ملت انٹرویو

آئی جی سندھ نے حساس اداروں سے مدد مانگ لی

آئی جی سندھ نے

آئی جی سندھ نے راؤ انوار کا سراغ لگانے کیلئے حساس اداروں سے مدد مانگ لی

لاہور:(ملت آن لائن)سپریم کورٹ کی جانب سے آئی جی سندھ کو راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے دی گئی 72 گھنٹوں کی مہلت میں سے تینتیس گھنٹے سے زائد گزر گئے لیکن تاحال پولیس اپنے ہی معطل ایس ایس پی راؤ انوار کا پتا نہیں لگا سکی ہے۔ انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ نے راؤ انوا کا سراغ لگانے کے لیے حساس اداروں سے بھی مدد مانگ لی ہے۔ شاہ لطیف کے علاقے میں جعلی پولیس مقابلے میں نقیب اللہ کی ہلاکت کے معاملے پر سپریم کورٹ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لئے تین دن کی مہلت دی تھی۔
نقیب کے بیٹے کے تعلیمی اخراجات پاک فوج اٹھائے گی، جرگہ رہنما
33 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر جانے کے باوجود اب تک راؤ انوار کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ہے۔ آئی جی سندھ نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے پہلے پنجاب ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر کے آئی جیز کو خط لکھا اور اب حساس اداروں سے بھی مدد طلب کرلی ہے۔ آئی جی سندھ نے حساس اداروں سے درخواست کی ہے کہ ملزم کی گرفتاری کیلئے تکنیکی اور انٹلیجنس معاونت فراہم کی جائے کی جائے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ راؤ انوار 20 جنوری کو بذریعہ پی آئی اے صبح اسلام آباد گئے تھے، 23 جنوری کو ملزم نے اسلام آباد ایئرپورٹ سے دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی جہاں ایف آئی اے امیگریشن نے راؤ انوار کو باہر جانے سے روک دیا تھا۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
نقیب قتل کیس: چیف جسٹس کا راؤ انوار کو تین دن میں گرفتار کرنے کا حکم
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