خبرنامہ

سینٹ کمیٹی نے نیشنل ٹی بی کے 200 ملازمین نکالنے سے روک دیا

سینٹ کمیٹی نے نیشنل ٹی بی کے 200 ملازمین نکالنے سے روک دیا
اسلام آباد: (ملت آن لائن) سینٹ کی ذیلی کمیٹی برائے قومی صحت نے نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کو 200پروجیکٹ ملازمین کو نوکری سے نکالنے سے روک دیا، جبکہ گلوبل فنڈ، انڈ س ہسپتال اور مرسی کیور کی آڈٹ رپورٹ طلب کرلی ،سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ200لوگوں کو ملازمت سے نکالنے سے بے روزگاری بڑھے گی،اس معاملے پر کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے،کمیٹی کو متعلقہ حکام کی جانب سے بریفنگ دی گئی کہ پاکستان میں ہر سال 5لاکھ 18ہزار ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جن میں سے 3لاکھ 66ہزار مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں جبکہ 1لاکھ 54ہزار مریض نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام میں رجسٹرڈ نہیں ہورہے ،ٹی بی کے ہر مریض تک پہنچنے کے لیے 3سو ملین درکار ہونگے۔،جبکہ اجلاس کے دوران وزارت صحت کے ایڈیشنل سیکرٹری گلوبل فنڈ کی طرف سے تعینات کردہ ڈاکٹرکرم شاہ سے متعلق لاعلم نکلے۔منگل کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس سینیٹر اشوک کمار کی صدارت میں ہوا، جس میں نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے منیجر ناصر محمود نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہم گلوبل فنڈز سے گرانٹ حاصل کرتے ہیں، اور پھر صوبوں کو دیتے ہیں، ہم نیشنل ٹی بی پروگرام،ایڈز پروگرام اور ملیریاپروگرام کو ملاکر ایک مشترکہ پروگرام بنارہے ہیں۔ ٹی بی سے زیادہ متاثر30ملکوں میں پاکستان کا نمبر پانچواں ہے، پاکستان ہر سال 5لاکھ 18ہزار ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جن میں سے 3لاکھ 66ہزار مریض رجسٹرڈ ہوتے ہیں جبکہ 1لاکھ 54ہزار مریض رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔ 93فی صد مرض کا علاج کامیاب ہوتا ہے، گلوبل فنڈ کے تحت ملک بھر میں ٹی بی پروگرام کے کل 12سو ملازمین کو تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اس وقت ملک میں 13سو ٹی بی کنٹرول سینٹر موجود ہیں۔ جہاں ٹی بی چیک کرنے کے لیے 174میشنیں موجود ہیں جبکہ جون 2018میں 412 مزید مشینیں ملک کے ہر ضلع میں پہنچ جائیں گی۔سینیٹراشوک کمار نے کہا کہ جن 2سو لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے اس سے بے رورزگاری بڑھے گی، اس معاملے پر کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے، ناصر محمود نے کہا کہ اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا،اس بارے میں وزارت اور نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام مل کر فیصلہ کریں گے۔ ہم نے بلوچستان کو موبائل یونٹ فراہم کرنے کے حوالے سے انڈس ہسپتال کو خط لکھا ہے جسکے جواب می انہوں نے کہا کہ 2018-20 تک بلوچستان میں موبائل وینز مہیا کردی جائیں گی۔ ناصر محمود نے کہا کہ ہمیں گلوبل فنڈ سے 143ملین مل رہے ہیں جب کہ ہمیں ٹی بی کے ہر مریض تک پہنچنے کے لیے 3سو ملین درکار ہونگے۔ اس موقع پر مرسی کیور کے حکام کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا ۔ہم نیشنل تی بی کنٹرول پروگرام کی رہنمائی میں کام کررہے ہیں۔ مرسی کیور ملک کے 75اضلاح میں کام کررہی ہے۔ وزارت صحت کے ایڈیشنل سکیرٹری نے کہا کہ اسلام آباد کے حالت بھی تشویش ناک ہے، اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ناصر محمود نے کہا کہ صوبے رہنمائی تو لیتے ہیں لیکن ہدایات نہیں لیتے۔ سینیٹر اشوک کمار نے استفسار کیا کہ اگر گلوبل فنڈ بند ہوجائے تو کیا ہوگا۔ ناصر محمود نے کہا کہ ہماری ڈومیسٹک فنڈنگ کم ہے ہم گلوبل فنڈنگ پر انحصار کررہے ہیں۔ اس موقع پر نیشنل ٹی بی کنڑول پروگرام کے ڈپٹی منیجر نے کہا کہ مرسی کیور آگے دیگر این جی اوز کے ذریعے کام کررہی ہے۔ جس پر سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ مرسی کیور آئندہ اجلاس میں خوشاب اور لسبیلہ میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے آگاہ کرے، مرسی کیور نے آگے دیگر این جی اوز کو ٹھیکے دیے ہوئے ہیں اس کی آڈٹ رپورٹ کمیٹی کو فراہم کی جائے۔ اس موقع پر وزارت صحت کی ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ ناصر محمود ہمارے نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے منیجر ہیں ان کے تبادلے کے حوالے سے ہمیں آفیشلی طورپر کچھ نہیں پتہ صرف واٹس ایپ ملا ہے، ان کی ڈپوٹیشن کی مدت ڈیڑ ھ سال مزید رہتی ہے۔ اس موقع پر سینیٹر اشوک کمار نے استفسار کیا کہ ڈاکٹر کرم شاہ کون ہیں۔ان کو کس نے رکھا ہے، جس پر وزارت صحت کے ایڈیشنل سیکرٹری نے لاعلمی کا اظہار کردیا۔ تاہم دیگر حکام کی جانب سے بتایاگیا کہ کرم شاہ کنسلٹنٹ ہیں جنہیں گلوبل فنڈ نے رکھا ہے، کمیٹی نے اگلے اجلاس میں گلوبل فنڈ انڈس ہسپتال اورمرسی کیور کی آڈٹ رپورٹ طلب کرلی۔(خ ف228ع ا)