیشہ طنز میں کچھ نہ کچھ کہہ جاتے تھے اس روز میرے بہت زیادہ کریدنے پر بھی انہوں نے غیر ملکی سربراہوں کی فلمیں تیار کرنے والی کوئی بات نہیں بتائی لیکن ایک اور موقع پر میں نے یہی سوال پوچھا کیونکہ ان دنوں یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ کچھ غیرملکی سربراہوں نے جنرل ضیاء الحق کو بار بار بھٹو صاحب کو معاف کر کے آزاد کرنے کاکہا تو ضیاء الحق نے کہا کہ آپ کی فلمیں بھی بھٹو صاحب کے پاس تھیں جس پر وہ پیچھے ہٹ گئے۔ یہ خبریں سچ تھیں یا جھوٹ میں یہی جاننا چاہتا تھا لیکن بڑی کوشش کے باوجود کوثر نیازی نے آئیں بائیں شائیں کہہ کر مجھے ٹال دیا۔ شاید اتنی بڑی بات وہ کہنا نہیں چاہتے تھے یا شاید الزام ہی غلط تھا۔ مولانا کی زندگی میں بڑے سکینڈل بنے۔ ایک ٹیلی ویژن پر آنے والی ایک نوآموز گلوکارہ کے علاوہ ریڈیو سٹیشن لاہور کی ایک پروڈیوسر اور ایک ناول نگار خاتون کے اس ضمن میں بہت نام لئے جاتے تھے۔ ان کی ایک خاتون دوست کے مالی حالات اچانک بہت اچھے ہوگئے اور انہوں نے ایک فلم پروڈیوس بھی کرا لی۔ مشہور تھا کہ مولانا کوثر نیازی کا سرمایہ بھی اس کے پیچھے ہے۔ خواتین سے لے کر شراب نوشی کی محفلوں میں ان کی مبینہ شوخیوں تک بہت باتیں میں نے سنیں لیکن سچی بات ہے کہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھیں۔ ہاں میری اتنی بے تکلفی ضرور تھی کہ میں ہمیشہ ان کے تازہ ترین سکینڈل کے بارے میں ان سے پوچھتا رہا اور مولانا نے مسکراہٹ کے علاوہ کبھی ہاں یا ناں میں جواب نہیں دیا۔ اب وہ اپنے خدا کے حضور پیش ہو چکے ہیں لہٰذا ایک دوست کی حیثیت سے میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی اچھائیوں کو جو یقیناً بہت سی ہیں اور ان کی برائیوں پر غالب ہیں جو سنی سنائی حد تک بے پناہ ہیں معاف فرمائے۔ ہم سب گناہگار ہیں اورنہ جانے زندگی میں ہم سے کتنی غلطیاں سرزد ہو ئی ہوں گی۔ اللہ پاک کی ذات جانتی ہے کہ اپنی آخری عمر میں جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بنے تو ایک ملاقات کا ذکر حسنہ شیخ والے کالم میں لکھ چکا ہوں کہ وہ آبدیدہ ہوگئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ بینظیر بھٹو نے تو اپنی طرف سے مجھے کھڈے لائن لگایا ہے لیکن مجھے شاید کوئی اچھا کام کرنے کے لئے خدا نے یہاں بھیجا ہے۔ انہیں زیادہ موقع نہیں ملا لیکن وہ واقعی ماضی والے کوثر نیازی نہیں رہے تھے اور انہوں نے ملتان کے رہنے والے سابق سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خان جو انہیں ملنے کیلئے آئے ہوتے تھے کو جلدی رخصت کر کے میرے ساتھ دل کھول کر باتیں کیں اپنی بڑی بڑی غلطیاں تسلیم کیں اور مجھ سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کرو کہ آخری عمر میں واقعی دین کی کچھ خدمت کر جاؤں۔ شاید وہ کچھ بھی نہ کر سکے اور زندگی نے انہیں زیادہ مہلت نہ دی لیکن روز محشر مجھ ایسا گناہگار بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ وہ مجھ سے علی الاعلان اپنے گناہوں کا اعتراف بھی کرتے رہے اور مجھ سے بار بار یہ بھی کہتے رہے کہ میرے لئے دعاکرنا۔ اللہ میرے گناہوں کو معاف کرے اور باقی زندگی واقعی دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے۔ شاید وہ ہم میں سے بہت سے لوگوں سے بہتر تھے کہ آخری عمر میں ہی سہی انہوں نے کھل کر اپنی خامیوں پر اللہ کے حضور بار بار معافی کی درخواست کی اور جس جگہ وہ بیٹھے تھے اس کی مدد سے دین کی خدمت کرنے کی دعا مانگتے رہے میرے دوست کی زندگی جیسی بھی گزری ہو کم از کم مجھے آخری دنوں میں وہ ایک معصوم اور خدا کی بارگاہ میں صاف ستھرے ہو کر پیش ہونے والے سچے مسلمان نظر آئے۔ اللہ پاک ان کے گناہوں کو معاف کرے اور ان کی برائیوں کے مقابلے میں ان کی اچھائیوں کا پلڑا بھاری رکھے۔ کوثر نیازی کے ساتھ زندگی کی بہت سے یادیں میرے ذہن میں ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں موجود نہیں اور میرا ذہن قبول نہیں کرتا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو میں ٹھونک بجا کر لکھتا اور انتظار کرتاکہ اگلے روز وہ مجھے برا بھلا کہنے کیلئے میرے گھر پر آتے ہیں یا نہیں۔