خبرنامہ

چین میںرمضان، مساجد کی ایک جھلک ….منصور خالد

شنگھائی اسلامک ایسوسی ایشن کی جانب سے دئیے گئے رمضان کیلنڈر کے مطابق یہاں پیر چھ جون سے روزوں کا آغاز ہوگیا , روزے کا دورانیہ یہاں اوسطاٌ ساڑھے پندرہ گھنٹے کے لگ بھگ ہے۔ چین کے ان مشرقی حصوں میں شدید گرمی عموماٌ جولائی کے وسط سے زور پکڑتی ہے اور اگست کے مہینے میں درجہء حرارت اکثر پینتیس، چالیس ڈگری تک پہنچ جاتا ہے ۔ مئی کا موسم کافی خوشگوار اور برسات سے بھر پور ہوتا ہے اور جون میں بھی گرمی عموماً بیس بائیس سے لے کر تیس ڈگری کے درمیان رہتی ہے اور اس لحاظ سے یہ موسم روزے داروں کے لئے زیادہ آزمائش کا سبب نہیں بنتا۔ اس شہر میں متعدد جامع مساجد ہیں اور شہر کے وسطی علاقے کی قدیم ایو یوآن مسجد میٹرو ٹرین کے اسٹیشن سے محض تین، چار منٹ کے پیدل فاصلے پر موجود ہے۔ ایک صدی سے بھی قدیم یہ مسجد شہر کے اس تاریخی بازار کی اندرونی سڑک پر موجود ہے اور اس مسجد میں قدیم منقش لکڑی کی کھڑکیوں,دروازوں اور ستونوں کا طرز تعمیر نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ بہت بڑی مسجد نہیں ہے اور غالباً بیک وقت بمشکل چھ سو کے قریب نمازیوں کی ہی جگہ بنتی ہے ۔ داخل ہوتے ہی مختصر سی راہداری کے ایک طرف استقبالیہ نما دکان اور ایک انتظار گاہ کا کمرہ ہے۔ وضو خانہ چھوٹا سا ہے جہاں تنگ سی جگہ پر چند غسل خانے بھی موجود ہیں۔ مسجد میں ایک اندرونی ہال اور صحن موجود ہے جس سے متصل ہی پیچھے کے ایک ہال میں خواتین بھی نماز ادا کرسکتی ہیں۔ خواتین کے اسی ہال میں ایک باقاعدہ نشست گاہ اور کچھ سجاوٹ کا فرنیچر بھی موجود ہے اور یہ جگہ مسجد کی تقاریب کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ رمضان کے دوران جمعے کی نماز میں یہاں مرکزی ہال اور مختصر سے صحن کا کچھ حصہ نمازیوں سے بھر جاتا ہے، ان میں اکثریت تو چینی مسلمانوں کی ہی ہوتی ہے لیکن ایک قابل ذکر تعداد میں غیر ملکی مسلمان بھی ہوتے ہیں ۔عام طور پر ایک موذن اور دو امام اس دوران معاملات کو دیکھتے ہیں،ایک جمعے کو ایک امام اور دوسرے جمعے کو دوسرے امام خطبے اور امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ وعظ چینی زبان میں تقریباً پچیس منٹ تک چلتا ہے جبکہ عربی خطبے کی طوالت دس منٹ تک کی ہوتی ہے جس کے دوران امام صاحب چینی زبان میں بھی خطبے کے مندرجات ساتھ ساتھ بیان کرتے ہیں۔سفید جبے اور عمامے میں ملبوس ان آئمہ کرام کی چینی لب و لہجے والی عربی کافی منفرد محسوس ہوتی ہے اور باجماعت نماز کے بعد سنتوں اور نوافل کی ادائیگی کر کے اکثر نمازی ان سے مصافحہ کرتے ہیں۔
یہاں مساجد میں خواتین کی موجودگی عام سی بات ہے جو سر پر سکارف باندھے اپنی مخصوص جگہوں پر نماز ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح رمضان کے علاوہ یہاں اکثر نماز جمعہ کے بعد چند خواتین و حضرات چکن سوپ اور نرم سے سفید چینی بن پر مشتمل کھانا تبرکاً نمازیوں میں بڑے سکون اور منظم طریقے سے تقسیم کرتے ہیں۔ شہر کی معروف سیاحتی جگہ پر واقع ہونے کی وجہ سے اکثر چینی اور غیر ملکی سیاح باہر نکلنے والے نمازیوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور چند ایک کیمرہ لے کر اندر کی طرف جانے کا ارادہ بھی کر لیتے ہیں جس کی نماز کے اوقات میں اجازت نہیں دی جاتی۔اس تاریخی مسجد سے کم وبیش تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور جامع مسجد’ لائو شی من‘ کے علاقے میں واقع ہے جس کی عمارت کافی وسیع و عریض ہے اور خواتین کے لئے تو ایک چھوٹی سی علیحدہ عمارت بھی مخصوص کر دی گئی ہے۔ میٹرو اسٹیشن سے نسبتاً زیادہ پیدل فاصلے پر یہ مسجد ایویو آن کی مسجد کے مقابلے میں کافی بڑی ہے، جس کے مرکزی ہال میں ہزار،بارہ سو کے لگ بھگ نمازی با آسانی سما سکتے ہیں۔ اس مسجد میں ایک بڑا کمیونٹی ہال بھی موجود ہے جہاں بیک وقت کئی سو لوگو ں کی دعوت ہو سکتی ہے۔جمعے کے روز اس مسجدکا ہال بھی نمازیوں سے مکمل بھرا ہوا ہوتا ہے۔
