ملت انٹرویو

نقیب کے بیٹے کے تعلیمی اخراجات پاک فوج اٹھائے گی، جرگہ رہنما

نقیب کے بیٹے کے تعلیمی اخراجات پاک فوج اٹھائے گی، جرگہ رہنما

کراچی(ملت آن لائن) میں جعلی پولیس مقابلے میں جاں بحق ہونے والے نقیب اللہ محسود کے بیٹے کے تعلیمی اخراجات اور وزیرستان میں نقیب کے مکان کی تعمیر کی ذمے داری پاک فوج نے لے لی ہے۔ جنوبی وزیرستان کے علاقے چگملائی میں محسود اور برکی قبائل کا پاک آرمی کے نمائندوں کے ساتھ گرینڈ جرگہ منعقد ہوا۔ جرگے کے سربراہ ملک مسعود احمد نے میڈیا کو بتایا کہ کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں جاں بحق نقیب اللہ محسود کے بیٹے کے تعلیمی اخراجات اور اس کے مکان کی تعمیر کی ذمے داری پاک فوج نے لے لی ہے۔ جرگے میں جی سی او وانا کے قائم مقام انچارج بریگیڈیئرعرفان احمد اور پولیٹیکل ایجنٹ اشفاق احمد، اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ محمد نائب الدین داوڑ اور اے پی او اخلاق احمد، محسود اور برکی قبائل کے رہنما شریک ہوئے۔
نقیب قتل کیس: چیف جسٹس کا راؤ انوار کو تین دن میں گرفتار کرنے کا حکم
جرگہ عمائدین نے کہا ہے کہ پاک فوج نےعلاقے سے بارودی سرنگوں کا خاتمہ کیا ہے اور بارودی سرنگوں کے دھماکوں میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو جلد معاوضہ دیا جائے گا۔
چیف جسٹس کا راؤ انوار کو تین دن میں گرفتار کرنے کا حکم
27 جنوری کو چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی سندھ کو تین دن میں معطل ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری یقینی بنانے کا حکم دیا تھا تاہم اب تک راؤ انوار کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ ادھر آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے بھی راؤ انوار کی گرفتاری میں مدد کے لیے حساس اداروں کو خط لکھ دیا ہے اور تعاون کی درخواست کی ہے۔ آئی جی سندھ نے کی جانب سے حساس اداروں کو ارسال کیے گئے خط میں راؤ انوار کی دبئی فرار کی کوشش کا بھی ذکر ہے۔ کراچی میں نقیب اللہ قتل کے خلاف لگائے گئے احتجاجی کیمپ کے دورے کے موقع پر عمران خان نے کہا ہے کہ راؤ انوار کے پیچھے سیاست دان ہیں، ان کی پشت پناہی کرنے والوں تک بھی پہنچنا ہوگا۔
نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟
رواں ماہ 13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
ثابت ہوگیا پولیس مقابلہ جعلی تھا اور نقیب اللہ بے گناہ مارا گیا: سربراہ تحقیقاتی کمیٹی بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