ضیا شاھد کے انکشافات

مولانا مودودی کچھ یادیں ..قسط چہارم..ضیا شاہد

ایک جگہ میں نے لکھا ہے کہ قومی اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد میں نے اس کے رہنماؤں کے خلاف ایک کیس درج کروایا تھا کچھ دوستوں کے ہمراہ میں نے قومی اتحاد کی طرف سے بھٹو صاحب کی الیکشن میں دھاندلی کیخلاف تحریک میں جو لوگ شہید ہوئے یا زخمی ہوئے یا پھر جنہیں شدید مالی نقصان پہنچا ان کے گھروں کو تلاش کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی تھی کہ اب وہ کس حال میں ہیں۔ بعدازاں اس روداد کو میں نے ایک مضمون کی شکل میں چھاپا جس کا عنوان تھا ’’تحریک نظام مصطفیؐ کے زخمی اور شہداء کے گھر والے کس حال میں ہیں‘‘ حقیقت میں یہ رپورٹ مرتب کرتے وقت مجھے ازحد دکھ ہوا کہ پاکستان کے معصوم لوگوں کو کس طرح غلط وعدوں اور نعروں پر گمراہ کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے وعدے پورے نہیں کئے تھے تو پی این اے والے کون سے حاجی تھے۔ شہداء اور زخمیوں کے لئے باقاعدہ فنڈ جمع کیا گیا تھا جس میں بے شمار لوگوں نے اس مقصد کے لئے چندہ دیا ۔ قومی اتحاد کی لیڈرشپ نے لاہور میں موجود جسٹس بی زیڈ کیکاؤس کو چندہ مہم کا انچارج بنایا اور تمام پیسے جسٹس صاحب کے پاس جمع ہوئے۔ ابتدائی طور پر شاید کچھ لوگوں کی مدد بھی کی گئی ہو لیکن حیرت ہے کہ جسٹس صاحب نے جلد ہی یہ کہہ کر کہ ابھی مزید کوئی شخص امداد لینے والا نہیں رہا اس لئے یہ سلسلہ بند کیا جاتا ہے اور باقی ماندہ رقم سے ایک اکیڈمی بنائی جائے گی جو اسلام کے حوالے سے ریسرچ کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی اس مہم کے جنرل سیکرٹری نوجوان شاہد رشید تھے جو آج کل نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے جنرل سیکرٹری ہیں اور انہوں نے جسٹس کیکاؤس کے بعد جناب مجید نظامی جیسے انتہائی محب وطن اور نیک نام شخص کی چھتری کے نیچے پناہ لی۔ میں جسٹس کیکاؤس کی رہائش گاہ پر دو مرتبہ گیا لیکن ٹائم دینے کے باوجود وہ گھر پر نہ ملے شاید وہ ٹیلی فون پر میں جو سوال کرچکا تھا کہ آپ نے وہ رقم مزید متاثرین میں تقسیم کیوں نہیں کی اور کئی ایڈریس بھی میرے پاس تھے جن کو ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ میں اس وجہ سے بھی کافی بدظن تھا پھر بھٹو صاحب کے خلاف اس تحریک میں اگرچہ میں پہلے شاہی قلعے اور پھر مہینوں تک جیل میں رہنے کے بعد پی این اے کو ٹوٹتے دیکھ کر بہت رنجیدہ بھی تھا۔ میں نے کچھ دوستوں سے مشورہ کیا اور کہا کہ ہم تو اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان لوگوں سے جواب مانگ سکیں کیوں نہ انہیں عدالت میں کھینچا جائے تاکہ وہ کچھ تو کہہ سکیں اپنے وکیل صاحب کے مشورے پر قرار پایا کہ چارسو بیس یعنی دھوکہ دہی کا کیس درج کروایا جائے چنانچہ میں نے نو ستاروں پر یعنی نو پارٹیوں کے نو لیڈروں پر سول عدالت میں مقدمہ دائر کرادیا۔ اس کی پہلی پیشی پر ہی سنسنی پھیل گئی اور تین چار اخباروں کے رپورٹر کیس کی تفصیلات جاننے کے لئے عدالت پہنچ گئے۔ عدالت نے روٹین کے مطابق ان لیڈروں کو اگلی تاریخ کے سمن بھجوا دیئے۔ مقررہ تاریخ پر نہ کوئی لیڈر پیش ہوا نہ ان کا کوئی وکیل ہی پہنچا۔ الٹا جج صاحب جو کافی گھبرائے ہوئے تھے کہ اتنے بڑے بڑے ناموں کے خلاف مقدمے کو کیسے نمٹائیں۔ انہوں نے آغاز ہی اس موضوع سے کیا کہ آپ کے ساتھ انہوں نے کیا دھوکہ کیا اور آیا کہ اس کا ثبوت کیا ہے۔ میں جب جیل میں تھا تو یہ چندہ مہم شروع ہوئی۔ میری والدہ نے کسی کو دس ہزار روپے دے کر بھیجا اور پیار سے اپنے بجائے میرا نام دیا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کوششیں ہورہی ہیں۔ لہٰذا اس کوشش میں شہید یا زخمی ہونے والوں کی مدد کرنا ضروری ہے۔ میری جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے مجھے اپنے دوپٹے کی گرہ کھول کر رسید دے دی سادہ لوح میری ماں یہ سمجھتی تھیں کہ یہ رسید بھی شاید جنت جانے کی ٹکٹ ہے میں نے عدالت میں اپنے وکیل کے ذریعے وہ چٹ پیش کی اور کہا کہ ان لیڈروں نے وعدہ کیا تھا جس کی خبریں اور تصویریں پیش ہیں کہ ہم نظام مصطفیؐ کے لئے ایک رہیں گے اور ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہوں گے اور پھر درخواست کی کہ میں تحریک نظام مصطفیؐ کے لئے ان لیڈروں کو اپنے وعدے پر عمل نہ کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور 420 کی دفعہ واقعتہً اتنے سارے لیڈروں پر ٹھیک عائد ہوتی ہے۔ جج صاحب نے میرے اصرار پر لمبی تاریخ کے بجائے چوتھے دن بعدپیش ہونے کے لئے کہا اور مقررہ تاریخ پر جب وکیل صاحب کے ساتھ میں عدالت پہنچا تو انہوں نے پہلے سے لکھا ہوا مختصر آرڈر پڑھ دیا جس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے کہ یہ سارے لیڈر شاید آگے چل کر نظام مصطفیؐ کے لئے کام کریں پھر ٹیکنیکل بات یہ ہے کہ علیحدہ ہونے والوں نے باقاعدہ طور پر کہا ہے کہ پی این اے کے قیام کا مقصد ملک میں جمہوری فضا لانا اور موجودہ حکومت کا خاتمہ بذریعہ ووٹ ہے۔ پی این اے یعنی قومی اتحاد نے اپنے انتخابی منشور میں کسی جگہ نظام مصطفیؐ لانے کا وعدہ نہیں کیا اور ان کے تحریری منشور میں بھی یہ بات موجود نہیں۔ جج نے کہا یہ میں نے قومی اتحاد کا منشور منگوایا ہے اس میں نظام مصطفیؐ کا ذکر تک نہیں اور یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ان لوگوں نے پیسے وصول کئے ہوں یہ تو کچھ لوگوں نے تحریک نظام مصطفیؐ کے زخمیوں اور شہیدوں کی مدد کے لئے کچھ فنڈ جمع کیا ہے اور قومی اتحاد کے نو ستاروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ فیصلہ دینے کے بعد انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ یہ تحریک نظام مصطفیؐ کیا تھی کیونکہ قومی اتحاد کے نو ستارے تو سیاسی مقاصد کے لئے جمع ہوئے تھے پھر تحریک نظام مصطفیؐ کا کوئی عہدیدار بھی نہیں‘ کوئی ڈھانچہ بھی موجود نہیں‘ کسی خاص شخص یا اشخاص کو تحریک کے عہدیدار بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آپ شوق سے تحریک نظام مصطفیؐ پر کیس کریں قومی اتحاد کی نو جماعتوں نے نہ آپ سے کوئی چندہ مانگا اور نہ رسید پر ان کا نام ہے۔ میرے وکیل صاحب نے سر جھکا کر ان کا شکریہ ادا کیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آئے۔ انہوں نے کہا ضیاصاحب! جج صاحب نے عملاً ٹھیک کیا۔ قومی اتحاد کا نظام مصطفیؐ سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور آپ نے پیر پگاڑا ‘ نواب زادہ نصراللہ‘ میاں طفیل ‘ محمد نسیم ولی خان‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہ کو چندہ جمع نہیں کرایا تھا اور نہ وہ اس سوال کے لئے کسی کو جوابدہ ہیں یوں آپ جسٹس کیکاؤس پر کیس کرسکتے ہیں کہ انہوں نے پیسے جمع کئے مگر آپ ثابت کررہے ہیں کہ فلاں‘ فلاح زخمی یا شہید کے گھر والوں کو امداد نہیں ملی پھر بھی وہ یہ رقم جو تحریک کے زخمیوں اور شہیدوں کے لئے تھی اسلام پر تحقیق کرنے والی کسی تنظیم کے سپرد کیوں کررہے ہیں۔ میں نے سوچا مجھے اس سے کیا لینا دینا جسٹس صاحب نے بھی یقیناً فراڈ کیا تھا کہ پیسہ جس مقصد کے لئے دیا گیا تھا اس کام پر خرچ کرنے کے بجائے اس کا کوئی اور مصرف تلاش کرلیا۔ مایوس ہوکر میں نے مزید کوشش ترک کردی۔ بعدازاں کئی باران نو ستاروں میں سے کسی سے ملاقات ہوئی تو وہ ہمیشہ میری اس حرکت پر طنزاً ہنسا کرتے تھے۔ سید مودودی کا گھر ذیل دار پارک اچھرہ میں تھا مگر منصورہ کے مقام پر جماعت والوں نے اپنے اپنے گھر بنائے تو معلوم نہیں سید مودودی نے وہاں گھر بنانا کیوں پسند نہ کیا۔ میں پورے ادب کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی عمر بھر کی کمائی اچھرہ کا ایک گھر نہیں تھا بلکہ جماعت تھی جس کے نام پر نیا شہر بنایا جارہا تھا۔ اس ٹیکنیکل غلطی کی وجہ سے مودودی صاحب کا واسطہ جماعت کے کارکنوں اور باہر سے آنے والے ارکان اور ہمدردوں سے کٹ گیا کیونکہ جماعت کا ہیڈکوارٹر بھی ان کے گھر سے تبدیل ہوکر ملتان روڈ پر ذیل دار پارک سے کئی میل دور بن گیا۔ اگرچہ یہ بہت تاریخی گھر ہے۔ یہاں بے شمار نامور لوگ آئے۔ اپنے خلاف تحریک کے دوران بھٹو صاحب بھی انہیں منانے اچھرہ پہنچے۔ اس ملاقات کا اہتمام ایڈیٹر ‘‘نوائے وقت‘‘ جناب مجید نظامی نے کیا تھا لیکن منصورہ میں مرکزی دفتر کی منتقلی کے باعث اور مودودی صاحب کی عمر زیادہ ہونے کے سبب اور اپنی جگہ میاں طفیل محمد کو امیر بنوانے کی وجہ سے وہ الگ تھلگ ہوکر رہ گئے۔
جماعت اسلامی کے بارے میں ایک آبزرویشن ہمیشہ سے زیربحث رہی کہ جماعت اسلامی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے جس میں کچھ لوگ کتابیں لکھتے ہیں‘ کچھ انہیں تیار کرواتے اور چھپواتے ہیں اور باقی سب خریدتے ہیں۔ مودودی صاحب نے بہت سی کتابیں لکھیں لیکن رسالہ دینیات اور قرآن پاک کی تفسیر تفہیم القرآن کے سوا انہوں نے کسی کتاب کی رائلٹی اپنے پاس نہیں رکھی باقی تمام کتابیں قانونی طور پر وہ اپنی زندگی ہی میں جماعت کو دے گئے تھے۔ جوں جوں ان کی صحت جواب دیتی گئی جماعت پر ان کا اثر کم ہونے لگا حتیٰ کہ وہ علاج کے لئے باہر چلے گئے۔ ہمارے دوست سابق سنیٹر طارق چودھری اور رفیق چودھری کے بڑے بھائی یاسین چودھری جو ڈان ٹریول لندن کے مالک تھے نے ان کے واپسی سفر کے لئے طیارے کا بندوبست کیا اور وہ بہت اداس کرنے والا دن تھا جب ایک جلوس کی شکل میں ان کی میت مال روڈ سے گزری اور واپڈا ہاؤس پر سڑک کے اطراف میں انسانی اخلاقیات کے پیش نظر سیاسی مخالفین نے بھی اپنے سر جھکا لئے۔ بعد کے واقعات بہت دلخراش اور کچھ متنازعہ بھی ہیں۔ ضروری نہیں کہ بڑے آدمی کی اولاد بھی بڑی ہو بلکہ شاید بڑے آدمی کی شدید مصروفیت کی وجہ سے وہ اولاد کو زیادہ وقت بھی نہیں دے سکتا۔ جماعت کے بعض لوگوں نے کوشش کی تھی لیکن انکے بچے نہ مانے اور مودودی صاحب کی میت کو منصورہ میں دفن نہ ہونے دیا حالانکہ اگر ان کی تدفین منصورہ میں ہوتی تو وہ اپنی ہی بنائی ہوئی جماعت اور اپنے ہی بنائے ہوئے اداروں کے درمیان ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے خود زندگی میں کبھی ان کی قبر پر جانے کا موقع نہیں ملا۔ یوں وہ شخص جس نے اتنی بڑی تنظیم کھڑی کی دوسرے جہان میں جانے کے باوجود ان کے قریب دفن بھی نہ ہوسکا جہاں روزانہ ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے والوں کا جمگھٹا لگا رہتا۔ منصورہ سے اس دوری کا باعث جو بھی لوگ تھے انہوں نے کوئی اچھا فیصلہ نہیں کیا۔ ان کی اولاد کی آپس کی لڑائیاں ایک دوسرے اور والدہ کے خلاف مقدمہ بازی مودودی گھرانے کے متعلق انتہائی افسوسناک اور دلگرفتہ کرنے والے حقائق ہیں۔ سادگی‘ رواداری اور انسانی اخلاقیات کا یہ مجسمہ اس دنیا میں نہ تھا ورنہ شاید یہ سب اسے خود دیکھنا پڑتا تو اس کا دل پھٹ جاتا۔ ان کا گھر لوگوں کی پہنچ سے دور ہے مگر ان کا کام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں منصورہ میں موجود ہے اور ان کا لگایا ہوا پودا یعنی جماعت اسلامی پر عروج بھی آئے اور زوال بھی مگر ہوا کے تھپیڑوں کے باوجود یہ دیا آج بھی جل رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی طرح جماعت اسلامی سے نکلنے والے بھی کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ بقول شاعر؂
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں