ضیا شاھد کے انکشافات

ضیاالحق، مرد مومن ، مرد حق از ضیا شاہد قسط 4

الیاس شاکر نے صحافت کے بعد میرے نوائے وقت جوائن کرنے پر کراچی میں اسی اخبارکے سیاسی رپورٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا اور بہت محنت کی۔ بعدازاں میں بھی نوائے وقت کراچی کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر بن کر وہاں پہنچا اور 1984ء تک چار سال یہ خدمت انجام دی۔ میرے واپس لاہور آنے کے بعد الیاس شاکر نے جن کا تعلق میمن برادری سے ہے دوپہر کا روزنامہ قومی اخبار شروع کیا جو آج تک چل رہا ہے۔ میر علی احمد تالپور سے اس روز کافی گپ شپ رہی البتہ سالک صاحب واپس اپنے کام کیلئے رخصت ہو گئے۔ میں نے تالپور صاحب سے پوچھا آپ نے الیکشن نہیں لڑنا۔ انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے پتہ نہیں الیکشن ہونے بھی ہیں یا نہیں۔ میں بلاوجہ اتنی اہم وزارت کیوں چھوڑ دوں۔ جب میں واپس لاہور پہنچا تو اگلے ہی روز برادرم جاوید ہاشمی جن سے میری اچھی دوستی تھی، اسلام آباد سے بائی روڈ ملتان جاتے ہوئے ملتان روڈ پر میرے گھر کے سامنے رکے۔ وہ بڑے پٍُرجوش تھے۔ میں نے ان کی کامیابی کیلئے دعا کی اور کہا یار الیکشن ہونگے؟ وہ کہنے لگا آپ کو کیا شک ہے؟ میں نے کہا شک نہیں یقین ہے۔ پھر میں نے تالپور صاحب سے ہونے والی ملاقات کا واقعہ سنایا اور کہا لگتا ہے ضیاء الحق صاحب آپ سے خوش نہیں۔ جاوید ہاشمی بولے وہ مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ البتہ یہ درست ہے کہ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔ میں چونکہ سیاستدان ہوں لہٰذا الیکشن سے باہر کیسے رہ سکتا ہوں۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ اگر الیکشن نہ ہوا تو پھر تحریک انقلاب آئے گی۔ یہ کہہ کر وہ مجھ سے رخصت ہوئے۔ دراصل میرے دوست اور بھائی طارق چودھری سابق رکن سینٹ نے تحریک انقلاب کے نام سے ایک دھانسو قسم کا پریشر گروپ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا تعارفی پمفلٹ 50 ہزار کی تعداد میں میرے ہی پریس سے چھپا۔ جاوید ہاشمی صاحب اس کے متوقع صدر اور طارق چودھری سیکرٹری جنرل بننے والے تھے۔ جاوید ہاشمی کا اشارہ اسی طرف تھا۔
میرے خدشات صحیح ثابت ہوئے الیکشن پھر ملتوی ہو گئے بلکہ یوں سمجھیں کہ اب اس کا انعقاد دور دور تک نظر نہیں آتا تھا۔ بے چارے جاوید ہاشمی مفت میں ملی وزارت چھوڑ آئے۔ میں انہیں ہمیشہ مذاق میں چھیڑتا تھا کہ میں نے نہیں کہا تھا کہ ضیاء الحق صاحب آپ سے کچھ خفا ہیں ورنہ وہ آپ کو استعفے دینے سے منع ضرور کر دیتے۔ میں نے کہا اب دوسروں کی طرح تم بھی گھر بیٹھو اور بھگتو۔
1981ء میں جب ہفت روزہ صحافت چھوڑ کر کہ پری سنسر شپ آنے کے سبب سیاسی ہفت روزے نہیں نکالے جا سکتے تھے کہ پریس میں کاپی بھیجنے سے پہلے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے مہر لگوانا پڑتی تھی۔ سیاسی جماعتیں کالعدم ہو چکی تھیں اس لیے میں نے روزنامہ نوائے وقت بطور میگزین ایڈیٹر جوائن کیا۔ ڈیڑھ دو سال بعد مجھے ترقی دے کر اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر بنا کر کراچی بھیج دیا گیا اور 1981ء سے 1984ء تک میں کراچی رہا۔ اس دور کا ایک دلچسپ واقعہ مجھے یاد ہے کہ ایک دن سندھ کے گورنر جنرل عباسی کی بیگم یاسمین عباسی نے پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی رہائی کیلئے گورنر ہاؤس سے ایک جلوس نکالا۔ پندرہ بیس خواتین ان کے ساتھ تھیں۔ گیٹ پر ان کی اخباری تصاویر فوٹو گرافروں نے بنائیں۔ ایک تصویر بہت ہی شاندار تھی اوپر نیم دائرے میں درج تھا گورنر ہاؤس اور اس کے نیچے بینظیر کو رہا کرو کا بینر اٹھائے یاسمین عباسی باہر آ رہی تھیں۔ یہ دلچسپ بات تھی کہ یاسمین کے شوہر مارشل لاء کے گورنر تھے اور انکی بیگم بینظیر کے حق میں سرکاری رہائشگاہ سے جلوس نکال رہی تھی۔ جب خبر اور تصویر میری میز پر آئے تو میں نے مجید نظامی صاحب کو جو لاہور میں تھے فوراً فون پر بتایا۔ مجید صاحب ہنس پڑے۔ میں نے کہا جی اسے تو فرنٹ پیج پر چھاپنا چاہیے۔ کہنے لگے ضرور چھاپیں مگر شام کو سات بجے جب سرخیاں لکھی جا چکی تھیں اور تصویر اور خبر کاپی پر پیسٹ کر دی گئی تھی، مجھے سندھ کے سیکرٹری اطلاعات کا فون آیا جو ٹی وی کے معروف اداکار اور فنکار انور مقصود کے بڑے بھائی تھے، فاطمہ ثریا بجیا بھی ان کی بہن تھی، انہوں نے کہا کہ ہماری درخواست ہے کہ یہ تصویر اور خبر ہرگز نہ چھاپی جائے۔ میں نے معذرت کی اور کہا کہ میں چیف ایڈیٹر مجید نظامی کے احکامات کا پابند ہوں اُن سے فون پر بات بھی ہو چکی ہے لہٰذا تصویر اور خبر ہم صبح کے اخبار میں پہلے صفحے پر چھاپ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد سندھ کے وزیر اطلاعات احد یوسف کا فون آیا۔ میری ان کی بہت گپ شپ تھی اور وہ قومی اتحاد کی تحریک میں حیدر آباد شہر کے جلوسوں میں پیش پیش رہے تھے۔ میں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا کہ جناب اتنی زبردست خبر اور ایسی دلآویز تصویر ہے اسے آپ کیوں رکوا رہے ہیں۔ جب میں نے ان کی بات ماننے سے یکسر انکار کر دیا تو کم وبیش آدھ گھنٹے کے بعد اسلام آباد سے جنرل مجیب الرحمان کا فون آیا جو وفاقی سیکرٹری اطلاعات تھے۔ یوں نام کے وزیر اطلاعات راجہ ظفرالحق ہوتے تھے جو خود کو ضیاء الحق کی ٹیم کا اوپننگ بیٹسمین کہتے تھے مگر وزرات کے کام کاج حاضر سروس جرنیل مجیب کے سپرد تھے۔ مجیب صاحب سے میرے برسوں کے تعلقات تھے مگر میں نے معذوری کا اظہار کیا اور کہا آپ جناب مجید نظامی سے لاہور بات کر لیں۔ وہ مجھے جو حکم دیں گے میں اس پر عمل کروں گا۔ اگلا گھنٹہ جناب مجید نظامی صاحب سے رابطہ کرنے میں گزر گیا۔ وہ دل کے آپریشن کے بعد بہت احتیاط کرتے تھے اور جلدی بستر پر چلے جاتے تھے اس کے بعد وہ کال نہیں اٹھاتے تھے۔ جنرل مجیب نے مجھ سے پھر رابطہ کیا اور کہا ضیا صاحب مجید نظامی صاحب کال نہیں اٹھا رہے آپ خبر اور تصویر میرے کہنے پر روک دیں میں کل نظامی صاحب سے بات کر لوں گا۔ اگر وہ اپنے سابقہ فیصلے پر قائم رہے تو آپ پرسوں یہ شوق پورا کر لینا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم تمام اخبارات سے بات کر چکے ہیں اور کوئی اخبار تصویر نہیں چھاپے گا۔ میرے جوانی کے دن تھے پھڈے بازی میں مجھے مزا آتا تھا۔ میں نے کہا مجیب صاحب سوری!!! رات دس بجے وزیر اطلاعات احد یوسف سیکرٹری اطلاعات حمیدی اور چیف سیکرٹری سندھ میرے دفتر آن پہنچے کچھ دیر بحث مباحثہ ہوا۔ احد یوسف مجھ سے بگاڑنا نہیں چاہتے تھے لہٰذا وہ چپ ہو گئے۔ سیکرٹری اطلاعات اصرار کرتے رہے۔ البتہ چیف سیکرٹری نے ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔ انہوں نے کہا جی ہم پانچ منٹ میں دفتر پر قبضہ کر سکتے ہیں اور حکماً خبر اور تصویر رکوا سکتے ہیں۔ میں نے کہا ضرور اس شکل میں آپ کامیاب ہو جائیں گے لیکن میرے پاس جواز پیدا ہو جائے گا کہ دفتر پولیس کی حراست میں تھا اور صبح کا اخبار انہی کی نگرانی میں نکلا ہے۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ اگر ہم ایسا نہ بھی کریں اور آپ اخبار چھاپ لیں تو بھی صبح چار بجے آپ کے دفتر اور پریس کے باہر پولیس کا پہرہ ہو گا اور ہم اخبار کی ایک بھی کاپی باہر نہیں نکالنے دیں گے۔ میں نے کہا جناب آپ کی مرضی۔ آپ کے پاس حکومت ہے اس شکل میں بھی اپنے چیف ایڈیٹر کے حکم کی پاسداری کر چکا ہوں گا کہ میں نے خبر یا تصویر نہیں روکی لیکن اس کا جو نتیجہ ہو گا اور مجید نظامی صاحب براہ راست ضیاء الحق سے جو مکالمہ کرینگے اس کی تمام تر ذمہ داری آپ پر ہو گی۔ احد یوسف نے کہا اچھا یار! لڑائی چھوڑو چائے پلاؤ میں نے انہیں چائے کے علاوہ بسکٹ بھی پیش کیے۔ رات کے پونے بارہ بجے تک یہ ٹیم میرے دفتر موجود رہی اور اِدھر اُدھر فون کرتی رہی پھر مکمل طور پر مایوس ہو کر انہوں نے کہا کہ گورنر صاحب کے پاس چل کر مشورہ کرتے ہیں۔ احد یوسف صاحب نے مجھے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ میں نے کہا میری ڈیوٹی کا ٹائم ہے میں گورنر صاحب سے کل مل کر آؤں گا۔ چیف سیکرٹری نے غصے میں کہا کہ کل وہ ضرور آپ سے ملیں گے۔ میں نے کہا جی میں تو عاجز سا بندہ ہوں وہ ساری عمر نہ ملیں تو بھی میرا گزارہ ہو جائے گا۔ وہ اٹھے اور اپنے ساتھیوں کو لے کر رخصت ہو گئے۔ صبح کے اخبارات میں نوائے وقت واحد روزنامہ تھا جس میں یہ خبر اور تصویر پہلے صفحے پر شائع ہوئی تھی۔ دس بجے میں دفتر آیا تو پہلے جنرل مجیب الرحمان صاحب کا فون آیا کہ وہ دوپہر تک کراچی پہنچ جائیں گے پھر مجید نظامی صاحب نے فون کیا اور مجھے ہلکی سی فہمائش کی کہ ضیاء صاحب! اگر وہ لوگ اتنے مُصر تھے تو کچھ آپ ہی نرم پڑ جاتے۔ اخبار کل بھی نکلے گا اور پرسوں بھی۔ زیادہ پریشر ہو تو بات مان جاتے ہیں۔ پھر وہ ہنسے اور بولے میں آپ کی طرح کبھی جیل نہیں گیا اور نہ ہی جانا چاہتا ہوں۔ میں نے پوچھا کیا آپ ناراض ہیں؟ مجید صاحب بولے نہیں مگر آئندہ کے لئے احتیاط کریں، شام چار بجے تک لاہور سے ہمارے دفترکراچی میں مجید نظامی بھی پہنچ چکے تھے اور جنرل مجیب الرحمن بھی۔ میں نیچے بیٹھتا تھا اور نظامی صاحب کا کمرہ بالائی منزل پر تھا۔ انہوں نے ہیلپر کو بھیج کر مجھے بلایا۔ میرا خیال تھا کہیں جنرل مجیب صاحب کے سامنے ہی مجھے ڈانٹ ڈپٹ نہ شروع کر دیں کیونکہ گزشتہ رات میں نے ان سے بہت بحث و مباحثہ کیا تھا مگر میں اس امر کی داد دیتا ہوں کہ نظامی صاحب نے مجھے فون پر جوکہنا تھا کہہ دیا جنرل صاحب کے سامنے وہ مضبوطی سے اپنے موقف پر قائم رہے۔
(جاری ہے)
جنرل صاحب نے نظامی صاحب کو ایک ٹیلی فون نمبر لکھ دیا کہ آپریٹر سے کہیں کہ صدر صاحب سے اسلام آباد بات کروا دے۔ ان دنوں موبائل فون ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے لہٰذا لینڈ لائن پر ہی گزارا کرنا پڑتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجی اور جنرل ضیاء الحق صاحب کے پی اے نے کہا جی صدر صاحب بات کریں گے۔ مجید نظامی صاحب نے ریسیور اٹھایا اور کچھ دیر جنرل صاحب کی بات سنتے رہے جو میں نہیں سن سکا۔ پھر نظامی صاحب کہنے لگے جنرل صاحب آپ اپنے گورنر بدلیں جو گورنر اپنی بیویوں کو قابو نہیں رکھ سکتے وہ صوبے کی حکومت کیا چلائیں گے۔ پھر انہوں نے کچھ دیر تک صدر صاحب کی گفتگو سنی اور بعد ازاں ریسور رکھ دیا۔ جنرل مجیب نے بتایا کہ ہم رات آپ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے۔ نظامی صاحب نے معذرت کی کہ مجھے ڈاکٹروں نے سختی سے ہدایت کی ہے کہ رات اتنے بجے تک بستر پر لیٹ جائیں اور ہر گز ہرگز کوئی کال نہ سنیں۔ جنرل مجیب نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے لاہور میں پی آئی ڈی کے افسروں کو کار پر آپ کے گھر بھیجا کہ وہ ہم سے رابطہ کروا سکیں مگر چوکیدار نے بات سنتے ہی انکار کر دیا کہ اب نظامی صاحب نہیں مل سکتے۔

