ضیا شاھد کے انکشافات

کچھ ذکر کے ایچ خورشید کا قسط 7….ضیا شاہد

قائد کے مخالف انہیں ضدی قرار دیتے اور ہندو لیڈر انہیں ہٹ دھرم کہتے۔ یہ قائد کی عظمت کا اعتراف تھا۔ ایک مرتبہ قائد فرانس جا رہے تھے وہ جوان تھے اوران کی طبیعت میں مزاح کا پہلو زندہ و تابندہ تھا۔ ساحل فرانس پر اترنے کے بعد انہیں کسٹم کی چوکی پر روک لیا گیا۔ پڑتال ہوئی تو کچھ سگریٹ برآمد ہوئے۔ قائد نے ازراہ مذاق کہا یہ چند سگریٹ میرے استعمال کے ہیں ان پر محصول کیسا۔ کسٹم حکام نے کہا یہ آپ کو دینا پڑے گا۔ قائد بولے اگر میں نے نہ دیا تو‘ جواب ملا کہ آپ یہاں سے آگے نہیں جا سکتے۔ قائد بولے میں ضرور جاﺅں گا اورکسٹم بھی نہیں دوں گا۔ یہ کہہ کر قائد نے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ٹوکری میں پھینک دیا اور کہا اب میرے پاس سگریٹ نہیں ہیں لہٰذا محصول کیسا۔ کسٹم حکام ہنس پڑے اورکہا آپ جا سکتے ہیں۔
خورشید صاحب نے کہا قائد اکثر مجھے اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات سناتے۔ وکیل کے طور پر ان کی ابتدائی زندگی طالب علمی کے زمانے میں لندن کی باتیں۔ ایک بار انہیں تھیٹر میں کام کرنے کا شوق ہوا اور انہوں نے سٹیج پر اداکاری کی اور ایک اچھے مقرر کی طرح زبردست گفتگو کی‘ لیکن جلد ہی یہ شوق ختم ہوگیا۔ ایک بار لندن میں قیام کے دوران جب قائد پندرہ سولہ برس کے تھے تومالکہ مکان نے کہا روزانہ نہانا صحت کے لیے اچھا نہیں اور پانی بھی بہت خرچ ہوتا ہے۔ قائد نے کہا میں تو روزانہ نہانے کا عادی ہوں۔ مالکہ مکان نے کہا اس صورت میں تمہیں گرم پانی نہیں مل سکتا۔ قائد نے کہا نہ ملے میں ٹھنڈے پانی سے نہا لوں گا۔ انہوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا تھا کہ اگلے روز میں غسل خانے میں داخل ہوا تو سردی کی شدت سے ٹب کا پانی بالائی سطح پر ہلکا سا جم گیا تھا قائد نے مجھے بتایا کہ میں نے مکا مار کر کُہرکی تہہ کو توڑا اور آنکھیں بند کر کے ٹب میں کود پڑا۔ وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے جوطے کر لیتے اس پرعمل کرتے۔ برطانیہ سے فارغ التحصیل ہو کر واپس ہندوستان آئے تو والد کا کاروبار تباہ ہو چکا تھا اور مالی پریشانیاں سر پر تھیں۔ سارے خاندان کا خیال تھا کہ جناح کو پانچ چھ سو روپے ماہوار پر ملازمت مل سکتی ہے۔ چار بہنیں‘ بزرگ والدہ‘ والد اور ایک چھوٹا بھائی سب کی نظریں ان پر تھیں۔ انہوں نے پورے یقین سے کہا میں ملازمت نہیں کروں گا اور قانون کی پریکٹس کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ قائد نے یہ بھی بتایا کہ میں پیدل روزانہ عدالت جایا کرتا تھا اور ٹرام میں جانے کا خیال کبھی دل میں نہ آتا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے اور میں ایک آنہ بھی خرچ نہیں کر سکتا تھا۔ قائد نے دن رات محنت کی اور جلد ہی ان کی پریکٹس چل نکلی۔ ایمانداری میں ان کا جواب نہیں تھا حتیٰ کہ وکالت کے دور کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے ایک کیس کا معاوضہ اس طرح طے کیا کہ ان کے خیال میں یہ مقدمہ تین چار پیشیوں میں ختم ہو گا لیکن ان کے زبردست دلائل اور تیاری کے باعث مقدمہ دوسرے ہی دن ختم ہو گیا۔ قائد نے جو فیس ادا کی جا چکی تھی اس میں سے نصف واپس کر دی۔ اپنی کامیابی پر خوش موکل نے اصرار کیا کہ آپ یہ پیسے رکھ لیں لیکن قائد نہ مانے۔
خورشید صاحب کو بے شمار واقعات یاد تھے۔ ایک بہت دلچسپ واقعہ ان کی زبانی آپ بھی سنئے، قائد کا ایک ملازم کام کے اعتبار سے بہت محنتی تھا لیکن دوسرے ملازموں سے لڑائی جھگڑا کرنا اس کا معمول تھا۔ ایک مرتبہ وہ قائد کے پاس آیا اور درخواست کی کہ میں اپنے وطن (پشاور) جانا چاہتا ہوں۔ میں نے کتنا عرصہ آپ کے پاس کام کیا ہے مجھے کوئی سرٹیفکیٹ بنا دیں جسے دکھا کر کسی اچھے گھر میں مجھے ملازمت مل سکے۔ قائد نے وعدہ کر لیا اور اسی روز مجھے سرٹیفکیٹ کا مضمون لکھوایا۔ قائد نے جو سرٹیفکیٹ ملازم کو دیا اس کے الفاظ کچھ یوں تھے۔ نام اور پتے کے بعد اس کے کام کی تعریف کی اور لکھوایا کہ وہ بہت ایماندار اور اپنے کام میں بہت دلچسپی لینے والا ہے البتہ بدقسمتی سے وہ بہت لڑاکا ہے اور ساتھیوں سے اکثر اوقات لڑتا جھگڑتا رہتا ہے۔ میں اس کے اچھے مستقبل کے لئے دعا کرتا ہوں۔ دستخط ایم اے جناح ۔ حورشید صاحب کہتے ہیں کہ جب یہ سرٹیفکیٹ اس ملازم نے پڑھوا کر سنا تو پریشانی کے عالم میں قائد کے پاس حاضر ہوا اورکہا جناب یہ پڑھ کر تو کوئی مجھے نوکری نہیں دے گا۔ ”قائد“ نے کہا آئی ایم سوری میں نے جو سچ تھا لکھ دیا میں اس کو تبدیل نہیں کروں گا۔
خورشید صاحب کی کتاب ”قائداعظم کی یادیں“ انگریزی زبان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپی تھی۔ بعد ازاں سنگ میل لاہور نے اس انگریزی کتاب کو دوبارہ چھاپا، برادرم مجیب الرحمن شامی کے اخبار اسلامی جمہوریہ میں ان کے نائب ممتاز اقبال ملک نے خورشید صاحب سے طویل انٹرویو کیا جو اسلامی جمہوریہ کی فائل میں موجود ہے۔ خورشید صاحب کے حوالے سے ایک مختصر سی کتاب میں نے بھی ترتیب دی تھی جس میں ان کے دو انٹرویوز اور دو تحریریں جمع کی گئی تھیں اس کتاب کا نام ”مسئلہ کشمیر اور خورشید صاحب“ ہے۔ خورشید صاحب کی بیگم ثریا خورشید کو شوہر سمیت مادر ملت کے ساتھ فلیگ ہاﺅس کراچی میں دو اڑھائی سال رہنے کا موقع ملا۔ انہوں نے یادوں کی کہکشاں کے نام سے مادر ملت کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات پر کتاب لکھی ہے جس میں محترمہ فاطمہ جناح کے علاوہ قائداعظم کی زندگی کے بعض واقعات بھی درج ہیں۔ قائد کے زیر استعمال چیزوں کی ایک چھوٹی سی نمائش گاہ مزار قائد کے ساتھ موجود ہے۔ اگر آپ نے ان کی یادگار اشیا دیکھی ہیں تو یقینا ان چیزوں سے قائد کی شخصیت کا اندازہ کیا ہو گا۔ ان کے چشمے‘ ان کے قلم‘ ان کے کپڑے ان کے کف لنکس ان کے جوتے ان کی شیروانیاں ان کے کوٹ پتلون ان کی ٹائیاں اور سب سے بڑھ کر ان کے زیر استعمال گاڑی۔ کیا شاندار چیزیں ہیں اور کس قدر پرشکوہ شخصیت کے تصرف میں رہی ہیں۔ قائداعظم اپنی جوانی میں خود بھی خوبصورت انسان تھے اور بڑھاپے میں بھی وہ ایک باوقار شخصیت تھے۔ جب کبھی خورشید صاحب قائد کی اہلیہ رتی جناح کا ذکر کرتے تو ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ان کو بمبئی کا گلاب کہتے تھے۔ وہ انتہائی خوبصورت اور دلکش خاتون تھیں۔ قائداعظم نے انہیں پسند کیا۔ وہ بھی قائد کو بہت چاہتی تھیں۔ قائد نے کئی سال انتظار کیا اورجب وہ قانونی طور پر بالغ ہو گئیں تو انہیں اسلامی نام (مریم) دے کر ان سے شادی کی۔ خورشید صاحب ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ وہ قائد سے 24 سال چھوٹی تھیں اور ان کی کبھی علیحدگی نہ ہوتی اگر قائد اپنے کاموں میں شدید مصروف نہ ہوتے۔ رتی جناح چاہتی تھیں کہ ان کے شوہر ہمیشہ ساتھ رہیں ان کے لئے وقت نکالیں، وہ شاموں کو تفریح کے لئے کلب جانا اور راتوں کو باہر ڈنر کرنا چاہتی تھیں جبکہ قائد کی زندگی میں ان سب کے لئے وقت نہیں تھا۔ خورشید صاحب نے مجھے تفصیل سے ان کی علیحدگی اور بعد ازاں پیش آنے والے واقعات کے متعلق بتایا وہ بیمار ہوئیں تو علاج کے لئے فرانس گئیں۔ قائد کو پتا چلا تو انہوں نے فرانس پہنچ کر آخری دنوں میں ان کی تیمار داری کی اور وہ بار بار کہتے رہے کہ ہمیں رتی کو بچانا ہو گا لیکن ان کی بیگم کو تپ دق کا مرض لاحق تھا اور وہ آخری سٹیج پر تھیں لہٰذا جلد ہی وہ دنیا سے کوچ کر گئیں، قائد کے گھر واقع دہلی میں ان کا کمرہ ہمیشہ بند رہا اور ہفتے میں ایک بار اس کی صفائی کی جاتی۔ کبھی کبھار قائد اس کمرے میں جاتے تھے اور اپنی چہیتی بیوی کی چیزیں اور ان کا لباس دیکھ کر پرانی یادوں کو تازہ کرتے تھے۔ ان کی وفات پر صاحبزادی دینا جناح جو اپنے ننھیال کے پارسی خاندان میں ان کی اپنی مرضی سے بیاہی گئی تھیں کراچی آئیں اور آخری رسومات میں شریک ہوئیں، قارئین کو یاد ہو گا کہ چند برس پیشتر دینا جناح نے جو اب خود بزرگ خاتون ہو چکی ہیں پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا اور ان کی تصویریں اور خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوئی بھی تھیں۔ اس تذکرے کے آخر میں آپ دیکھئے کے ایچ خورشید کی ایک تصویر اپنی بیگم ثریا کے ساتھ اور اندازہ کیجئے کہ یہ جوڑا کس قدر خوبصورت اور دلکش ہے۔ یہ ان کی جوانی کی تصویر ہے جب وہ مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ ان کی رہائش گاہ فلیگ ہاﺅس کراچی میں قیام پذیر تھے۔
(جاری ہے)