ضیا شاھد کے انکشافات

نوازشریف صاحب نے راحیل شریف کاانتخاب کیسے کیا…ضیا شاہد

کیا جنرل اشفاق پرویز کیانی ان آپریشنز کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوئے یا ان کی قوت فیصلہ ہچکچاہٹ کی نذر ہوئی‘ ایک دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ فوج سوات‘ دیر‘ باجوڑ‘ خیبر ایجنسی اور جنوبی وزیرستان آپریشن میں بیک وقت مصروف عمل تھی۔ ان حالات میں شمالی وزیرستان میں دوسرا بڑا محاذ کھولنا دانشمندی نہیں تھی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرکمان فوج کے بارے میں مجموعی عوامی تاثر موجودہ منظر سے یکسر مختلف تھا۔ ان کا اولین دورِ کمان اختتام پذیر ہو رہا تھا تو بعض ذرائع نے یہ حقیقت آشکار کی کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل اطہر عباس کے ذریعے اس وقت کے سیکرٹری دفاع سے مل کر توسیع لینے کی بھرپور کوششیں کی تھیں جو بارآور ثابت ہوئیں۔ اسی لیے پی پی پی کے سابق ایم این اے اور آصف زرداری کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے اخونزادہ چٹان نے حال ہی میں کہا ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے توسیع از خود مانگی جو انہیں دیدی گئی۔
بعض روایات کے مطابق میجر جنرل اطہر عباس نے بعض اصحاب کے ذریعے آصف زرداری کے سامنے ایک خوفناک ماحول اور خطرناک منظرنامہ پیش کیا کہ اگر جنرل اشفاق پرویز کیانی ریٹائر ہوتے ہیں تو پھر فوج حکومت کی بساط لپیٹنے میں کسی قسم کا گریز نہیں کرے گی۔ زرداری حکومت کو گمنام خطوط اور ابھرنے والے خدشات بالآخر پہنچ گئے۔ بعض دیگر عوامل کی بنا پر جنرل اشفاق پرویز کیانی کو توسیع دیدی گئی۔ زرداری حکومت نے انہی خطوط کے ردعمل میں حسین حقانی کی ملی بھگت سے حیران کن حد تک لغو اور بے بنیاد مفروضات پر مبنی میمورنڈم گھڑا جس کے بد اثرات سے فوج دیر تک نہیں نکل سکی۔ اس دوران ایبٹ آباد کی وزیرستانی حویلی میں اسامہ بن لادن کو امریکی سیلز کے ایک دستے نے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے اتر کر انتہائی سرعت اور راز داری کے ساتھ آناً فاناً نہ صرف جان سے مار ڈالا بلکہ ان کی میت بھی لے اُڑے۔ اس آپریشن ”جیرونیمو“ کی تفصیلات اور جزیات زیرنظر کالم میں برمحل نہیں ہونگی‘ لیکن بری فوج اور قومی سلامتی کے ضامن ادارے پر انگلیاں اٹھنے لگیں‘ غرض اس دور میں فوج کو اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک شدید تنقید کا سامنا تھا۔ دہشتگردی کا عفریت ملک کے طول و عرض میں آئے روز اپنی حشرسامانی کا احساس دلا رہا تھا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے 6 سالہ دور میں عسکری اور غیرعسکری موضوعات زیربحث تھے ان کے برادران کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہونے کے بعد میاں نوازشریف عام انتخابات کے نتیجے میں ملک کے وزیراعظم بن چکے تھے‘ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ عام انتخابات میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو انتخابی عمل سے یکسر باہر رکھا۔
عوامی خیالات کے مطابق ان کے اس عمل کے انتخابی نتائج پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو سول اداروں سے نکالنے اور فوجی افسران کو واپس فوج میں بلانے کا سلسلہ شروع کیا تھا‘ جو بڑی حد تک پایہ تکمیل کو پہنچا۔ امن و امان کی مجموعی صورتحال بہرحال خوش آئند نہیں تھی۔ شدت پسندوں سے مذاکرات یا آپریشن کے سلسلے میں حکومت خود گو مگو کا شکار تھی۔ معاملات بد سے بدتر ہو رہے تھے۔
وزیراعظم میاں نوازشریف کو عنانِ اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس کے چناﺅ کی صورتحال درپیش تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل طارق خان‘ لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کے ناموں کی جونیئر ہونے کے باوجود بازگشت سنائی دینے لگی‘ ہوا میں گھوڑے دوڑانے والوں نے قدرے جونیئر لیفٹیننٹ جنرل سلیم نواز اورخالد ربانی کو بھی اسی صف میں لا کھڑا کیا۔ وزیراعظم نوازشریف کا جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف نامزد کرنا تعجب خیز نہیں تھا۔ میاں نوازشریف نے اپنے اس عمل سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ نہ صرف بتدریج ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر حاوی ہو رہے ہیں بلکہ عسکری معاملات پر اپنی گرفت بھی مضبوط کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی بطور جنرل ترقی اور آرمی چیف تعیناتی آئین پاکستان کے عین مطابق تھی اور اس میں کسی قسم کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہ کی گئی۔
جنرل راحیل شریف ”شریف“ کے لاحقے اور لاہور سے تعلق کی بنا پر ذرائع ابلاغ میں زیربحث رہے‘ جو صریحاً غلط تھا۔ بعض صحافیوں کے مطابق میاں محمد شریف اور میجر (ر) محمد شریف (مرحومین) کے درمیان دیرینہ تعلقات تھے‘ کوئی جنرل راحیل شریف کی مونچھوں کا معترض تھا تو کوئی ان کے قدوقامت پر شاکی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے تو یہاں تک لکھا کہ میاں نوازشریف اور جنرل راحیل شریف کا تعلق ایک ہی طبقہ سے ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے مخالف تو نہیں ہو جائیں گے‘ یہ قیاس آرائیاں بدنیتی پر مبنی تھیں۔ جنرل راحیل شریف کسی طور بھی صنعتکار خاندان سے تعلق نہیں رکھتے۔ بین الاقوامی ہی نہیں قومی ذرائع ابلاغ میں یہ شائع ہوتا رہا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مزید توسیع لینے سے انکار کر دیا ہے اور رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لے رہے ہیں۔ دراصل یہ حکومت کی کمزور گرفت کی عکاسی کی کامیاب کوشش تھی۔ جنرل راحیل شریف کو آرمی کی کمان سنبھالے ابھی ایک روز ہی گزرا تھا کہ اندرونی و بیرونی ذرائع ابلاغ پر یہ بحث چل نکلی کہ کیا وہ پاکستان کو درپیش دگرگوں حالات اور گھمبیر معاملات سے نبردآزما ہو سکیں گے؟