یہ واقعہ میں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں انتہائی سختی سے پریس کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے لکھا ہے۔ مجھے ہمیشہ اطمینان رہے گا کہ میں نے اپنے ادارے کے سربراہ سے ملنے والی اجازت پر ہمت و جرأت کے ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومت حتیٰ کہ صدر صاحب کے دباؤ کا بھی مقابلہ کیا صدر صاحب نظامی صاحب کا بہت ادب کرتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کوئی دوسرا ایڈیٹر ہوتا تو اس حد تک صدر صاحب کو کھری کھری سنا سکتا، کچھ دنوں بعد زکوٰۃ کانفرنس کے موقع پر ضیاء الحق کراچی آئے، ایڈیٹر حضرات کو بھی اس کانفرنس میں بلایا گیا تھا۔ خاتمے پر چائے کا اہتمام تھا۔ صدر صاحب چائے کا کپ تھامے ہم اخبار والوں کی طرف آئے۔ انہوں نے چند لوگوں سے ہاتھ ملایا اور پھر اچانک ان کی نظر مجھ پر پڑی کہنے لگے ضیا صاحب! آپ تو بڑے خطرناک آدمی ہیں۔ میں ہنس پڑا جنرل صاحب بھی مسکرائے پھر بولے بھئی آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ گورنر ہو یا صدر ہوم گورنمنٹ کی بات ماننی پڑتی ہے۔ پھر وہ مجھ سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھ گئے۔
1984ء میں، میں واپس لاہور آ چکا تھا اور روزنامہ ’’جنگ‘‘ سے منسلک ہو گیا تھا جب ہمارے چیف ایڈیٹر میر خلیل الرحمن کراچی سے لاہور آئے۔ ان کی محبت اور شفقت تھی کہ وہ عام طور پر اپنے بیٹے میر شکیل الرحمن کے کمرے میں بیٹھنے کی بجائے منیجنگ ڈائریکٹرمیر عبدالرب ساجد کے کمرے میں نشست کرتے یا میرے کمرے میں بیٹھ کر دفتر بھر کے لوگوں کو وہاں بلایا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا میرے ساتھ چلو، میں نے یہ بھی پوچھنا مناسب نہ سمجھا کہ کہاں جانا ہے اور خاموشی سے ان کے پیچھے سیڑھیاں اتر کر ان کے ساتھ کار میں جا بیٹھا۔ وہ مجھے سیدھا گورنر ہاؤس لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہم جنرل جیلانی کے پاس تھے۔ ان کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر میاں نوازشریف صاحب بیٹھے ہوئے تھے جن کی تصویریں میں دیکھ چکا تھا لیکن کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ جیلانی صاحب نے میر صاحب سے کہا کہ نوازشریف جنرل ضیاء الحق کے پسندیدہ نوجوان وزیر ہیں۔ آگے چل کر انہیں بڑی ذمہ داریاں ملنے والی ہیں۔ آپ تو کراچی میں ہوتے ہیں میں نے کہا تھا کہ کسی تجربہ کار اسسٹنٹ کو ساتھ لائیں۔ میر صاحب نے میرا نام بتایا اور کہا فرمائیں۔ جنرل جیلانی نے مختصر بات کی اور کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے اخبار میں اپنے مذاکروں میں اپنے انٹرویوز میں نوازشریف صاحب کو پروجیکٹ کریں ۔الیکشن کے بعد سول حکومتیں بنیں تو یہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ میر صاحب نے یقین دلایا کہ ایسا ہی ہو گا۔ نواز شریف نے پہلے میر صاحب سے اور پھر مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگے میں خود آپ کے دفتر آ کر سب سے ملوں گا۔
جنرل ضیاء الحق نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ 1985ء کے الیکشن تک ہماری سلام دعا نوازشریف صاحب سے بہت اچھی طرح ہو گئی تھی، وہ الیکشن کے دوران بھی گوالمنڈی کی گلیوں میں آسانی سے جانے کے لئے ایک چھوٹی گاڑی استعمال کرتے اور ہمیں اس میں بٹھا کر انتخابی مہم میں لے جاتے۔ کبھی کبھی وہ ہمارے فورم میں بھی آتے اور میز پر بحث مباحثہ کرنے والوں میں شریک ہوتے۔ اپنے ساتھ باہر لے جانے کے دوران وہ بڑی محبت سے سردیوں میں سبز چائے اور گرمیوں میں پرانی انارکلی لے جا کر دودھ میں مکس کیا ہوا فالودہ کھلاتے تھے۔ الیکشن ہوا اور وہ منتخب ہو گئے۔ پھر حلف اٹھانے کے بعد جس میں ہم لوگوں نے بھی شرکت کی وہ پہلی بار سول سیکرٹریٹ میں اپنا دفتر دیکھنے گئے تو میں اور برادرم اسد اللہ غالب ان کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ سیکرٹریٹ میں وہ پہلی بار کمرے میں داخل ہوئے تو بڑے اچھے موڈ میں تھے۔ گھومنے والی کرسی پر بیٹھ کر انہوں نے بڑی سادگی اور معصومیت سے کہا کرسی تو اچھی ہے مگر مشکل ہی سے وفا کرتی ہے۔
