ضیا شاھد کے انکشافات

سب سے بڑے صحافی۔ ارشاد احمد حقانی 5….ضیا شاہد

قارئین میں پاکستان کے سب سے بڑے اور معتبر تجزیہ نگار جناب ارشاد احمد حقانی صاحب پر یادداشتیں قلمبند کررہا تھا کہ اخبارات کے پرانے فائلوں میں مجھے روزنامہ جرا¿ت کی جناب حقانی صاحب کی طویل صحافتی و سیاسی خدمات پر شائع شدہ ایک خصوصی اشاعت پڑھنے کا موقع ملا۔ اس رنگین اشاعت میں جرا¿ت کے چیف ایڈیٹر اور ممتاز صحافی جمیل اطہر نے جناب ارشاد احمد حقانی کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ تاہم اس تحریر کے صرف دو اقتباسات آپ کی نذر کررہا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں”1957ءمیں جب صادق آباد کے قریب ماچھی گوٹھ میں جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا تو میرے تایا جان بھی اس اجتماع میں شریک ہونے کے لئے ماچھی گوٹھ گئے۔ واپس آنے پر وہ جماعت میں اپنے رفقاءسے وہاں ہونے والے مباحث کا بھی ذکر کرتے ان سے مجھے پتہ چلا کہ ارشاد احمد روزنامہ ”تسنیم“ کی ادارت سے مستعفی ہوگئے ہیں‘ میں نے یہ سنا اور فوراً ہی روزنامہ ”امروز“ کو یہ خبر ارسال کردی جس نے یہ خبر صفحہ اول پر شائع کی اور اس طرح اخباری حلقوں کو اس خبر سے آگاہی حاصل ہوئی کہ جماعت اسلامی انتخابات میں براہ راست حصہ لینے کے سوال پر اختلاف و انتشار کا شکار ہوگئی ہے۔
جناب ارشاد احمد جماعت کے اجتماع میں اپنے استعفیٰ کے فیصلہ کا اعلان کررہے تھے تو امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی نے بعض ارکان کی طرف سے ”تسنیم گروپ“ پر سازش کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ارشاد احمد اور مصطفی صادق کی دیانت و امانت پر کوئی شبہ نہیں میں چاہوں گا کہ یہ جماعت کے ترجمان اخبار میں بدستور کام کرتے رہیں اور اگر انہوں نے الگ ہونے پر ہی اصرار کیا تو میں ان کی پیشانیوں پر بوسہ دے کر انہیں رخصت کروں گا۔ بعد میں مولانا مودودی نے اس الوداعی دعوت میں شرکت کی جو ارشاد صاحب اور مصطفی صادق صاحب کے”تسنیم“ سے علیحدہ ہوجانے پر ان کے اعزاز میں ادارہ ”تسنیم “ کی طرف سے دی گئی۔ ایک اور واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جمیل اطہر لکھتے ہیں کہ ارشاد احمد حقانی عمر بھر جمہوریت اور جمہوری اقدار کے سچے پرستار اور علمبردار رہے۔جب وہ وفاق کے لئے اداریہ نویسی کررہے تھے اس وقت بھٹو صاحب کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اپنے جوبن پر تھی تو تحریک کے اندر نوابزادہ نصراللہ خان اور ایئر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان دو مخالف اور متحارب سوچ کے مالک سیاست دان سمجھے جاتے تھے۔ ارشاد احمد حقانی صاحب کا نقطہ نظر نوابزادہ صاحب کے مو¿قف سے قریب تر تھا‘ ایک موقع پر ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے جو کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے مدیر ”وفاق“ مصطفی صادق صاحب سے کہا کہ کیا آج کل ”وفاق“ کا اداریہ نوابزادہ نصراللہ خان لکھ رہے ہیں۔ ایئر مارشل کے اس تاثر سے یہ اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے کہ جس طرح نوابزادہ نصراللہ خان جمہوریت سے اپنی لازوال وابستگی کے باعث ”بابائے جمہوریت سے اپنی لازوال وابستگی کے باعث” بابائے جمہوریت کہلائے‘ اس طرح اپنے وطن کی محبت کے صدہا رنگوں میں گندھے ہوئے اپنے اداریوں اور کالموں کی وجہ سے ارشاد احمد حقانی بھی ”بابائے صحافت“ قرار دیئے جانے کے بجا طور پر حق دار ہیں۔ انہوں نے بھٹو‘ ضیاءالحق‘ جونیجو‘ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں کسی مصلحت اور مفاد کی پروا کئے بغیر ان پر نکتہ چینی کی۔ نوازشریف کا دوسرا دور تو بینظیر حکومت پر ارشاد حقانی کی سخت نکتہ چینی اور مواخذہ کے نتیجے میں حاصل ہوا تھا۔ لیکن نوازشریف نہ صرف ان کے تنقیدی کالموں پر برہم ہوئے بلکہ میر شکیل الرحمن سے یہ مطالبہ بھی کیا جانے لگا کہ ارشاد حقانی سمیت چند ممتاز صحافیوں کو ”جنگ“ سے نکال ہی دیا جائے۔ اس موقع پر میر خلیل الرحمن میموریل سوسائٹی کی طرف سے لاہور کے ایک ہوٹل میں احتجاجی سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس کے مقررین کی فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا۔ پرائم منسٹر ہاﺅس سے میاں نوازشریف کے پریس سیکرٹری رائے ریاض حسین جن سے راقم کے دوستانہ اور برادرانہ روابط بھی تھے مجھے فون کرکے اس سیمینار میں شرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر میں نے ان سے یہ کہتے ہوئے معذرت کی کہ میں اس سیمینار میں شرکت کا وعدہ کرچکا ہوں اور میرا نام میری اجازت سے مقررین کی فہرست میں شائع ہوچکا ہے اس لئے اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا میں نے اس سیمینار میں اپنی تقریر میں ارشاد حقانی کو ادارہ ”جنگ“ سے الگ کرنے کے مطالبہ کی شدید مذمت کی اور نوازشریف کو یاد دلایا کہ آج وہ اقتدار کے جو مزے لوٹ رہے ہیں یہ اقتدار ان کو بینظیر بھٹو کے دور حکومت کے خلاف ارشاد حقانی کی جارحانہ نکتہ چینی کے نتیجے میں تبدیل ہونے والی رائے عامہ کی بدولت حاصل ہوا ہے۔ ارشاد حقانی صاحب کی صاحبزادی اتفاق سے اس سیمینار میں موجود تھیں۔ ارشاد صاحب نے فون کرکے مجھے بتایا کہ میری بیٹی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ کے حق میں سب سے زیادہ پرزور آواز جمیل اطہر نے بلند کی ہے۔
(جاری ہے)