سینیٹ میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حمایت
اسلام آباد(ملت آن لائن) سینیٹ میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں قانون بنانے اور شفاف نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جبکہ وفاقی وزیر قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے لئے نظام وضع کرنے کے سلسلے میں اپریل تک کا وقت دیا ہے، اس نظام کے حوالے سے کئی طرح کے مسائل اور خدشات درپیش ہیں جن کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر اعظم سواتی نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان حکومت کی جانب سے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے ضمن میں اب تک کئے گئے اقدامات کو زیر بحث لائے۔ اپنی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے‘ الیکشن کمیشن اس حوالے سے کام کرے۔ تاج حیدر نے کہا کہ ہمارے انتخابات میں بیرون ملک پاکستانی رائے نہیں دے سکتے، ان کو حق ملنا چاہیے۔ نادرا کے پاس لسٹیں تیار ہیں ان کو حق رائے دہی دیا جائے۔ سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے بھی سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حمایت کی۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ سمندر پار 8 سے 9 ملین پاکستانی ہیں جن کو ان کا حق دینے کی ضرورت ہے۔ پوسٹل ووٹنگ کے حق کے لئے حکومت کام کر رہی ہے اس کے کچھ مراحل میں ہیں۔ جن میں ووٹوں کی رجسٹریشن‘ ووٹ ڈالنے کا طریقہ کار اور گنتی کا شفاف نظام شامل ہیں۔ اس سلسلے میں شفاف نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر صالح شاہ نے بھی سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی حمایت کی۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ ووٹنگ کا شفاف نظام بنایا جائے تاکہ سمندر پار پاکستانی اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ ریفرنڈم میں اس کے لئے انتظامات کرلئے جاتے ہیں تو ووٹنگ کے لئے کیوں نہیں۔ سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ سب ارکان اس تحریک کی حمایت کریں۔ سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ سمندر پار پاکستانیوں کو ان کا حق ملنا چاہیے۔ سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ بہت سے ملکوں میں مقیم پاکستانی پاکستان کی شہریت نہیں رکھ سکتے۔ اس مسئلے کے قانونی پہلوؤں کو بھی دیکھا جائے۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ ووٹ سمندر پار پاکستانیوں کا بنیادی حق ہے۔ ان میں زیادہ تعداد پختونوں کی ہے۔ تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے کہا کہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ارکان نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ قابل ستائش ہیں لیکن اصل معاملہ اس کام کے لئے طریقہ کار وضع کرنے کا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو یہ حق کس طرح دیا جائے اس پر غور کی ضرورت ہے۔ ایسا ملک جہاں دھرنے ہوتے ہیں اور مسائل پیدا ہوتے ہیں وہاں یہ آسان کام نہیں۔ اور کئی طرح کے خدشات ہیں۔ ہر حلقے سے امیدواروں کو الیکٹرانک ووٹ دینے والوں کی بھی اگر ایک تعداد ہوگی تو دھاندلی جس کے حوالے سے پہلے بھی سوال اٹھتے ہیں اس حوالے سے اور سوال اٹھیں گے۔ ان کو دیکھنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اپریل تک کا وقت دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے نظام وضع کرے۔ اس بات پر بھی غور کیا جائے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے لئے کتنا بجٹ درکار ہوگا اور کس طرح ایکوائر کی جائیں گی۔ کہیں کل یہ الزام نہ اٹھے کہ ان میں بھی پیسے کھائے گئے ہیں۔ سسٹم ہیک ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ پھر بیرون ملک بھی پارٹیوں کی شاخیں بنیں گی اور کتنی جماعتیں یہ افورڈ کر سکتی ہیں۔ ہمیں معاملات میں الجھنے کی بجائے ان کو سلجھانا چاہیے۔ پوسٹل بیلٹ بھی بھیجے جاسکتے ہیں، اس میں بھی ایشوز ہیں۔