دن گزرتے چلے گئے حتیٰ کہ چودھری پرویز الٰہی صاحب کی نواز شریف صاحب سے بغاوت کا زمانہ آ گیا۔ انہوں نے مجھے اسمبلی میں سپیکر کے کمرے میں بلایا اور کہا میں روزانہ ایک انٹرویو دوں گا اور نوازشریف پر نئے نئے الزامات لگاؤں گا، آپ ایک ایک لفظ چھاپیں گے۔ میں نے خوشنود علی خان جو چیف رپورٹر تھے سے کہا جناب ہمارے ایڈیٹر میر شکیل الرحمن صاحب سے بات کر لیں شاید وہ چیف منسٹر کے خلاف کچھ چھاپنے کی اجازت نہ دیں۔ پرویزالٰہی صاحب نے کہا کہ آپ روزانہ رپورٹر بھیج دیا کرنا آپ کے ایڈیٹر صاحب سے شجاعت صاحب خود بات کر لیں گے۔ یاد رہے کہ شجاعت صاحب ان دنوں وفاقی وزیر تھے۔ پرویز الٰہی صاحب کے الزامات دو دن ہی چھپے تھے کہ ان کا سلسلہ رک گیا۔ میری معلومات کے مطابق جنرل ضیاء الحق صاحب نے انہیں ڈانٹ پلائی تھی۔ غالباً جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی بچی کی شادی کے موقع پر ہم بھی شامل تھے کہ محکمہ اطلاعات کا ایک افسر مجھے تلاش کرتا ہوا آیا اور کہا کہ آپ کو صدر صاحب یاد کر رہے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو صدر ضیاء الحق کے ساتھ نوازشریف بھی کھڑے تھے اور چودھری پرویز الٰہی بھی۔ صدر صاحب نے کچھ قابل اعتراض الفاظ چھپنے پر مجھے کہا۔ کیاپرویز الٰہی صاحب نے یہ کہا تھا۔ میں نے کہا جی روزانہ رپورٹر جاتے تھے لیکن اتفاق سے اس روز تو میں بھی اسمبلی ہال میں تھا۔ ہم عجیب مشکل میں تھے ایک طرف ہمارے صوبے کے وزیراعلیٰ تھے دوسری طرف چودھری شجاعت صاحب وفاقی وزیر اطلاعات بار بار ہمارے اعلیٰ افسران کو فون پر تاکید کر رہے تھے کہ پرویز صاحب کا کوئی لفظ کاٹا نہ جائے۔ ضیاء الحق صاحب نے میری میری بات کا کوئی جواب نہ دیا اور کہا کہ باقی اخبارات والوں کو بھی بلاؤں تھوڑی دیر بعد ان کے گرد گھیرا سا بن گیا۔ ضیاء الحق نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا نوازشریف صاحب میرے وزیراعلیٰ ہیں۔ ان کے پیچھے میں کھڑا ہوں اور صبح اخباروں میں چھاپنا کہ میں نے کہا ہے کہ نوازشریف کا کلہ مضبوط ہے میں ان کے ساتھ ہوں اور ہمیشہ ساتھ کھڑا رہوں گا۔ اگلے دن اخبارات کی یہی لیڈ تھی۔ ’’نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے: ضیاء الحق‘‘۔
وقتی طور پر یہ صلح ہو گئی لیکن یہ پتا چل گیا کہ نوازشریف صاحب کو جنرل ضیاء اپنا سیاسی وارث قرار دے چکے ہیں۔ وہ ان کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہ ہوتے تھے۔ بعد کے واقعات نے مزید ثابت کر دیا کہ نوازشریف صاحب نے بھی جونیجو دور میں انہیں چھوڑ کر ضیاء الحق کا کھل کر ساتھ دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے اپنے بیٹے اعجاز الحق کی سیاست میں انٹری باپ کی وفات کے بعد ہوئی۔ یہ دبئی کے کسی بنک میں کام کرتے تھے اور ان کو پاکستان آنے کی اجازت بھی دو چار دن کے لئے ملتی تھی۔ ضیاء الحق نے اپنی سیاسی وراثت مکمل طور پر نوازشریف کے سپرد کر دی تھی۔
ضیاء الحق صاحب سے معمول کی ملاقاتیں اور خصوصی کھانوں میں شرکت کا بے شمار مرتبہ موقع ملا۔ وہ بہت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور گفتگو کے دوران بھی نماز کا وقت آنے پر اندر جا کر نماز پڑھنا ان کا معمول تھا۔ میں کراچی کے واقعات میں سے ایک واقعہ بھول گیا ہوں۔ ایک بار ہمیں ایئرپورٹ پر پہنچنے کا پیغام ملا۔ ایڈیٹر حضرات کراچی ایئرپورٹ گئے اور خصوصی لاؤنج میں جنرل ضیا کی آمد کا انتظار کرنے لگے کہ اچانک لاؤنج میں کھسر پھسر شروع ہو گئی کچھ لوگ باہر گئے اور کچھ اندر آئے۔ پھر کسی نے بتایا کہ اسلام آباد سے صدر کا طیارہ کراچی کے لئے روانہ ہوا تھا کہ پبی کی پہاڑیوں پر پرواز کے دوران کسی نے زمین سے طیارے پر طیارہ شکن راکٹ چلایا جو صرف چند انچ کے فاصلے پر اوپر نکل گیا اور طیارہ محفوظ رہا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بی بی سی نے یہ خبر نشر بھی کر دی ہے ابھی ہم اس پر تبصرہ کر ہی رہے تھے کہ ضیاء الحق کا طیارہ آن پہنچا اور تھوڑی دیر بعد وہ حسب سابق تیز قدموں سے چلتے ہوئے اور چہرے پر مسکراہٹ لئے لاؤنج میں داخل ہوئے۔ ایڈیٹروں کے علاوہ بیورو کریسی کے ساتھ ساتھ سندھ سے آنے والے چند بلدیاتی رہنما بھی موجود تھے تین چار باریش اور معمر سندھی پگڑیاں باندھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ضیاء الحق کو دیکھتے ہی بلند آواز میں رونا شروع کر دیا اور ان میں سے ایک نے کہا اللہ کرے ہماری عمر بھی آپ کو لگ جائے۔ آپ نے پاکستان کی خدمت کے لئے جو کام کیا ہے ہماری جانیں بھی آپ پر قربان ہیں۔ ضیاء الحق صاحب ہمیں چھوڑ کر ان کی طرف بڑھے۔ انہوں نے روتے ہوئے بوڑھے افراد کے کندھوں پر ہاتھ رکھے اور بار بار انہیں تسلی دی اور پھر بڑے باوقار انداز میں بولے بزرگو! بھائیو! میں الحمدللہ مسلمان ہوں اور میرا ایمان ہے کہ جس دن میں پیدا ہوا تھا اس سے بھی پہلے خالق حقیقی کے پاس یہ امر طے شدہ تھا کہ محمد ضیاء الحق نامی بچہ کتنے برس جئے گا اور کب اسے واپس بلایا جائے گا۔ آپ اطمینان رکھیں مجھے آپ کی خدمت کا جو موقع ملا ہے اگر اللہ کو منظور ہے کہ میں اسے جاری رکھوں تو ایک چھوڑ کر ہزار راکٹ چلائے جائیں تو بھی مجھے کچھ نہیں ہو گا اور اگر اللہ کو یہ منظور ہے کہ میرا وقت پورا ہو گیا تو میں اس لاؤنج میں آپ سے باتیں کرتے کرتے بے ہوش کر زمین پر گروں گا اور اللہ کے حضور پہنچ جاؤں گا۔ میں نے ان کی آواز سنی لہجہ دیکھا۔ ان کے اعتماد اور یقین کو دیکھتے ہوئے میں ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ضیاء الحق میں ایک لاکھ خامیاں ہوں لیکن خدا کی ذات پر ان کا یقین مستحکم تھا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ان کی پسندیدہ نعت کے الفاظ یہ تھے۔
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا
کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
چند سال بعد میں ’’جنگ‘‘ ہی سے منسلک تھا کہ محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے ان کے دور میں بینظیر بھٹو نے کانفرنس میں شمولیت کے لئے جونیجو صاحب سے ملاقات کی تو وزیراعظم جونیجو اور بینظیر بھٹو نے وزیراعظم ہاؤس کے مختلف حصوں میں گھوم کرپرانے وقتوں کو یاد کیا، یہ خبریں اور تصویریں چھپیں تو اکثر دوستوں نے مجھے فون کیا کہ ضیاء الحق جونیجو صاحب کی اس مہمان نوازی کو پسند نہیں کریں گے پھر جونیجو صاحب کے وزیرخارجہ زین نورانی نے افغانستان کے بارے میں ضیاء الحق کی پالیسی سے انحراف کیا اور کھلم کھلا مخالف رائے دی۔ ایک بار پھر مجھے اسلام آباد کے بقراطوں نے فون کئے اور کہا کہ جہاد افغانستان ضیاء الحق کے خیال میں ان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی پتھر ہے لہٰذا ضیاء الحق زین نورانی کا وجود برداشت نہیں کریں گے۔ کچھ ماہ بعد ہم چند اخبار والوں کو چین جانے کا دعوت نامہ ملا۔ ہم اس سفر کے لئے تیار تھے کہ اچانک خبر آئی کہ صدر نے جونیجو صاحب کی وزارت عظمیٰ ختم کر دی ہے اور کابینہ بھی ختم کر دی ہے۔ چند روز بعد ہمیں صدر ضیاء الحق کی طرف سے ان کی زندگی کی طویل ترین پریس بریفنگ کے لئے بلایا گیا۔ میں روزنامہ جنگ کی طرف سے بڑے میر صاحب کے ساتھ راولپنڈی پہنچا۔ چوکور میز پر 30/40 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، ضیاء الحق صاحب آئے اور ابتدا ہی میں انہوں نے کہا کہ میں اپنی بات بھی کروں گا لیکن پہلے آپ کی سنوں گا، آپ میں سے ہر شخص صورتحال پر اپنی رائے دے۔ میں نے جونیجو حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے لہٰذا آپ بتائیں کہ آگے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ صبح دس یا گیارہ بجے بریفنگ شروع ہوئی۔ ظہر کی نماز کا وقت آیا تو نماز کے لئے وقفہ ہوا۔ میں واش روم جانے کے لئے اس کمرے میں گیا تھا۔ یہاں وضو کرنے کے لئے چار یا پانچ ٹوٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور وضو کے کمرے کی طرف جانے لگے۔ چند منٹ بعد ضیاء الحق دوبارہ میز کی طرف آئے۔ پوری میز خالی پڑی تھی صرف دو لوگ موجود تھے۔ ایک طرف میں تھا اور دوسری طرف ایک انگریزی اخبار سے منسلک ملیحہ لودھی۔ جو آج کل اقوام متحدہ میں پاکستان کی خصوصی سفیر ہیں۔ پہلے ضیاء الحق خود چل کر ملیحہ لودھی کے پاس گئے اور بڑے احترام سے ان سے کہا کہ محترمہ اگر آپ کو نماز ادا کرنی ہو تو نیچے گاڑی حاضر ہے وہ آپ کو قریب ہی میری رہائش گاہ پر لے جائے گی۔ میں نے بیگم کو پیغام بھیج دیا ہے وہ آپ کا خیر مقدم کریں گی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد آپ واپس تشریف لے آئیے گا۔ ضیاء ا لحق صاحب کی طویل بات سن کر ملیحہ لودھی نے انتہائی مختصر الفاظ میں کہا جنرل ! یو نو میں نماز نہیں پڑھتی۔ ضیاء الحق مسکرائے اور پھر پوری میز کا چکر کاٹ کر میرے پاس آئے۔ انہوں نے کہا ضیا صاحب! آپ کو کیا ہوا۔ کیا طبیعت ناساز ہے۔ میں نے کہا نہیں جناب میرا نماز پڑھنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ میں نے صبح کی نماز بھی نہیں پڑھی تھی حالانکہ میں روزانہ صبح کی نماز ضرور پڑھتا ہوں۔ وہ کہنے لگے آئیں پھر تشریف لائیں، میں نے معذرت کی اور کہا کہ نماز اللہ کے لئے پڑھنی چاہیے ملک کے حکمران کی خوشنودی کے لئے بغیر وضو نماز میں امام کے پیچھے کھڑے ہونا اچھی بات نہیں، ضیاء الحق صاحب پھر ہنسے اور بولے آپ کو کیسے پتا کہ لوگ بغیر وضو کے نماز پڑھیں گے میں نے کہا 40/50 لوگ موجود ہیں اور اندر ٹوٹیاں شاید چار ہیں۔ یہ 50 لوگ وضو نہیں کر سکتے ا ور صبح سے ہم یہاں بیٹھے ہیں لہٰذا یہ دعویٰ بھی غلط ہو گا کہ سب وضو میں ہیں۔ ضیاء الحق بولے آپ کبھی نہیں بدل سکتے جیسے آپ کی مرضی۔ یہ کہہ کر وہ کمرہ نماز میں چلے گئے۔
اس روز ظہر کی نماز کے بعد کھانا ہوا اور پھر گفتگو شروع ہو گئی۔ عصر کی نماز سے پہلے بمشکل ہم فارغ ہوئے۔ ہر شخص نے طویل گفتگو کی۔ اختتام پر ضیاء الحق صاحب نے اشارۃً بتایا کہ وہ مغربی جمہوریت کی جگہ اسلام کے نظام مشاورت پر مبنی سسٹم لا رہے ہیں اور اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ آپ لوگ بھی اپنی تجاویز بھیجیں۔ جب ہم اٹھنے لگے تو ضیاء الحق صاحب اپنے مخصوص انداز میں میر خلیل الرحمن صاحب کے ساتھ باہر آئے اور سامنے کھڑی کار تک انہیں پہنچانے پر اصرار کیا۔ میں بھی میر صاحب کے ہمراہ تھا۔ میر صاحب بار بار کہتے رہے کہ صدر صاحب آپ کے اتنے مہمان ہیں آپ انہیں اٹینڈ کریں لیکن ضیاء الحق صاحب اپنی بات پر مُصر رہے۔ جب میر خلیل الرحمن کار کی اگلی سیٹ پر بائیں جانب بیٹھ گئے تو بھی ضیاء الحق صاحب رخصت ہونے سے پہلے کار کے دروازے کا ہینڈل پکڑ کر ان سے باتیں کرنے لگے۔ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا لہٰذا اخلاقاً باہر نکلنا چاہا تو ضیاء الحق نے دوسرا ہاتھ میرے دروازے کے ہینڈل پر رکھ دیا اور اشارہ کیا کہ بیٹھے رہیں۔ ضیاء الحق صاحب اصرار کر رہے تھے کہ میر صاحب افغانستان میں جو جہاد ہو رہا ہے وہ آخری مرحلے میں ہے۔ اس جہاد سے فارغ ہو کر ساری توجہ کشمیر پر مرکوز ہو گی اور انشاء اللہ ہم مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروا لیں گے۔ آپ کے کچھ مضمون نگار جہاد کا مذاق اڑاتے ہیں آپ انہیں منع کریں اور انتظار کریں نتیجہ آپ کے سامنے آ جائے گا۔ میر صاحب نے اخلاقاً وعدہ کیا پھر اچانک ضیاء الحق صاحب میری طرف مڑے۔ کہنے لگے میں آپ کو برسوں سے جانتا ہوں آج کل جنگ کے کلر صفحات پر آپ کے ہر موضوع پر کئے جانے والے فورمز چھپ رہے ہیں۔ میں نے ان کی بات سن کر ایک بار پھر باہر آنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا آپ بیٹھے رہیں صرف میری بات غور سے سن لیں۔ میری خواہش ہے کہ آپ رسولؐ پاک کی زندگی کے ہرپہلو پر فورم کروائیں جیسے رسولؐ پاک سربراہ ریاست، رسول پاکؐ بحیثیت منصف اعلیٰ ،رسول پاکؐ بحیثیت کمانڈر انچیف وغیرہ۔ اس کے علاوہ اندرون ملک کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا سے بھی سکالرز کو بلوائیں اخراجات کے لئے ہم بھی مالی تعاون کریں گے اور بعد میں ان ساری باتو ں کو اخبار میں چھاپیں تا کہ لاکھوں افراد تک پہنچ جائے پھر ان تقاریر، مقالہ جات کو کتابی شکل میں شائع کریں۔ ہمارا پورا تعاون آپ کو ملے گا، ایک بار پھر انہوں نے مڑ کر کہا میر صاحب! ضیا شاہد صاحب سے کہیں یہ کام فوراً شروع کریں، میر صاحب نے اس پر بھی اثبات میں جواب دیا تو ضیاء الحق نے ان کے اور میرے دروازے کا ہینڈل چھوڑ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھا لئے۔ میر صاحب کا خیال تھا کہ جنرل صاحب واپس مڑیں گے تو ہم ڈرائیور کو چلنے کے لئے کہیں گے لیکن جنرل صاحب کھڑے رہے اور ہمیں اشارہ کیا کہ آپ چلیں۔ راستے میں میر صاحب بولے میں نے بڑے حکمران دیکھے ہیں آپ کو ضیاء الحق صاحب پسند ہوں یا نا پسند ان سے بڑا متواضع، مہمان نواز اور کسر نفسی سے کام لینے والا حکمران میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔
اس بریفنگ کے دو تین ماہ بعد ایک تقریب میں صرف چند منٹ کے لئے ان سے سلام دعا ہوئی۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ان کو آج تک اپنی بات یاد تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا سیرت رسولؐ پاک پر فورم شروع کیوں نہیں کئے۔ میں نے کہا جس پیمانے پر آپ چاہتے ہیں اس پیمانے پر کام کرنے کے لئے بڑی تیاری چاہئے۔ میں ابتدائی کام انجام دے چکا ہوں جلد ہی انشاء اللہ پھر یہ کام شروع کروں گا۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ اسلام آباد میں کیجئے گا تا کہ پوری دنیا کے سامنے یہ کام آ سکے۔
میری ان سے آخری ملاقات اسلام آباد ہی میں ہوئی، ایک پریس کانفرنس کے اختتام پر وہ خود چل کر ہم چند ایڈیٹروں کے پاس آئے۔ انہوں نے ہم سے پوچھا اسلام کے نظام حکومت کے لئے ہم جو ڈھانچہ بنا رہے ہیں۔ مولانا ظفر احمد انصاری نے اس پر بڑا کام کیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ حضرات اپنے اپنے اخبارات کے لئے انصاری صاحب کا تفصیلی انٹرویو کریں۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا آپ تو انہیں فورم میں بلائیں اور ان کے خطاب کے بعد حاضرین سے کہیں کہ ان سے سوالات کریں۔
کچھ عرصے بعد میں ’’جنگ‘‘ کے دفتر میں دم بخود بیٹھا تھا کہ صدر ضیاء الحق کے طیارہ پھٹنے کی خبر آ چکی تھی اور خوشنود علی خان چیف رپورٹر بڑی تیزی میں تھے اور بہاولپور اور ملتان کے نمائندوں سے بات کرنے کے بعد خود بھی اپنا فوٹو گرافر اور رپورٹر لے کر بہاولپور کے قریب بستی لال کمال پہنچنا چاہتے تھے جس کی فضا میں طیارہ تباہ ہوا تھا۔ گھر پہنچا تو میری بیوی جس نے کبھی زندگی میں سیاست میں دلچسپی لی نہ کسی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ سرکاری ملازمت سے گھر جانے اور اگلی صبح دفتر جانے کے علاوہ ان کا کہیں آنا جانا کم ہی ہوتا تھا۔ وہ اپنا سفری بیگ تیار کر رہی تھیں۔ انہوں نے بڑی آہستگی سے کہا ضیا صاحب! مجھے ضیاء الحق صاحب کے جنازے میں جانا ہے۔