ضیا شاھد کے انکشافات

سید مودودی کی کچھ یادیں..تیسری قسط..ضیا شاہد

واضح رہے کہ 1970 ء کے انتخابات کے وقت دیوبندی (مولانا مفتی محمود) اور بریلوی (شاہ احمد نورانی) اکثر اوقات ایک دوسرے کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھتے تھے۔ دونوں کی مساجد اور مدرسے الگ الگ تھے۔ لیکن 1977 ء میں قومی اتحاد بننے کے بعد نہ صرف انہیں اکٹھے نماز پڑھنا پڑی بلکہ عوامی پریشر پر ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اعلان کرنا پڑا کہ نظام مصطفیؐ کے نفاذ کے حوالے سے وہ ایک ساتھ رہیں گے۔ جماعت اسلامی کا بھی کچھ ایسا ہی طرز عمل تھا اور قومی اتحاد بننے سے پہلے یہ لوگ بھی بالعموم دوسرے مکتبہ ہائے فکر کے ماننے والوں سے الگ تھلگ رہتے تھے بلکہ نظام مصطفیؐ بنیادی طور پر مولانا شاہ احمد نورانی کی جماعت کا پرانا نعرہ تھا۔ جماعت اسلامی والے نظام اسلام کی اصطلاح استعمال کرتے تھے یہی نعرہ بھٹو صاحب کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد دوبارہ سامنے آگیا اور میں نے جب مولانا شاہ احمد نورانی اور صحافت کی دنیا سے ہمارے دوست اور جے یو پی کے سرکردہ نوجوان رہنما ظہور الحسن بھوپالی سے پوچھا تو تھوڑی سی بحث و مباحثے کے بعد وہ مان گئے کہ ان پر پارٹی کے اندر سے بڑا دباؤ ہے کہ ساری عمر جن لوگوں کو آپ عقیدے کے اعتبار سے درست نہیں سمجھتے تھے اور ان کی مسجد کے مقابلے میں اپنی مسجد بناتے اور اپنی فکر کے مطابق دینی مدرسے قائم کرتے تھے جس میں بالعموم دوسرے مکتبہ فکر کے بارے میں سخت زبان استعمال کی جاتی تھی اب بھٹو صاحب کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد ایسے اتحاد میں رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
وہ بھی عجیب دن تھے کہ بہت عرصہ پہلے 1970ء کا الیکشن ہونے والا تھا اور سب سے بڑا سیاسی اکھاڑا جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے درمیان لگا تھا۔ پیپلزپارٹی کا نعرہ روٹی‘ کپڑا اور مکان تھا اور سیاسی ماٹو جمہوریت ہماری سیاست ہے‘ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ مودودی صاحب فکری طور پر سوشلزم کو کمیونزم کی ایک شکل قرار دیتے تھے اور اسلام کے مقابلے میں اسے لادینیت سمجھتے تھے۔ پورے ملک میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں جماعت اسلامی کی کئی برس سے آپس میں شدید مخالفت تھی۔ گھر تقسیم ہوگئے تھے‘ رشتہ دار الگ ہوگئے تھے اور عام طور پر پیپلزپارٹی کے لوگوں کو سوشلزم ہی کی وجہ سے خلاف دین قرار دیا جارہا تھا۔ جواب میں جماعت اسلامی اور مودودی صاحب کے خلاف پیپلزپارٹی کے حامی لکھنے اور بولنے والے انتہا پر جا کر مودودی صاحب کو ’’سو یہودی ایک مودودی‘‘ قرار دیتے تھے اور اکثر اوقات اپنے جلسوں میں ’’یہودی ٹھاہ‘ مودودی ٹھاہ‘‘ کے نعرے لگاتے تھے۔ پیپلزپارٹی والے بطور خاص جماعت اسلامی کو اپنا دشمن اول قرار دیتے تھے اور الیکشن سے قبل لوگوں میں شرطیں لگی تھیں کہ کون کامیاب ہوگا اور کون ناکام لیکن جب الیکشن ہوا تو دنیا حیران رہ گئی مغربی پاکستان میں زبردست طریقے سے پیپلزپارٹی پھر کامیاب ہوئی۔ اس نے غالباً 80 فیصد سے زائد نشستیں حاصل کیں اور یہ کہا گیا کہ پارٹی نے کسی کھمبے کو بھی کھڑا کردیا تو عوام نے والہانہ انداز میں اسے ووٹ دیا۔ پورے مغربی پاکستان میں یعنی پنجاب‘ سندھ‘ سرحد اور بلوچستان میں جماعت اسلامی کو قومی اسمبلی میں صرف چار سیٹیں ملیں۔ جماعت اسلامی طنز کا نشانہ بن گئی حالانکہ اس سے پہلے جناب الطاف حسن قریشی کے جریدے ’’زندگی‘‘ نے جس کی ادارت میں مجیب الرحمن شامی شامل تھے الیکشن سے پہلے پاکستان بھر کا جو انتخابی جائزہ پیش کیا تھا اس کا انداز کچھ یوں تھا۔ گجرات حلقہ نمبر این اے فلاں اس سیٹ سے چودھری خاندان کامیاب ہوتا رہا ہے ایک بار ان کیخلاف نواب زادہ خاندان کامیاب ہوتا رہا تھا لیکن اس بار عوام دونوں دھڑوں سے بیزار ہیں اور نظام اسلام کی خاطر جماعت کو ووٹ دیں گے اور اسلامی جمعیت طلباء کے سابق سربراہ عثمان غنی کامیاب ہوں گے شاید میری یادداشت نے غلطی کھائی ہو اور جیتنے والے اور ہارنے والے کا نام صحیح نہ ہو لیکن ہر حلقے کا جائزہ کچھ اس طرح کا لیا گیا جو الیکشن کے بعد 99 فیصد غلط ثابت ہوا تو اسلام پسند کہلوانے والے گھروں میں گھس گئے ہر جگہ یہی بحث جاری تھی ہمارے دفتر میں بھی پیپلزپارٹی کے حامی دن بھر جماعتوں کو طعنے دیتے رہے۔ اتنی پبلسٹی‘ اتنے پوسٹرز ‘ پمفلٹس‘ کپڑے کے بینرز اخباری اشتہار سب ناکام رہے۔ بالآخر ایک روز فیصلہ ہوا کہ مودودی صاحب سے چل کر پوچھیں کہ الیکشن میں آپ کو شکست فاش ہوئی ہے اب آپ کیا کریں گے؟ ٹیلی فون پر وقت لیا گیا تو جواب میں کسی نے کہا روزانہ دوست جمع ہوتے ہیں عصر کی نماز سے مغرب کی نماز تک عام نشست ہوتی ہے آپ بھی آجایئے اور جو چاہیں وہ پوچھ لیجئے۔ ہم تین چار لوگ اس نشست میں وقت سے کچھ پہلے ہی پہنچ گئے مودودی صاحب کے گھر میں داخل ہوتے ہی اندرونی عمارت کے سامنے چھوٹا سا پارک تھا یہیں نشست ہوتی تھی پھر سید مودودی آئے پہلے نماز عصر با جماعت پڑھی گئی دعا کے بعد گپ شپ شروع ہوگئی۔ میرا خیال تھا کہ وہ سخت پریشان ہوں گے شکست بھی چھوٹی موٹی نہیں بڑی تگڑی تھی لہٰذا سب سے پہلا سوال بھی ہم نے کیا اور پرجوش انداز میں ایک تقریر کر ڈالی کہ جناب آپ کو تو یکسر ناکامی ہوئی ہے اگر واقعی پیپلزپارٹی سوشلزم لانا چاہے تو ملک بھر میں ان کے سامنے کوئی شخص رکاوٹ کھڑی نہیں کرسکتا تو مغربی پاکستان میں کسی حد تک وہ خود اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی بڑی حد تک سیکولر اور انڈین اثرورسوخ میں ہے لہٰذا اسلام پسندوں کے لئے کوئی راستہ نہیں بچا۔ مودودی صاحب کے چہرے پر کمال کا اطمینان تھا۔ لگتا تھا کہ ان پر کوئی ٹینشن نہیں وہ بولے پہلے یہ سمجھنا پڑے گا کہ ایک لادین یعنی سیکولر اور مسلمان کے نزدیک کامیابی کا تصور کیا ہے اور شکست کا کیا ہے۔ پھر انتہائی صبروتحمل سے انہوں نے تابڑ توڑ سوالوں کے جواب دیئے جن کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان کی زندگی میں کامیابی کا تصور کیا ہے اور غیر مسلم کی زندگی میں کیا ہے۔ غیرمسلم کی زندگی میں دنیاوی کامیابی ہی سب کچھ ہوتی ہے کیونکہ اس کا آخرت پر یقین نہیں ہوتا۔ جبکہ مسلمان کے نزدیک کامیابی کا تصور یہ ہے کہ جو زندگی اسے امتحان کے لئے ملی اس میں اس کا طرز عمل کیا تھا۔ اس نے ایک مسلمان کی حیثیت سے کیا کامیابی حاصل کی اور کیا ناکامی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سوشلزم اسلام کے خلاف ایک دنیاوی نظریہ ہے جبکہ مسلمان کے لئے دنیا ایک امتحان اور تجربہ گاہ ہے۔ ہمیں الیکشن لڑنا تھا کیونکہ مروجہ طریق کار مسلمان قوم کی رہنمائی کے لئے یہی تھا کہ آپ زیادہ سیٹیں حاصل کرکے حکومت بنائیں یا اگر ایسا نہیں کرسکتے تو بھی اسمبلیوں میں معقول تعداد کی بنیاد پر ہر غلط کام کو روکیں اور صرف صحیح کام کی حوصلہ افزائی کریں ہم نے اللہ کے ساتھ جو عہد کیا تھا اسے پورا کیا اور کوشش کی کہ زیادہ سے زیادہ نشستوں پر اپنے لوگ کھڑے کریں پھر ان کی فکری رہنمائی کریں۔ اسلام کے سیاسی نظام کی خوبیاں اجاگر کریں جو کسی بھی مذہب یا نظام حکومت سے کم نہ ہوں اور اس میں معاشرے کو صحیح معنوں میں فلاحی معاشرہ بنا سکیں۔ ہم نے جسم و جان کی ساری صلاحیت صرف کرکے اس نظام کو کامیاب بنانا چاہا۔ لیکن دنیاوی طور پر ہمیں کامیابی نہیں ملی۔ ہمارے نزدیک ہم کامیاب رہے کہ جو کچھ ہمارے بس میں تھا اسے لڑائی میں جھونک کر ہم نے ہر ممکن کوشش کی لہٰذا دنیاوی طور پر ہم ناکام نظر آتے ہیں لیکن دین کے اعتبار سے ہماری اپنی جدوجہد میں مکمل یکسوئی حتی المقدور کوشش اور جو ممکن ہوسکتا تھا اسے پورا کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اور اسلام کے خلاف ملک میں کوئی نظام لانے کی کوشش کی جائے تو خیبر سے کراچی تک ہمارا فرض ہوگا کہ جس بات کو غلط سمجھتے ہیں اس کے آگے ڈٹ جائیں خواہ اس میں ہمیں جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ سید مودودی نے مزید کہا کہ اسلام میں کامیابی کا یہی تصور ہے کہ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جس بات کو آپ غلط سمجھتے تھے اس کے لئے کتنی جنگ کی‘ تحریر سے تقریر سے اور عملی جدوجہد سے کیا آپ نے برائی کیخلاف چوطرفہ جنگ لڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کا حال جاننے والا ہے۔ لیکن ہم مطمئن ہیں کہ جو ہمارے بس میں تھا وہ ہم نے کیا اللہ ہماری جدوجہد کو قبول فرمائے اور آئندہ بھی اسے زندگی کے آخری سانس تک جاری رکھنے کی توفیق دے۔ یہ تھا سید مودودی کا جواب جس کی روشنی میں ہمیں بڑی حد تک اطمینان ہوگیا اور ہمیں اپنے اردگرد کھڑے ہوئے جماعت کے ارکان اور ہمدردوں کی کوششیں مضحکہ خیز نہ لگیں۔ مکتبہ جدید لاہور نے کافی عرصہ بعد ایک کتاب چھاپی ہے جس کا نام ’’کامیاب زندگی کا تصور‘‘ ہے۔ اسے انورشبنم دل نے ترتیب دیا اور اس میں دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ ساتھ سید مودودی کا یہ مضمون بھی شامل ہے کہ میرے نزدیک کامیابی کا کیا تصور ہے ۔
(جاری ہے)