ضیا شاھد کے انکشافات

لاہور کی ایک رات ….رئوف کلاسرا

ورجینیا‘ امریکہ سے ہمارے دوست اکبر چوہدری پاکستان آئے ہوئے ہیں۔
ان کے بھتیجے کی شادی تھی اوکاڑہ میں۔ میں اور عامر متین تیار تھے کہ اوکاڑہ جا کر شادی میں شریک ہوں گے۔ اللہ بھلا کرے مولوی خادم حسین رضوی صاحب کا‘ جن کے دھرنے کے خلاف آپریشن کی وجہ سے پچھلے اتوار موٹر وے بلاک ہوئی اور ہمیں اوکاڑہ نہ جانے کا بہترین بہانہ مل گیا‘ بلکہ الٹا اکبر چوہدری کو فون کرکے ہماری منت کرنا پڑی کہ ہمیں تو خود برات کے لئے راستہ نہیں مل رہا‘ آپ کہاں دھکے کھاتے پھریں گے۔ عامر متین پہلے ہی کوئی بہانہ ڈھونڈ رہے تھے‘ وہ خادم حسین رضوی کا شکریہ ادا کرکے سو گئے۔
جمعہ کو پھر اکبر چوہدری کا فون تھا۔ بولے: اتوار کو امریکہ واپسی کی فلائٹ ہے‘ اب اسلام آباد آنا نہیں ہو سکے گا‘ لاہور ہی آ جائیں‘ گپ شپ کرتے ہیں۔ عامر متین کا حسب روایت موڈ نہ بنا‘ تو میں اکیلا ہی نکل کھڑا ہوا۔ رات گئے لاہور پہنچا تو محفل پہلے ہی اپنے عروج پہ تھی۔ اکبر چوہدری، انور عزیز چوہدری، کالم نگار ذوالفقار راحت، شفیق صاحب، ارشاد علی ساجد، یاسر بٹر اور دیگر دوست تھے۔
انور عزیز چوہدری جہاں موجود ہوں‘ وہاں کیسے ممکن ہے کہ خوبصورت گفتگو نہ ہو۔ ستاسی برس کی عمر میں بھی سیاست سے جنوں قائم ہے۔ وہ ہر اس بندے کو سننے کو تیار ہوتے ہیں‘ جو انہیں نئی بات بتائے۔ وہ گھنٹوں کسی کو بھی سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چوہدری صاحب سے دس برس سے زائد عرصے کا تعلق ہے‘ آج تک غصے میں نہیں دیکھا۔ آئے گا بھی تو لمبی تمہید باندھ کر اتنے خوبصورت انداز میں دھلائی کریں گے کہ اگلے کو نانی یاد آ جائے۔ میں خود وزیر خان جوگیزئی صاحب کے گھر پچھلے ہفتے اپنی ایک بیوقوفی کی وجہ سے دھلائی کرا چکا ہوں۔ اور پھر چوہدری صاحب کی ادب، تاریخ اور شاعری پر کمانڈ۔ اپنی سریلی آواز میں کبھی کبھار وہ میاں محمد بخش کا کلام گاتے ہیں تو سماں باندھ دیتے ہیں۔
مجھ سے پوچھا: اسلام آباد سے آ رہے ہو‘ سیاسی صورت حال کس طرف جا رہی ہے؟ محفل میں موجود کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ شاید سینیٹ الیکشن سے پہلے ہی کچھ ہو جائے گا… کوئی نیا سیٹ اپ۔
میں نے کہا: اگر نواز شریف کی پارٹی سینیٹ سے چند سیٹیں مزید لے بھی لے گی‘ تو کون سی قیامت آ جائے گی؟ نواز لیگ کی اکثریت صرف پنجاب میں ہے‘ جس کی سینیٹ میں بائیس سیٹیں ہیں۔ آدھے سینیٹرز اب ریٹائر ہوں گے۔ چلیں دس بارہ سینیٹر نواز لیگ کے مزید پنجاب سے آ جائیں تو بھی کیا؟ اگر بلوچستان اور فاٹا کے سینیٹرز ملا کر نواز لیگ کا چیئرمین سینیٹ بن جائے تو بھی کیا فرق پڑ جائے گا؟ نواز شریف خود وزیر اعظم تھے، صدر اپنا تھا، سپیکر قومی اسمبلی، پوری کابینہ اپنی تھی۔ پنجاب میں بھائی وزیر اعلیٰ تھا۔ ہر بڑی پوسٹ پر اپنے بندے بٹھائے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود نواز شریف اپنی نااہلی کو روک سکے تھے کہ اب اگر ان کی پارٹی کا چیئرمین سینیٹ بن گیا تو وہ قیامت ڈھا دیں گے؟ ویسے بھی سینیٹ میں پیپلز پارٹی نے نواز شریف کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی تھی‘ تو اسحاق ڈار نے مشترکہ اجلاس بلا کر بلز پاس کرا لیے تھے۔ سینیٹ رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اگر رکاوٹ ڈالے گی تو قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر مشترکہ اجلاس میں سب ترامیم منظور کرا لیتے ہیں۔ اور پھر نواز شریف کو سینیٹ سے زیادہ دلچسپی بھی نہیں ہے۔ چار سال وزیر اعظم رہے‘ صرف ایک دفعہ گئے تھے وہاں۔ رضا ربانی صاحب نے بائی لاز میں ترمیم تک کرا دی کہ وزیر اعظم کا سینیٹ آنا ضروری ہے‘ نواز شریف صاحب نے اس قانونی ترمیم کو بھی گھاس نہیں ڈالی۔ اب رہ جاتے ہیں شہباز شریف تو انہیں سینیٹ سے کیا لینا دینا۔ رضا ربانی صاحب نے چاروں وزرائے اعلیٰ کو بلا کر سینیٹ سے خطاب کی دعوت دی‘ کیونکہ سینیٹ وفاق کا ادارہ ہے۔ شہباز شریف کو دعوت بھیجی گئی تو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اٹھارہویں ترمیم بعد صوبے خود مختار ہیں۔ رضا ربانی کو اس پر یقینا تکلیف ہوئی ہو گی کیونکہ انہوں نے ہی اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو خود مختاری لے کر دی تھی۔
میں نے کہا: مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر نواز شریف کی پارٹی سینیٹ میں اکثریت لے جاتی ہے‘ تو بھی اتنا خوف یا ڈر کیسا کہ نیا سیٹ اپ لائو؟
شفیق صاحب‘ جو مسلم لیگ نواز کے حامی ہیں‘ کا خیال تھا کہ الیکشن ہونے دیں‘ سب ”ڈبے‘‘ نواز شریف کے ووٹوں سے بھرے نکلیں گے۔ ”آپ ڈبہ تو رکھیں‘‘ شفیق صاحب نے طنزیہ انداز میں دو تین دفعہ دہرایا۔
اس پر کسی نے جگت ماری کہ ڈبوں میں کچھ دیر ہے‘ ابھی تو پوری نواز لیگ کلمے پڑھنے پر لگی ہوئی ہے‘ وہاں سے ذرا فارغ ہو لیں۔
میں نے کہا: سر جی! اس ڈبے کا نام ہے پنجاب۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 272 سیٹیں ہیں۔ ان میں سے 148 پنجاب کی ہیں۔ جو پنجاب سے جیت جاتا ہے‘ وہ پورے ملک میں حکومت بناتا ہے۔ اسے باقی تین صوبوں سے الیکشن جیتنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نواز شریف کی سندھ، بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں کتنی سیٹیں ہیں؟ ہزارہ میں چند سیٹوں کے سوا ووٹ بینک نہیں ہے۔ سندھ میں بھی یہی حالت ہے۔ بلوچستان کے سردار ‘چڑھدے سورج‘ کے ساتھ ہوتے ہیں‘ لہٰذا وہاں پارٹی ووٹ نہیں ہے‘ سرداروں کا ووٹ ہے۔
