اسلام آباد (ملت + آئی این پی) قومی اسمبلی نے ملک کے ہر ضلع میں خواتین یونیورسٹی قائم کرنے کی قرار داد اتفاق رائے سے منظور کر لی‘ وزیر مملکت برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ملک کے ہرضلع میں ایک یونیورسٹی یا یونیورسٹی کیمپس قائم کرنے کی منصوبہ بندی تیار کر لی ہے جس پر مرحلہ وار عمل کیا جائے گا ‘ (ن) لیگ کی حکومت نے پورے ملک میں تعلیم کا بجٹ 8 سو ارب تک بڑھا دیا ہے۔ 2013ء میں تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا 1.9 فیصد تھا جو (ن) لیگ کے دور میں بڑھ کر 2.8 فیصد ہو گیا ہے۔ ایچ ای سی کے لئے 2013 میں 41 ارب روپے مختص کئے گئے تھے جو بڑھا کر 2017ء میں 91 ارب کر دیا گیا ہے۔ 2013ء میں 67 لاکھ طلبہ پرائمری کی سطح پر سکولوں سے باہر تھے۔ 2017ء میں سکول نہ جانے والے ان بچوں کی تعداد کم ہو کر 50 لاکھ رہ گئی ہے۔ منگل کو ایوان میں نجی کارروائی کے روز (ن) لیگ کی شکیلہ لقمان نے ملک کے ہر ضلع میں خواتین یونیورسٹی قائم کرنے کی قرار داد پیش کی جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ قرار داد پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت تعلیم بلیغ الرحمن نے کہا کہ تعلیم پر سیر حاصل بحث ارکان اسمبلی اس شعبے سے دلچسپی ظاہر کرتی ہے۔ ہر ضلع میں خواتین یونیورسٹی کا قیام ممکن نہیں ہے۔ بعض علاقوں میں روایات کی وجہ سے لوگ مخلوط تعلیم کی وجہ سے بچیوں کو یونیورسٹی میں نہیں بھیجتے ۔ پہلی خواتین یونیورسٹی (ن) لیگ نے راولپنڈی میں قائم کی تھی۔ اب پورے ملک میں 15 وومن یونیورسٹیاں ہیں۔ پنجاب میں 8 وومن یونیورسٹیاں بنائی گئی ہیں ۔ پنجاب حکومت نے ملتان اور بہاولپور میں بھی وومن یونیورسٹی قائم کی ہے۔ پشاور اور کوئٹہ میں بھی وومن یونیورسٹی موجود ہے۔ ان یونیورسٹیوں کے مختلف علاقوں میں مزید کیمپس بھی قائم کئے جا رہے ہیں۔ ایچ ای سی نے ایک منصوبہ بنایا ہے کہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی یا ایک یونیورسٹی کیمپس قائم کیا جائے۔ اس کے لئے فنڈنگ کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔ 2017ء میں تعلیم کے لئے پورے ملک میں 8 سو ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ تعلیم پر خرچ کی شرح 1.9 فیصد سے 2.8 فیصد ہو گئی ہے۔ ایچ ای سی کا یونیورسٹیوں کے لئے بجٹ 91 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ 2013ء میں صرف 41 ارب روپے تھا۔ تحقیق کیلئے بھی بجٹ بڑھایا جا رہا ہے۔ وومن یونیورسٹیوں کے قیام کو بڑھایا جا رہا ہے۔ ایچ ای سی آئین کے دائرے میں کام کر رہا ہے۔ ایچ ای سی کے کردار بارے معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں غور کیا جا رہا ہے۔ سندھ اور پنجاب نے اپنے ایچ ای سی صوبائی سطح پرقائم کئے ہیں۔ 1999ء میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 2.6 فیصد خرچ کیا جا رہا ہے جو کم ہو کر 20913ء میں صرف 1.9 رہ گیا تھا۔ موجودہ حکومت نے اسے بڑھا کر پھر 2.9 فیصد کر دیا ہے۔ گزشتہ 3 سال میں سروے کے مطابق تعلیم کا معیار بلند ہوا ہے۔ 5 فیصد طلباء سرکاری سکولوں میں آتے ہیں۔ 2013ء میں 67 لاکھ بچے پرائمری میں سکولوں سے باہر تھے۔ 2017ء میں یہ تعداد کم ہو کر 50 لاکھ رہ گئی ہے۔ جو 26 فیصد بنتی ہے۔ 42 لاکھ بچے نئے ‘ بے سکولوں میں گئے ہیں۔ ہم قرار داد کی حمایت کرتے ہیں۔ رینکنگ میں ایشیاء کی ٹاپ 300 یونیورسٹیوں میں پاکستان کی 10 فیصد یونیورسٹیاں آ گئی ہیں۔ ٹاپ 50 میں سے 3 یونیورسٹیاں آ گئی ہیں۔ سردار منصب علی ڈوگر نے کہا کہ پاکپتن میں بابا فرید الدین کے نام سے یونیورسٹی قائم کی جائے۔ پی ٹی اے کے حامد الحق نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے۔ ایچ ای سی کی حالت بھی خراب ہے۔ تعلیمی اداروں کو کاروبار بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری ادارے تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہاکہ تعلیم ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مالاکنڈ میں خواتین کی یونیورسٹی نہیں ہے۔ سرمایہ کے بغیر حصول تعلیم ناممکن ہو گیا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کیا جا رہا۔ ۔۔۔(رانا228ع ع)
خبرنامہ
قومی اسمبلی نے ملک کے ہر ضلع میں خواتین یونیورسٹی قائم کرنے کی قرار داد اتفاق رائے سے منظور کر لی
