ضیا شاھد کے انکشافات

میر صحافت میر خلیل الرحمن…ضیا شاید..قسط 6

جتنے برس میں روزنامہ جنگ سے منسلک رہا۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے معاملات اپنے ادارے کی طرف سے مختلف مواقع پر تقاریب، انتخابات اور خصوصی کمیٹیوں میں بھاگ دوڑ یہ سارا کام میرے ذمے تھا میں نے اس دوران میر صاحب کی شخصیت کو غور سے دیکھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ بہت سے جمہوریت کے دعویداروں کے برعکس وہ دل سے جمہوری نظام اور جمہوری معاشرے کے حق میں تھے۔ میں صرف ایک رات کا واقعہ بیان کروں گا۔ پوری رات ہم نے کانٹی نینٹل ہوٹل کراچی میں گزاری، اے پی این ایس کے دو گروپوں میں سے جنگ گروپ کے حصے میں ایگزیکٹو کمیٹی کے نصف ارکان میں سے ایک رکن کم تھا۔ دوستوں اور ساتھیوں نے بڑی تجویزیں دیں کہ ایک بندہ کیسے توڑا جا سکتا ہے لیکن میر صاحب نہ مانے۔ انہوں نے کہا ہم ساری دنیا کو آزادانہ اور منصفانہ الیکشنز کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ہم اپنی تنظیم میں کوئی غیر جمہوری ہتھکنڈہ استعمال نہیں کریں گے۔ بعض ارکان کا خیال تھا کہ الیکشن سے پہلے ہی عدالت سے حکم امتناعی لایا جائے جسے سٹے آرڈر کہتے ہیں لیکن میر صاحب نے سختی سے یہ تجویز بھی مسترد کر دی۔ انہوں نے کہا ہم نے ایک سال اختیارات کے ساتھ تنظیم کو چلایا ہے اب نتائج ہمارے خلاف آنے والے ہیں تو ہمیں خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی ناکامی کو قبول کرنا چاہیے اور کامیاب ہونے والوں کو مبارکباد دینی چاہیے۔ رات ساڑھے تین بجے یہ میٹنگ ختم ہوئی۔ صبح 10بجے الیکشن ہوا اور ہمارے تخمینے کے مطابق مجلس عاملہ کے ارکان ایک ووٹ کی اکثریت سے ہر عہدہ حاصل کرتے گئے اور ہمارے پینل کا امیدوار ہارتا گیا۔ آخری ہار کے بعد میر صاحب نے نئے صدر کو مبارکباد پیش کی اور اپنے پرجوش حامیوں کو تسلی دی اور کہا کہ ہم تنظیم کی کامیابی کے لئے بھر پور تعاون کریں گے۔ جس جس رکن کو تکلیف پہنچی ہے وہ سارا سال بھر پور کام کرے اور عہدیدار نہ ہونے کے باوجود مجلس عاملہ کی ہر میٹنگ میں حاضری کو یقینی بنائے اور ہر مسئلے پر اپنی رائے میں وزن پیدا کرے اگر کوئی کام سوسائٹی کے آئین کے خلاف ہو رہا ہے تو عہدیداروں کی توجہ دلائے اور اصولوں پر سٹینڈ لے۔ اگلے سال پھر میدان لگے گا۔ ایک سال کی کارکردگی دکھانے کے بعد ہم پھر میدان میں ہوں گے اور اکثریت جو فیصلہ دے گی ہم اسے دل سے تسلیم کریں گے۔
