ضیا شاھد کے انکشافات

سب سے بڑے صحافی۔ ارشاد احمد حقانی 4….ضیا شاہد

فاروق خان لغاری نے 5 نومبر 1996ءکو اپنی ہی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کی تو ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم بنایا گیا اور ارشاد احمد حقانی صاحب کو وزارت اطلاعات سونپی تو اخباری حلقوں میں عام طور پر اس تقرر کو پسند نہیں کیا گیا تھا۔ لاہور کے ایک اخباری گروپ کے سربراہ نے بطور خاص اس عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا۔ چونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر اخباری صنعت میں سے وزیر اطلاعات لینا تھا تو ان کے ادارے سے کسی کو لیا جاتا۔ میں نے البتہ اخبار میں ان کی ڈٹ کر حمائت کی۔ میرا موقف تھا کہ اگر ہماری برادری میں سے کسی کو یہ ذمہ داری ملتی ہے تو عزت کی بات ہے اور اگر ان کی جگہ پر کوئی سڑا بھسا سیاستدان آ جاتا تو ہمیں کیا فائدہ ہوتا۔ حقانی صاحب نے اس دور میں بھی لکھنا جاری رکھا البتہ وہ اپنی تحریر بطور وزیر اطلاعات متعدد اخبارات کو بھجوا دیتے اور یوں ان کے لکھنے پڑھنے کا شغل وزارت کے زمانے میں بھی جاری رہا۔ واضح رہے کہ حقانی صاحب یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ جب سردار فاروق احمد خان لغاری نے بینظیر بھٹو کو برطرف کیا اور ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم مقرر کیا تو دونوں نے اسی روز اکٹھے بیٹھ کر مجھے فون کیا کہ آپ اگلی ہی فلائٹ پر اسلام آباد پہنچیں جہاں دیگر وزراءکے ساتھ ساتھ آپ بھی نگران کابینہ میں وزیر اطلاعات کے طور پر حلف اٹھائیں گے چنانچہ حقانی صاحب نے جنگ کراچی آفس فون کرکے سردار فاروق احمد خان لغاری اور ملک معراج خالد کا پیغام سنایا اور ان کی حکومت میں شمولیت کی اجازت مانگی۔ حقانی صاحب بتاتے ہیں کہ پہلے تومیرشکیل الرحمن نے اجازت نہیں دی کیونکہ ان کا مو¿قف تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ نگران دور اور 90 روزہ حکومت کبھی ختم نہیں ہوتی اور یہ سلسلہ طوالت اختیار کرجاتا ہے لیکن حقانی صاحب نے وعدہ کیا کہ اگر ملک معراج خالد اور سردار فاروق خان لغاری نے تین ماہ کے بعد وعدے کے مطابق انتخاب نہ کرائے تو وہ ازخود وزارت کو خیرباد کہہ کرکے جنگ گروپ واپس آ جائیں گے لیکن چونکہ نگران کابینہ نے حسب وعدہ 3 فروری 1997ء ٹھیک 3 ماہ بعد انتخاب کروا دیئے تو ارشاد احمد حقانی صاحب واپس جنگ گروپ آگئے لیکن اب کی بار انہیں لاہور آفس نہیں بلکہ جنگ راولپنڈی میں بیٹھنے کے لیے کہا گیا لہٰذا وہاں وہ 1998ءتک رہے۔ جنگ پنڈی نے انہیں شکرپڑیاں کے بالمقابل ایک نئے بننے والے سیکٹر آئی ایٹ تھری میں رہائش لے کر دی لیکن وہ بہت زیادہ عرصہ وہاں نہ ٹھہرے اور واپس لاہور آگئے جہاں 24جنوری 2010ءکو اپنی موت تک اسی دارے کے سینئر ایڈیٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔
حقانی صاحب سے میں نے ان کی وزارت میں صرف ایک مسئلے پر اختلاف کیا اور فون کرکے انہیں اپنے دلائل پیش کیے۔ مجھے اس امر سے اتفاق نہ تھا کہ تین ماہ کے نگران دور میں انہوں نے وزارت اطلاعات کا نام تبدیل کرکے وزارت اطلاعات و نشریات و فروغ ذرائع ابلاغ رکھ دیا تھا۔
میرا مو¿قف تھا کہ جب تین ماہ بعد آپ کی وزارت ختم ہوگئی اور نئی حکومت بنے گی تو یہ فروغ ذرائع ابلاغ کی پخ نکال دی جائے گی کیونکہ اتنا طویل نام کسی کو ہضم نہیں ہوسکے گا۔ حقانی صاحب نے اپنے دلائل پیش کیے لیکن میں نے آخر میں کہا کہ آپ بھی یہیں ہیں اور میں بھی اسی فیلڈ میں۔ آپ دیکھ لیجئے گا کہ اگلی حکومت یہ نام منظور نہیں کرے گی چنانچہ یہی ہوا اور صرف نام تبدیل کرنے پر جو اخراجات ہوئے وہ ضائع ہوگئے۔
