ضیا شاھد کے انکشافات

میرِ صحافت….میر خلیل الرحمن …دوسری قسط…ضیا شاہد

گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ نوائے وقت کو نوری نستعلیق خریدنا پڑی پھر جن لوگوں نے لائینو ٹائپ سے نجات حاصل کرنے کیلئے ان کی سیل توڑی اس کا سہرا ایک چھوٹے سے ادارے کا مپسی کے سر جاتا ہے اس کے حروف تین کالمی سرخی سے آگے بڑھتے تو پھٹ جاتے تھے۔ تاہم چند ہی برسوں میں اس مشکل پر بھی بعض دوسرے اداروں نے قابو پا لیا اور آج پاکستان بھر میں ایک بھی اخبار رسالہ یاکتاب ایسی نہیں جو نوری نستعلیق پر نہ چھپتی ہو۔ اخبارات اور رسالوں کے دفاتر سے کاتب غائب ہو گئے اور کمپیوٹروں نے ان کی جگہ لے لی۔ میرے خیال میں اس انقلاب کا سہرا میر خلیل الرحمن کے سر ہے جنہوں نے اردو طباعت میں سب سے پہلے نوری نستعلیق ایجاد کیا۔ فور کلر پرنٹنگ تصویر کی چار رنگوں میں سکیننگ صفحے کی آرٹسٹ سے ڈیزائننگ غرض کہ بے شمار ایسے کام ہیں جن کو پاکستان میں متعارف کرانے کا اعزاز بلاشبہ میر خلیل الرحمن کو حاصل ہے۔ میر صاحب جب کبھی لاہور آتے وہ ڈیوس روڈ پر جنگ کی بلڈنگ میں کچھ وقت ریذیڈنٹ ایڈیٹر میر عبدالرب ساجد جو ان کے برادر نسبتی تھے ان کے کمرے میں گزارتے باقی کا سارا وقت وہ میرے کمرے میں بیٹھتے۔ میر شکیل الرحمن کا کمرہ بالائی منزل پر تھا۔ میر خلیل الرحمن نے انتہائی مشکل حالات میں کام شروع کیا تھا اور وہ ایک سیلف میڈ آدمی تھے۔ تاہم فضول خرچی انہیں سخت ناپسند تھی۔ کفایت شعاری کا عالم یہ تھا کہ کاغذات کو نتھی کرنے کیلئے عام طور پر وہ سٹیپلر کی بجائے کامن پن استعمال کیا کرتے تھے اور کاغذ کی ایک پرت پر کوئی تحریر کندہ ہوتی تو اس کی پشت پر تحریر لکھ دیا کرتے تھے۔ یہ بات صرف میں نہیں لکھ رہا بلکہ ان کی پوتی اور میر شکیل الرحمن کی صاحبزادی آمنہ رحمن نے بھی ایک مضمون میں یہ بات دہرائی تھی۔ اندرونی خط وکتابت کیلئے بھی وہ استعمال شدہ لفافے پر سفید کاغذ چسپاں کر کے وقت گزارلیاکرتے تھے۔ شکیل صاحب نئے دور کے نوجوان تھے اور انہوں نے ڈیوس روڈ کی بالائی منزل پر پوری بلڈنگ کی لمبائی چوڑائی میں اپنا کمرہ بنوایا جس پر اس زمانے میں میری معلومات کے مطابق 26 لاکھ روپے صرف ہوئے تھے۔ بڑے میر صاحب کو اس میں فضول خرچی نظر آئی۔ ایک بار انہوں نے مجھے اور جنرل منیجر محمد ادریس کو شکیل صاحب کے سامنے ڈانٹ پلائی کہ اتنی فضول خرچی کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے کہا جناب اپنے صاحبزادے سے پوچھیں ہم تو ورکر لوگ ہیں ہمارے کمرے تو ایسے نہیں ہیں اس پر میر صاحب نے مزید ڈانٹتے ہوئے کہا سارے دفتر کو اتنے خوبصورت فارمیکا سے مزین کیا گیا ہے۔ کیا تم سادہ کمروں میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ میں نے پھر کہا جناب یہ سارا کام شکیل صاحب کا ہے آپ ان سے تو کچھ نہیں کہہ رہے میر صاحب بولے میں نے پہلے ہی دن یہ دفتر دیکھا تو اسے سمجھایا تھا کہ کاکا! میں نے امریکہ کے صدر کا دفتر بھی دیکھا ہے اتنا بڑا کمرہ تو اس کا بھی نہیں ہے پیسے کی قدر کرنا سیکھو اور فضول خرچی سے بچو۔
ایک بار پشاور میں اے پی این ایس کا اجلاس تھا میں نے میر صاحب اور اپنے لیے کمرہ بک کروایا تو جنرل منیجر نے انہیں ڈبل کمرہ جسے سو¿یٹ کہتے ہیں دیا۔ ایئرپورٹ سے ہم پرل کانٹی نینٹل پہنچے اور کمرے میں گئے تو میر صاحب نے مجھے ڈانٹا۔ انہوں نے کہا میرے لئے سنگل کمرہ کافی تھا اس لمبے چوڑے ڈرائنگ روم کی مجھے کیا ضرورت تھی۔ میں نے کہا جناب میں نے اتنے زیادہ کمروں کی بکنگ کرائی تھی جنرل منیجر نے آپ کے احترام میں آپ کو یہ سو¿یٹ دیا ہے۔ میر صاحب نے کہا پہلے جا کر کاﺅنٹر سے معلوم کر کے آﺅ کہ کیا اس کا ڈبل کرایہ ہو گا۔ مجبوراً مجھے گراﺅنڈ فلور پر جا کر منیجر سے پوچھنا پڑا۔ انہوں نے کہا نہیں جناب کرایہ سنگل ہی ہو گا ہم نے میر صاحب کے احترام میں انہیں یہ سو¿یٹ دیا ہے کیونکہ ان کے ملنے جلنے والے آئیں تو بیڈ روم میں بیٹھنا مشکل ہو گا۔ میں نے واپس آ کر میر صاحب کو تسلی دی۔ وہ مطمئن ہوئے تو ہنستے ہوئے بولے مجھے پہلے پتا ہوتا تو اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آتا۔
میر صاحب کی کفائت شعاری کے لطیفے بہت ہیں لیکن ان سب کی تہہ میں جائیں تو آپ کو زندگی بھر شدید محنت سے ایک سائیکل سے سفر شروع کر کے اتنی بڑی ایمپائر بنانے والے کے دل میں سادگی تصنع سے پاک زندگی، غرور سے مبرّا گفت و شنید صاف دکھائی دیتی تھی۔ اپنے ادارے میں نئی سے نئی مشینری اور متعلقہ آلات خریدنے کا موقع آتا تو بڑے میر صاحب کسی طور کفایت شعاری نہیں کرتے تھے، ایک بار ان کے ایک منیجر نے بہت بڑا فراڈ کیا، اتفاق سے میں لاہور سے کراچی گیا ہوا تھا اور ان کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ میرے جوانی کے دن تھے میں نے غصے میں کہا میر صاحب اسے تو جیل میں ہونا چاہئے۔ میر صاحب بولے اس نے جو لوٹ مار کی تھی اس کا زیادہ حصہ وہ کھا پی چکا ہے اس پر مقدمہ کیا گیا تو بھی قانون ایسا ہے کہ مشکل سے ہی ریکوری ہو گی لیکن ہمارے ادارے کی بدنامی ہو گی اگر اس بات کو عام کیا گیا۔ بس میں نے اسے کہا ہے کہ استعفیٰ لکھ دو اور دفتر سے چلے جاﺅ پھر کبھی پاکستان بھر میں میرے کسی دفتر میں داخل نہ ہونا۔
(جاری ہے)