ملت انٹرویو

امریکا سےغلط فہمیاں جلد دور ہوجائیں گی، اعزاز احمد چوہدری

امریکا سےغلط

امریکا سے غلط فہمیاں جلد دور ہوجائیں گی، اعزاز احمد چوہدری

واشنگٹن:(ملت آن لائن) امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزازاحمد چوہدری نے کہا ہے کہ پاک امریکا دو طرفہ تعلقات کے حالیہ تناظر میں دونوں ممالک کی مشترکہ ذمہ دارہے کہ وہ افغانستان میں استحکام اور دہشت گردی کے خاتمہ کے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے مل کر کام کریں۔ انہوں نے کہاکہ جنوبی ایشیاء کے خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان اور امریکا مشترکہ طورپر کوشاں ہے جو عالمی امن کے لئے بھی ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے طویل قریبی اور دوستانہ تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کی قیادت اپنے قومی مفادات پر سمجھوتا کئے بغیر قیام امن کے لئے مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے میں کامیاب ہو گی۔ ’’اے پی پی‘‘ کو دیئے گئے ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران پاکستانی سفیر نے پاکستان کی سکیورٹی امداد کو بند کرنے کے حوالے سے امریکی صدر کے حالیہ فیصلے کی وجہ سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کانگریس کے کئی اراکین، سینیٹرز اور امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں سے اکثر نے یہ کہ ہے کہ پاکستان کو مشترکہ مقاصد کے حصول کے لئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اعزاز احمد چوہدری نے مزید کہا کہ سکیورٹی امداد کو روکنے کے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کے باوجود پاکستان افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی معاونت کا عمل جاری رکھے گا جو طالبان کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ یہ کارروائیاں افغانستان سمیت خطے سے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ پاکستان اور امریکا ایک مشترکہ کے دشمن کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے اور ہمارے پاس اپنے مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے مل کر کام کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں تاہم انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امریکی ناکامیوں کے حوالے سے پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جا سکتا۔ پاکستانی سفیر نے کہاکہ امریکا سمیت تمام ممالک سے اچھے تعلقات پاکستان کی ضرورت ہیں لیکن یہ تعلقات باہمی عزت اور احترام کے رشتے پر مبنی ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نے امریکا پر واضح کیا ہے کہ ہمیں کسی قسم کی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ در حقیقت امریکا پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ پر کئے گئے اخراجات کی ادائیگی کررہا ہے جو اب روک لی گئی ہے۔ اعزاز احمد چوہدری نے مزید کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے بھاری انسانی اور اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا تاہم پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ کی جامع حکمت عملی کے تحت اس پر قابو پایا اور افغان سرحد کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں مسلح افواج کی جانب سے کی گئی کاروائیوں کے نتیجہ میں دہشت گردی کی لہر پر مؤثر طورپر قابو پالیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں اب دہشت گرد بھاگ رہے ہیں اور ان کو چھپنے کی کوئی جگہ نہیں مل رہی ۔ انہوں نے کہاکہ معلومات کی بنیاد پر آپریشن رد الفساد کے دوران کئی کارروائیاں کرکے دہشت گردوں کے خفیے ٹھکانے ختم کر دیئے گئے ہیں اور کچھ دہشت گرد افغانستان میں چھپے ہیں جو وہاں سے خطے میں موجود امریکی افواج اور پاکستان کے خلاف مختلف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ پاکستانی سفیر نے کہاکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے فوجی کارروائی اس کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ جنگ سے متاثرہ ملک میں امن و امان کی بحالی کے لئے افغانستان میں افغان قیادت سے مل کر لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان اس کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں مفاہمتی عمل میں رکاوٹ کے باعث پاکستان نے جولائی 2015ء میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لئے اپنی خدمات پیش کیں تھیں اور مذاکرات کے پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد دوسرے مرحلے سے ایک روز قبل ملا عمر کی وفات کی خبروں کی وجہ سے مفاہمتی عمل متاثر ہوا اور اس سے غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی ۔ انہوں نے مزید کہاکہ مئی 2016ء میں افغان رہنما کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد چار قومی مفاہتمی عمل کے لئے ایک اور کوشش کی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں پاکستانی سفیر نے کہاکہ افغانستان میں طالبان کی مداخلت اور موجودگی لمبے عرصے پر محیط ہے اور پاکستان مفاہمت کے ہر عمل کی بھرپور حمایت کرے گا تاہم اس حوالے سے ہمیں اپنی توقعات کو زیادہ نہیں بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح امریکا اور افغانستان، افغانستان میں امن کے خواہش مند ہیں اس طری پاکستان بھی پر امن اور مستحکم افغانستان چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان میں امن نہیں ہو سکتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں اعزاز احمد چوہدری نے کہاکہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت قومی سلامتی کے حوالے سے ایک رائے رکھتی ہے اور امریکی امداد کی بندش پر بھی یکساں مؤقف کی حامل ہے۔ امریکی الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کی معاونت اور پاکستان میں ان کی محفوظ پناہ گاہوں کے الزامات حقیقت کے برعکس ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قومی اتفاق رائے سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور مسلح افواج کسی تمیز کے بغیر تمام دہشت گرد گروپوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان نے دہشت گردوں پر اپنی زمین تنگ کردی ہے اور ہم ملک سے افغان مہاجرین کی مکمل واپسی چاہتے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی سلامتی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستانی سفیر نے کہاکہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے لئے پاکستان کی حکومت جامع اقدامات کررہی ہے اور سرحد کے آر پار کسی بھی غیر قانونی سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے 2600کلومیٹر طویل سرحد پر حفاظتی باڑ لگائی جائے گی اور چوکیاں قائم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں پر حفاظتی باڑ لگانا ناممکن ہے وہاں پر پاکستان نے اپنی حفاظتی چوکیاں قائم کرکے سرحد پر مؤثر نگرانی کا عمل شروع کررکھاہے جبکہ دوسری جانب افغانستان کی طرف سے سرحد کی سکیورٹی کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے جارہے اور افغانستان کا کوئی فوجی یا کوئی چوکی اس عمل میں مصروف نہیں ہے۔ ایک اور سوال کے جواب پر جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کے تحت ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں بھارت کے کردار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کی خواہش مند ہے لیکن بھارت افغانستان میں اپنی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہاہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ظاہر کئے جانے والے خدشات میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور پاکستان کے جوہری ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں ۔پاکستانی سفیر نے کہاکہ جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے کمانڈ اینڈ کنٹرول کا مؤثر نظام موجود ہے اور ہمارا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے جس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ اپنے انٹرویو کے آخر میں انہوں نے پاک امریکا کے قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ امریکا میں مقیم پاکستانی برادری کانگریس سمیت سینیٹ اور امریکی انتظامیہ کے سامنے پاکستانی مؤقف کو مؤثر طورپر پیش کرنے کے لئے اپنے دوستوں کے ذریعے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