میری معلومات کے مطابق حقانی صاحب اب بینظیر بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی کے اس طرح پرجوش حامی و موئید نہیں رہے تھے جس طرح وہ ماضی میں ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے فاروق خان لغاری کی طرف سے بینظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ جائز تسلیم کیا تھا اور صرف ایک بار میں ان سے اسلام آباد ملنے گیا اور ہم نے ایک ساتھ کھانا کھایا۔ وہ ملکی سیاست میں کرپشن اور اقرباءپروری کے انتہائی مخالف تھے۔ میں نے انہیں کئی بار چھیڑا کہ آپ نے اتنے برس بی بی کے حق میں لکھا اب آپ پڑھنے والوں سے معذرت کریں کہ آپ کا نقطہ نظر صحیح نہ تھا۔ حقانی صاحب کے پاس اپنے مو¿قف کے حق میں کوئی معقول دلیل نہ تھی‘ بس وہ مسکراتے رہے۔ میں نے انہیں وزارت کی مبارکباد ضرور دی لیکن میری سوچ بہرحال یہی تھی کہ تین ماہ کی وزارت سے ایک قومی اخبار میں ”حرف تمنا“ جیسا تجزیاتی کالم لکھنا زیادہ بڑی اور عزت کی بات ہے۔ ذاتی طور پر آخری دنوں تک مجھے ہمیشہ وقتاً فوقتاً فون کرکے اور خیریت دریافت کرتے تھے۔ میرے اخبار کے بارے میں بھی اکثر اپنے تجربے کی بنیاد پر مفید مشورے دیتے اور برسوں تک اپنے نائب رہنے والے شفقت حسین صاحب کے بارے میں کہتے تھے کہ آپ انہیں اپنے اخبار اور چینل کے لیے بلا لیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مدت سے شفقت صاحب ہمارے ادارے سے منسلک ہیں اور فورم اورمیگزین کے علاوہ یادداشتوں کے اس سلسلے میں بھی میری معاونت کرتے ہیں۔ اپنی اپنی حیثیت میں ہم دونوں کو حقانی صاحب کے ساتھ گزرا ہوا وقت بہت یاد آتا ہے۔ مجھے حقانی صاحب کے متعلق یہ کہنا زیادہ اچھا لگتا ہے کہ وہ پیار کرنے والے اور نہایت”بیبے“ انسان تھے۔ میرا خیال ہے اپنی زندگی میں شاید ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جسے حقانی صاحب کی ذات سے کوئی نقصان پہنچا ہو۔ جنگ کی ملازمت کے دوران وہ پاکستان سے باہر جاتے تو واپسی پر میرے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ لانا نہ بھولتے۔ میرے بیٹے عدنان شاہد بارے ہمیشہ پوچھتے اور کئی بار انہیں قلم‘ بال پوائنٹ‘ خوشبو جیسے تحائف دیئے۔ عدنان شاہد نے پہلا مضمون لکھا جو جنگ کے میگزین میں شائع ہوا تھا تو اسے دفتر بلا کر شاباش دی اور بہت خوش ہوئے۔ وہ اول و آخر استاد تھے اور چھوٹوں کی اسی طرح رہنمائی کرتے جس طرح ایک مشفق استاد اپنے شاگردوں کی کرتا ہے۔ ان کے بے شمار شاگرد آج بھی پاکستان اور بیرون ملک موجود ہیں اور میں نے کسی کی زبانی ان کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں سنی۔ سب کو ان کی شفقت اور محبت کا معترف پایا۔ وہ مثبت سوچ کے حامل تھے۔ انتہائی شریف النفس انسان تھے اور ان کا نام لیتے ہی ذہن میں اور چشم تصور میں ان کا شفیق اور خلیق چہرہ ابھر آتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میںبے شمار طالب علموں کی مالی مدد کی ۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی یہ نیک نیتی آخرت میں ان کے لیے اعلیٰ مدارج کی ضمانت ہوگی۔ برسوں تک ان کا یہ معمول رہا کہ ضرورتمندوں کے خطوط کا وہ اپنے کالموں میں ذکر کر دیتے اور پھر بعض مخیر حضرات سے ان کی مالی مدد کرواتے۔ یہ کام وہ انتہائی رازداری سے کرتے تھے اور انہیں کبھی بڑا بول بولتے یا کسی کی عزت نفس کو مجروح کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری دم تک ان کا طرز تحریر” تسنیم“ ” وفاق“ اور” نوائے وقت“ کے ادوار جیسا ہی رہا۔ ان کا خط بہت عمدہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے حروف میں کسی جگہ کٹنگ نہ ملتی تھی اور الفاظ یوں لگتے جیسے موتیوں کی طرح پورے صفحے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ہمیشہ اس بات کا رنج رہے گا کہ اتنے بڑے تجربہ کار کا اگلی نسل میں کوئی لکھنے پڑھنے والا موجود نہیں۔ حقانی صاحب کا تعلق قریش کے ایک قبیلے بنوحم یر سے تھا اور ان کے آباءسعودی عرب سے برصغیر آئے تھے۔
(جاری ہے)