میں نے دیکھا کہ کیا حامی اور کیا مخالف سبھی ارکان نے ان کی تقریر کا خیر مقدم کیا اور دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ پھر انہوں نے کامیاب صدر سے ہاتھ ملایا ایک دفعہ پھر مبارکباد دی اور سٹیج سے اتر کر عام ارکان میں بیٹھنا چاہا تو انہیں بتایا گیا کہ آپ مجلس عاملہ کے رکن ہیں اس لئے ارکان کے لئے مخصوص نشستوں پر بیٹھیں تاکہ نئے عہدیدار کام کا آغاز کر سکیں۔ میر صاحب اول و آخر جمہوری مزاج کے حامل تھے وہ الیکشن کے لئے بھرپور کوشش کرتے لیکن ہار جاتے تو نتائج کو دل سے تسلیم کرتے۔ آج میں سوچتا ہوں کہ ایک بہت بڑی شخصیت نے اپنی تنظیم میں دو سال صدر رہنے کے بعد آئین میں تبدیلی کروا لی تھی تا کہ وہ مزید عرصہ صدارت پر فائز رہ سکیں۔ میر صاحب کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے شب و روز کو ذہن میں لاتا ہوں تو میرے دل میں ان کا احترام اور بڑھ جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت کا جو نقشہ ان کے ذہن میں تھا اگر واقعی اسلام آباد کے ایوانوں میں اس پر عملدرآمد ہو تو پاکستان جمہوری نظام کے سلسلے میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شامل ہو سکتا ہے۔
میں نے زندگی بھر جہاں بھی کام کیا دل و جان سے محنت کی۔ میر صاحب میری محنت کے حوالے سے ہی مجھ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ کبھی میں دفتری معاملات سے گھبرا جاتا تو وہ مجھے ٹیلی فون پر طویل گفتگو کرتے اور پیار سے سمجھاتے۔ ایک بار میں نے استعفےٰ دے دیا تو انہوں نے میر شکیل الرحمن سے بات کی اور میرے لئے یہ امر عزت کا باعث تھا کہ میر شکیل صاحب جو ”جنگ “لاہور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے ماڈل ٹاﺅن میں میرے گھر خود تشریف لائے اور مجھے واپس آنے کےلئے کہا۔ جب میں نے آخری بار جنگ چھوڑ کر پاکستان اخبار کی تیاریاں شروع کیں تو مجھے میر صاحب کا آخری فون آیا۔ انہوں نے کہا لاہور میں جنگ اور نوائے وقت کے بعد تیسرا بڑا اخبار نکالنا بڑی ہمت کا کام ہے لیکن اگر فنانس کا بندوبست ہو گیا ہے تو مجھے امید ہے کہ آپ اس کام میں بھی کامیاب ہوں گے میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتانا۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار اخبار جہاں کے سربراہ میر جاوید رحمن نے فون پر مجھ سے کیا۔ وہ مجھ سے ہمیشہ محبت اور خلوص سے پیش آتے تھے۔ عدنان شاہد مرحوم کی شادی پر کراچی سے بطور خاص لاہور آئے اور اخبار جہاں میں شادی شدہ جوڑوں کی تصویروں والے صفحے کی جگہ انہوں نے صرف عدنان شاہد کی شادی کے موقع پر تصاویر اور رائٹ اپ چھاپا۔ وہ کبھی لاہور آتے تو ہمیشہ دوپہر کا کھانا میرے ساتھ کھاتے۔ انہیں لکشمی چوک کے دو ہوٹلوں کا کڑاہی گوشت بہت پسند تھا ہم ایک ایئرکنڈیشنڈ ہوٹل میں پہلے سے جگہ بک کروا لیتے۔ ایک بار میری گاڑی خراب تھی۔ ہم دفتر کی سیڑھیاں اترے تو میں نے بتایا اور کہا کہ دفتر سے گاڑی مانگ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا آپ دفتر کیسے پہنچے۔ میں نے کہا میرے پاس ایک موٹر سائیکل ہے آج میں اس پر آیا ہوں۔ جاوید رحمن صاحب بولے چلو اسی پر چلتے ہیں۔ گیٹ پر دفتری گاڑیوں کے ڈرائیور بھی کھڑے تھے۔ سکیورٹی والے بھی شور مچاتے رہے کہ سر رک جائیں گاڑیاں موجود ہیں لیکن جاوید صاحب نے پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر کہا چلو۔ اس طرح میر جاوید رحمن صاحب موٹر سائیکل پر لاہور کی سڑکوں پر گھومتے رہے۔ کھانے کے بعد ہمیں دو اخباروں کے دفتر جانا تھا جہاں جاتے میزبان اصرار کرتے کہ ہم سے ڈرائیور اور گاڑی لے لیں لیکن جاوید صاحب مُصر رہے کہ آج موٹر سائیکل ہی چلے گی، میں کبھی کراچی جاتا تو ہمیشہ پوچھتے کس ہوٹل میں ٹھہرے ہو۔ میں رات کو آﺅں گا کھانا اکٹھے کھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت دولت، بہت شہرت اور بڑا مقام دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے بھائی کے برعکس وہ انتہائی ملنسار، ہر ایک کی عزت کرنے والے اور عمدہ اخلاق کے مالک ہیں۔ مجھے یقین ہے برسوں تک ملاقات نہ ہونے کے باوجود آج بھی ان سے ملاقات ہو تو ہماری گفتگو کا آغاز واقعی پرانے بے تکلف دوستوں کی طرح ہوگا۔ میں ہمیشہ ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔ انہوں نے بار بار میری ہمت بندھائی اور اکثر موقعوں پر مجھے مفید مشورے دئیے۔ وہ میر شکیل الرحمن کی نسبت اپنے والد کے مزاج سے بہت قریب ہیں البتہ پلاننگ، نئے نئے چیلنج قبول کرنا اور جارحانہ کوششوں میںمیر شکیل الرحمن نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ برسوں تک کام کرنے کا موقع ملا ہے وہ ایڈوانچر کو پسند کرتے ہیں اور پاکستانی صحافت میں میر خلیل الرحمن کے بعد انہوں نے بے شمار نئے تجربے کئے اور بے پناہ کامیابیاں حاصل کیں۔ میری بیماری کے دوران حالانکہ میں برسوں پہلے جنگ چھوڑ چکا تھا وہ دو بار میری مزاج پرسی کے لئے ہسپتال آئے۔ عدنان شاہد کے انتقال پر نماز جنازہ کے بعد قبرستان تک میرے پیچھے آئے اور بار بار ڈھارس بندھاتے رہے۔ کئی برسوں سے مختلف تقاریب میں سلام دعا کے علاوہ ان سے کبھی کوئی تفصیلی ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ کراچی، دبئی زیادہ رہتے ہیں اور لاہور کم ہی آتے ہیں۔ بہت مشہور بہت کامیاب اور بہت دولتمند ہو چکے ہیں۔ ایک مداح کی حیثیت سے میرا بھی ان کے لئے مشورہ یہی ہوگا کہ اپنے والد میر خلیل الرحمن کی شخصی اور ذاتی خوبیاں پیش نظر رکھیں اللہ پاک انہیں مزید کامیابیاں دے گا۔
(جاری ہے)

ذکر ہو رہا تھا میر خلیل الرحمن مرحوم کا۔ جنگ کی ملازمت کے آخری چند برس میرے لئے بہت مشکل تھے۔ میں محنت سے بھاگنے والا آدمی نہیں ہوں اور زندگی بھر میں نے کبھی گھڑی کی سوئیاں دیکھ کر ملازمت نہیں کی۔ صبح دفتر جاتا تھا تو رات گئے اٹھنے سے پہلے یہ تسلی کرتا کہ آج کا کوئی کام رہ تو نہیں گیا اور اگر رہ جاتا تو اسے نمایاں انداز میں اس نوٹ کے ساتھ چھوڑ کر جاتا کہ صبح آ کر سب سے پہلے اسے انجام دینا ہے لیکن جس مشکل کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے وہ ادارتی صفحے کی ذمہ داری تھی۔ جنرل ضیاءالحق کا دور تھا۔ ارشاد احمد حقانی مرحوم ان کے سخت ناقد تھے لیکن حقانی صاحب لکھنے میں اس قدر مہارت اور ذہانت کے حامل تھے کہ وہ اپنی بات بھی کہہ جاتے اور دوسرے کو برا بھلا کہنے والا لفظ بھی استعمال نہ کرتے تھے اس کے باوجود حکومتی افسران ا ور وزارت اطلاعات ان سے بہت تنگ رہتے تھے۔ سرکاری عہدیدار بار بار ان کی شکایت بڑے میر صاحب سے کرتے اور مجھے مزید احتیاط سے کام لینے کی ہدایت کرتے حقانی صاحب ذاتی طور پر انتہائی محترم اور انسان دوست تھے۔ مجھے ان کے کالم میں کوئی تبدیلی کروانا ہوتی تو میں فون پر ان سے گزارش کرتا۔ زیادہ تر وہ میری بات مان جاتے تھے البتہ یہ ضرور کہتے کہ اس جملے کو کاٹنے کی بجائے متبادل الفاظ لکھو اور خود نئے الفاظ تجویز کردو لیکن وارث میر صاحب کا ہر کالم میرے لئے کڑا امتحان ہوتا تھا۔ وارث میر صاحب کو بڑی عزت و احترام سے صوفیہ بیدار کے والد اور جنگ کے جنرل منیجر عبداللہ ادیب مرحوم کے ذریعے اور میر شکیل الرحمن کی خواہش پر نوائے وقت سے جنگ میں لایا گیا تھا۔ وہ ضیا حکومت کے انتہائی مخالف تھے اور لکھتے وقت وہ اپنی ناپسندیدگی چھپاتے بھی نہیں تھے۔ جہاں کہیں وہ حد سے بڑھ جاتے تو مجھے پہلے مرحلے پر انہیں فون کر کے منانا پڑتا کہ یہ جملے تبدیل کر دیں اور جب وہ نہ مانتے تو بڑے میر صاحب کی ہدایت کے مطابق مضمون کاٹنا پڑتا۔ میر خلیل الرحمن صاحب کا ذہن بہت واضح تھا۔ ان کا مو¿قف ہوتا تھا کہ حکومت پر، انتظامیہ پر، بیورو کریسی پر، حکومتی سیاست پر، آپ ضرور تنقید کریں اور خامیوں کی نشاندہی کریں لیکن کوئی لفظ ذاتی طور پر ضیاءا لحق کے خلاف اور توہین آمیز نہیں ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں وہ مجھ سے بہت سختی سے پیش آتے تھے۔ حتیٰ کہ اگر میں یہ جواز پیش کرتا کہ ریذیڈنٹ ایڈیٹر صاحب نے بھی یہ جملے کلیئر کر دئیے ہیں تو بھی بڑے میر صاحب کہتے آپ میری دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ اگر اس کے خلاف ایک لفظ بھی چھپ گیا تو آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے اور میں سخت ایکشن لوں گا۔ بعض اور تحریریں بھی میرے لئے مشکلات پیدا کرتی تھیں بہرحال اِدھر کنواں اُدھر کھائی کے مصداق ہفتے میں دو چار دن مجھ پر بہت گراں گزرتے تھے۔ وارث میر صاحب اپنے مو¿قف کی تبدیلی تو کیا ایک لفظ کی کمی بیشی کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے اور مجھے بہرحال بڑے میر صاحب کی ہدایات پر چلنا ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پاکستان اخبار نکالنے کے لئے جنگ چھوڑا تو سب سے پہلے میں نے خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ میں اتنے پریشر کے باوجود اس امتحان سے سرخرو ہوا۔ ذاتی طور پر حقانی صاحب سے میرے تعلقات جنگ چھوڑنے کے بعد بھی بہت خوشگوار رہے۔ وارث میر صاحب سے بھی سلام دعا ہمیشہ رہی لیکن میری ”جنگ“ میں موجودگی کے دوران ہی ان کا انتقال ہوا اور مجھے برسوں کی رفاقت کے باعث بہت دکھ پہنچا۔ ذاتی طور پر وارث میر صاحب کا طرز عمل مجھ سے ہمیشہ دوستانہ رہا البتہ اپنے نظریات کے حوالے سے وہ انتہائی مشکل انسان تھے۔ میں جب نوائے وقت کراچی کا ایڈیٹر تھا اور وہ نوائے وقت میں لکھتے تھے تو کسی نے ان سے مذاق میں یہ کہہ دیا کہ حکومت فکری رہنمائی حاصل کرنے کے لئے آزاد دانشوروں پر مشتمل ایک برین سیل بنا رہی ہے۔ وارث صاحب لندن جا رہے تھے۔ انہوں نے میرے ذمے یہ کام لگایا کہ میں معلوم کروں کہ ان کا نام بھی برین سیل میں موجود ہے کہ نہیں اور کہا کہ جنرل مجیب الرحمن صاحب سے بات کرو کہ برین سیل کے ارکان کو گاڑی کے علاوہ ماہوار کوئی معاوضہ بھی ملے گا یا نہیں۔ میں نے وعدہ کیا انہوں نے لندن سے بھی کئی بار مجھے فون کیا اور میں نے بھی کہا کہ میں نے جنرل مجیب سے بار بار پوچھا ہے انہیں ایسی کسی تجویز کا علم نہیں بہرحال بعدازاں روزنامہ ”جنگ“ کے کالم نویس کی حیثیت سے وہ ضیاحکومت کے سخت مخالف شمار ہوتے تھے۔
میر خلیل الرحمن کی ایک اور بڑی خوبی جسے بیان نہ کرنا ناانصافی ہو گی وہ یہ تھی کہ کم تنخواہ پانے والے ورکروں بالخصوص اخبار فروشوں کا بہت خیال کرتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق وہ پاکستان کے واحد اخبار مالک تھے جو بڑے بڑے شہروں کے ہر اخبار نویس کی بیٹی کی شادی میں لازماً خود شریک ہوتے یا کسی سینئر ملازم کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجتے کہ تقریب میں شریک ہو کر اسے لفافے میں بند کچھ رقم پیش کریں اور میر صاحب کی طرف سے مبارکباد بھی دیں۔ عام طور پر یہ فریضہ متعلقہ شہر کے سرکولیشن منیجر تاہم بعض اوقات وہ کسی بھی سینئر ملازم کی ڈیوٹی لگا دیتے تھے۔ ڈی جی پی آر کے افسروں اور اہلکاروں کی بیاہ شادیوں کا وہ بطور خاص خیال رکھتے تھے حتیٰ کہ ان کے ریٹائر ہونے والے ملازموں کے بچوں کی شادیاں تک انہیں یاد رہتی تھیں اور میں نے ان کے نمائندے کی حیثیت سے اکثر ریٹائرڈ لوگوں کے بچوں کی شادیوں میں شرکت کی ہے اور میر صاحب کی طرف سے لفافے میں بند کچھ نقدی پہنچائی ہے۔ میر صاحب اپنی کسی ایسی بھلائی کی تشہیر نہیں کرتے تھے اور سختی سے منع کرتے تھے کہ اس بات کا ذکر کسی سے نہ کیا جائے۔ میں ایسے متعدد سابق ملازمین کو جانتا ہوں جو بڑے میر صاحب کے ادارے چھوڑ چکے تھے لیکن انہوں نے کسی شکل میں میر صاحب کو لکھا یا فون کیا تو میر صاحب نے ان کی خاموشی سے مالی امداد کی البتہ جس بات کو وہ غلط سمجھتے تھے اس پر سختی سے سٹینڈ لیتے تھے۔
