خبرنامہ

امریکہ کشمیر کے مسئلے کے حل میں اپنا کردارادا کرے: مشاہد حسین

واشنگٹن ۔ 8 اکتوبر (اے پی پی) جموں وکشمیر کیلئے وزیراعظم کے خصوصی نمائندے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، امریکہ کشمیر کے دیرینہ تصفیہ طلب مسئلے کے حل میں اپنا کردارادا کرے، مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کی وجہ سے دنیا کے امن کو خطرات لاحق رہیں گے۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ روز یہاں واشنگٹن میں اے پی پی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں امن مذاکرات جامع ہونا چاہئیں اور اس میں ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہوگا جس کی وجہ سے اس حساس خطے میں عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر دوجوہری ریاستوں کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب وزیراعظم کے خصوصی ایلچیوں کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کی جدوجہدکو اجاگر کرنے کیلئے امریکہ کے دورے پر ہیں۔ مشاہد حسین سید نے خبردار کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے افغانستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، پاکستان نے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں کیلئے افغانستان کے ساتھ اپنی مغربی سرحد پر دو لاکھ کے قریب فوجی تعینات کئے ہیں، اگر بھارت کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا تو اس صورت میں پاکستان ان افواج کو اپنی مشرقی سرحدوں پر منتقل کرنے پر مجبور ہوگا۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے 60 ہزار شہری اور سیکورٹی اہلکار اپنی جانوں کے نذرانے دے چکے ہیں، پاکستان کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ قربانیاں کیا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے امریکہ کو اپنا فعال اور موثر کردارادا کرنا ہوگا، امریکہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا دستخط کنندہ ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردارادا کرنا امریکہ کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے، مسئلہ کشمیر دو جوہری ممالک کے درمیان ایک ایشو ہے جس سے عالمی امن کیلئے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیراعظم کے ایلچی کی حیثیت سے نہیں بلکہ پوری قوم کے نمائندوں کی حیثیت سے امریکہ کا دورہ کررہے ہیں، اس دورے کے دوران ہم نے امریکی حکام ، میڈیا اور کلیدی تھنک ٹینک سے ملاقاتیں کی ہیں۔ انہوں نے جنرل اسمبلی میں وزیراعظم محمد نواز شریف کے خطاب کو سراہا اور کہا کہ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے فورم پر کشمیر کا مضبوط مقدمہ پیش کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کیلئے دنیا کے مختلف ممالک میں پارلیمنٹیرینز کو سفارتی نمائندوں کے طور پر بھیجنے کا وزیراعظم کا فیصلہ دانشمندانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکی میڈیا، عوام اور تھنک ٹینک کے سامنے مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کامقدمہ پیش کردیا ہے، ہم نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے بارے میں انہیں آگاہ کیا ہے اور ان پر واضح کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک علاقائی ایشو نہیں بلکہ یہ عوام کے حق خودارادیت کا معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے امریکی رائے عامہ اور لیڈر شپ کے سامنے مسئلہ کشمیر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے بھارتی حربوں کے بارے میں پاکستانی موقف پیش کیاہے اور ان پر واضح کیا ہے کہ سندھ طاس ایشو کو سامنے لانے کا بھارتی اقدام صرف کشمیر کے مسئلے سے دنیا کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ امریکی میڈیا نے پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کے بھارتی دعوؤں کا پول کھول دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوباما انتظامیہ کے عہدیداروں سے ملاقات کے دوران ہمیں بھارتی کوششوں کا مقابلہ کرنے کا بھرپور موقع ملا، ہم نے واضح کیا کہ سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اور بھارت اسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس بات کو سمجھنے لگی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات میں کشمیر کے مسئلے کو شامل ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے تیار نہیں ہے، بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا ہے اور حال ہی میں اس نے سارک کے فورم کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ سارک تنظیم علاقائی سلامتی میں اہم کردار ادا کرسکتی تھی، اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے کشمیر میں حقائق جاننے کیلئے مشن کو دورے کی اجازت دینے سے بھی انکار کیا ہے، بھارتی ہٹ دھرمی اور ضدکو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر شذرہ منصب نے کہا کہ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں میں ملوث ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں چھرے دار بندوقوں کا استعمال کررہا ہے جس پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں۔