تیسری مسجد جہاں میں کبھی کبھار نماز ادا کرنے جاتا ہوں وہ ‘ ہو شی‘ مسجد ہے۔ یہ مسجدبلند وبالا فلیٹس کے درمیان ایک وسیع جگہ پر اپنے مخروطی مینا ر کے سائے میں نمازیوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اسی مسجد کے نزدیک جمعے کو مسلمانوں کی فوڈ سٹریٹ مارکیٹ لگتی ہے جس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اس سٹریٹ میں کھانے پینے اور خشک میوہ جات کے درجنوں سٹال ہوتے ہیں جہاں سے آپ سنکیانگ والے انداز کے تکے، نان، پلاف(پلائو)، بھنے ہوئے حلال مرغ خرید بھی سکتے ہیں اور وہیں فٹ پاتھ پر موجود عارضی سٹولوں اور بینچوں پر بیٹھ کر نوش بھی فرما سکتے ہیں۔ عام طور پر نماز کے بعد اس جگہ بہت رش ہوتا ہے اور صرف نمازی حضرات ہی نہیں بلکہ دیگر چینی باشندے بھی کھانے کے ان سٹالوں پر آتے ہیں, یہاں مردوں کے ساتھ مسلم خواتین بھی ایک بڑی تعداد میں یہ اشیا فروخت کرتی نظر آتی ہیں,صرف کھانے پینے کی ہی نہیں اگر نظر دوڑائیں تو یہاں سے استنجا کے لئے منفرد چینی ڈیزائن والے پلاسٹک کے لوٹے بھی خریدے جا سکتے ہیں، کیونکہ یہاں گھروں پر مسلم شاور کی فٹنگ کروانا ایک دقت والا کام ہے اس لئے ان لوٹوں کی افادیت آپ سمجھ سکتے ہوں گے ۔اس مسجد میں خواتین نمازیوں کی معقول تعداد اوپری منزل پر موجود علیحدہ ہال کی سہولت کے باعث نماز ادا کرنے آتی ہے ۔ یہاں نمازیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ مسجد کے صحن کے بعد بھی متصل راہداری میں اضافی صفیں بچھانی پڑ جاتی ہیں۔ یہاںکتب خانے کی سہولت کے علاوہ حلال گوشت کی چند دوکانیں اورسٹال بھی ہیں جہاں سے آپ اپنی ضرورت کا تازہ گوشت خرید سکتے ہیں۔ ‘ ہو شی ‘ مسجد کا ایک اور امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں نماز عید کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے، گزشتہ عید پر میں نے یہاں نماز ادا کی تھی، شنگھائی کے مقامی ڈسٹرکٹ کی انتظامیہ نے نمازیوں کی بڑی تعدادکے باعث مسجد سے متصل ایک مرکزی روڈ کو ٹریفک کے لئے مکمل طور پر بند کر دیا تھا اور اس جگہ درجنوں اضافی صفیں بچھائی گئیں تھیں۔ٹریفک پولیس کے اہلکار نماز عید کے دوران تقریباً دو گھنٹے تک اس سڑک کے اطراف کی ٹریفک کو کنٹرول کرتے رہے اور سینکڑوں چینی باشندے بڑے تجسس اور دلچسپی سے فٹ پاتھ پر کھڑے ہزاروں لوگوں کو عید کی نماز ادا کرتے دیکھنے کے لئے رک گئے تھے۔حسن انتظام کا یہ عالم تھا کہ نماز، خطبے اور دعا کے بعد محض دس منٹ میں اس سڑک پر ٹریفک معمول کے مطابق پھر رواں دواں تھا۔
رمضان میں ان مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے اور باجماعت تراویح کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان مساجد میں مسلم کمیونٹی کا ایک بڑا منفرد احساس ملتا ہے جب باجماعت نمازوں میں خواتین اور بچے بھی با آسانی شریک ہوتے ہیں۔ ہر مسجد میں انتظامی دفتر اور چھوٹی سی بنیادی قسم کی لائبریری بھی پائی جاتی ہے۔ جمعے کے روز مسجد کے انتظامات سے منسلک لوگ اضافی صفیں بچھانے کا کام بڑی تندہی سے کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مسجد کے لئے اگر آپ کوئی رقم دینا چاہیں تو اس کے باکس بھی موجود ہوتے ہیں۔ عام طور پر طویل فاصلوں کے باعث پنج وقتہ باجماعت نماز کے لئے لوگوں کی اکثریت کا ان مساجد میں پہنچنا ممکن نہیں اس لئے اصل کمیونٹی رونق جمعہ یا عیدین کے اجتماعات میں ہی نظر آتی ہے۔
رمضان کا آغاز ہوتے ہی گزشتہ برس کی طرح اس بار بھی فیس بک پر ایک عجیب سی پوسٹ نظر سے گزری جس کے مطابق چین نے اپنے پندرہ کروڑ مسلمانوں کے روزہ رکھنے پرپابندی عائد کر دی ہے۔ نجانے کن لوگوں نے اتنی غلط معلومات کے ساتھ یہ ْاڑائی ہے ۔چین میں مسلمانوں کی کل تعداد ہی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ چین کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری اور نئے علاقائی اقتصادی منصوبوں کے پس منظر میں ہمارے چند نادیدہ مہربان یقینا اب ڈس انفارمیشن پھیلانے کی کوششیں کریں گے ۔چین میں تیار کردہ جا نمازوں پر بیٹھ کر وہیں کی بنی تسبیحاں پڑھنے والے سادہ لوح لوگ ایسی من گھڑت خبریںبڑے دکھ کے ساتھ شیئر بھی کریں گے , باقی اصل خبر یہ ہے کہ لاکھوں نیکو کار لوگ یہاں روزے رکھ رہے ہیں اور مجھ جیسے گناہ گار با قاعدگی سے افطار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