میر شکیل الرحمن انتہائی ذہین انسان ہیں اور نئے نئے تجربات کے شوقین۔ انہوں نے ایک بار منصوبہ بنایا کہ لاہور کے علاوہ کراچی، اسلام آباد اور پشاور میں بُل فائٹنگ کروائی جائے۔ بُل فائٹر اور بُل یعنی جنگجو بیل جس کمپنی نے سپلائی کرنے کا وعدہ کیا تھا اس سے خط و کتابت بھی ہو گئی پاکستان کے ایک بنک جس کی شراکت سے خصوصی طیارے پر جس میں سیٹیں نہیں ہوتیں بُل منگوانے کا معاہدہ بھی زیر غور تھا۔ ہم سب خوش تھے کہ یہ مقابلے پاکستان میں واقعی پہلی بار ہوں گے اور یقیناً ان کی کامیابی ہمیں نظر آ رہی تھی مگر کسی طرح میر خلیل الرحمن مرحوم کو کراچی اس پراجیکٹ کی خبر مل گئی۔ میر شکیل ان کے بہت چہیتے بیٹے تھے بالخصوص شکیل صاحب کے بچوں ابراہیم وغیرہ سے وہ بہت پیار کرتے تھے، مجھے نہیں معلوم کہ شکیل صاحب کو انہوں نے کیسے منع کیا لیکن ہم دفتر کے دو تین سینئر ارکان کی انہوں نے بے پناہ کھنچائی کی۔ وہ بار بار پوچھتے تھے کہ اخبار کا بُل فائٹنگ سے کیا تعلق؟ میں نے کہا یہ بہت بڑا ایونٹ ہے جناب! اس سے بڑی پبلسٹی ہو گی۔ انہوں نے کہا آپ پاکستان کے سب سے بڑے اخبارکے دفتر میں بیٹھے ہو جس میں پبلسٹی کےلئے لوگ اشتہار دیتے ہیں۔ جنگ کو مزید کسی پبلسٹی کی ضرورت نہیں بہرحال یہ پراجیکٹ ان کی مداخلت کی وجہ سے میر شکیل صاحب کو ڈراپ کرنا پڑا حالانکہ اگر ایسا ہو جاتا تو واقعی پاکستان میں اس کی دھوم مچ جاتی۔ میر شکیل صاحب کا منصوبہ ساز ذہن آج تک بڑے بڑے تجربے کرتا رہا ہے۔ معلوم نہیں بڑے میر صاحب ہوتے تو ان منصوبوں کی اجازت ملتی یا نہ ملتی کیونکہ میر شکیل الرحمن بڑے میر صاحب کے ہر حکم کی پاسداری کرتے تھے، ان کے بہت سے منصوبے بڑے میر صاحب کی زندگی میں پورے نہیں ہو سکے لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ بڑے میر صاحب کی سوچ بہت حقیقت پسندانہ ہوتی تھی اور مہم جوئی انہیں پسند نہ تھی۔
میر صاحب کے بارے میں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات اور سنا سکتا ہوں۔ وہ ایک عظیم صحافی تھے، محب وطن پاکستانی تھے، کاروباری صحافت کے امام تھے اور انہوں نے جس کام میں ہاتھ ڈالا خدا نے انہیں کامیابی دی۔ میر شکیل الرحمن بھی خوش قسمت ہیں کہ انہیں دنیا میں بے شمار کامیابیاں ملیں۔ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن سچ تو یہ ہے کہ بڑے میر صاحب میں جو خوبیاں تھیں شاید ان کا ایک تہائی بھی ان کے بچوں تک نہ پہنچا۔ کسی نمائش اور خود نمائی سے ہٹ کر وہ انتہائی منکسر المزاج انسان تھے۔ نیکی کر دریا میں ڈال کا محاورہ ان پر صادق آتا تھا۔ وہ بڑی سے بڑی آزمائش میں بھی پرسکون رہتے تھے اور سب کچھ اس دل پر برداشت کرتے تھے جس نے بالآخر ان کا ساتھ نہ دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات میں اضافہ کرے۔