نواز شریف صاحب کی تیس سالہ سیاست اٹھا کر دیکھ لیں‘ سب کچھ پنجاب کے زور پر کیا۔ بھٹو کے خلاف پنجاب سے بندہ چاہیے تھا‘ لہٰذا جنرل ضیا سے لے کر گورنر جیلانی، اسلم بیگ، حمید گل اور ہمارے دوست میجر عامر تک‘ سب نے زبردستی کوشش کرکے نواز شریف کو لیڈر بنا دیا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود پنجاب میں نئے صوبے نہیں بنائے گئے‘ کیونکہ جس دن نئے صوبے بنیں گے، شریف خاندان کی سیاست ختم ہو جائے گی‘ اور وہی حال ہو گا جو دیگر تین صوبوں میں ہے۔ یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی بن جائے گی اور اب تو خادم حسین رضوی کی وجہ سے جی ٹی روڈ ووٹ بینک بھی خطرے میں ہے۔شفیق صاحب بولے: چھوڑیں ان سب باتوں کو آپ ڈبہ رکھیں‘ اور پھر دیکھیں ووٹ کس کو پڑتے ہیں۔
میں نے کہا: سر جی! اس دفعہ نواز شریف سے ایک بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ پنجاب چڑھدے سورج کو سلام کرتا ہے۔ نواز شریف کے مشیروں نے ان کو مروایا ہے۔ پنجاب کے لوگ یہ سوچ کر ووٹ دیتے ہیں کہ کون سی طاقت کس کے ساتھ ہے اور کون اقتدار میں آئے گا۔ دس برس اقتدار کے بعد جب جنرل ضیا جان بحق ہوئے تو ان کی سیاسی باقیات الیکشن نہیں جیت سکیں‘ کیونکہ سب کو علم تھا کہ جنرل ضیا باقی نہیں‘ لہٰذا اب ان کے حامی اقتدار میں نہیں آ سکیں گے۔ باقی وجوہ کے علاوہ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ بینظیر بھٹو کو ووٹ پڑے۔ انیس سو نوے میں بینظیر بھٹو برطرف ہوئیں تو جیالا باہر نہیں نکلا کیونکہ انہیں علم تھا کہ بی بی کو غلام اسحاق خان اور جنرل بیگ نے برطرف کیا ہے‘ اور وہ دونوں ابھی بیٹھے ہوئے ہیں‘ بی بی کو واپس نہیں آنے دیں گے۔ تین سال بعد نواز شریف کے ساتھ یہی کچھ ہوا‘ جب انہیں جنرل کاکڑ نے گھر بھیجا۔ بینظیر بھٹو کے ساتھ انیس سو ستانوے کے الیکشن میں یہی کچھ دہرایا گیا۔ دو ہزار دو کے الیکشن میں نواز شریف پارٹی کو صرف بیس سیٹیں ملیں کیونکہ جنرل مشرف بیٹھے تھے۔
اس لیے آج جب نواز شریف فوج‘ عدلیہ پر تنقید کرتے ہیں‘ تو وہ اپنا سیاسی نقصان پنجاب میں کر رہے ہیں۔ فوج کی اکثریت پنجاب سے ہے۔ جب وہ پنجاب میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ فوج ان کی مخالف ہو گئی ہے اور اقتدار سے اسی نے نکالا ہے تو وہ ووٹر کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ اب وہ اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ تو پھر پنجاب کا ووٹر کیوں نوازلیگ کو ووٹ ڈالے گا؟
نواز شریف نے عدالت اور فوج پر مسلسل تنقید کرکے دراصل اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ پنجاب کے ووٹرز کو نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آتے نہیں لگ رہے۔ یہ باتیں اگر نہیں سوچ رہے تو نواز شریف اور ان کے مشیران‘ جنہوں نے یہ نعرہ لگا کر الیکشن جیتنے کے امکانات کم کر دیے ہیں کہ ہمیں تو فوج نے نکالا ہے۔
سب نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا… تو پھر عمران خان اور پیپلز پارٹی؟
میں مسکرایا اور بولا: کچھ کل رات کی محفل کی گپ شپ کے لیے بھی رہنے دیں۔
چوہدری انور عزیز جو خاموش بیٹھے سن رہے تھے بولے: تو پھر کل رات ٹینڈے گوشت کی دعوت پر میرے گھر بات ہو گی