خبرنامہ

قومی ہیلتھ وژن 2016ء تا 2025ء صحت کے شعبے میں قومی امنگوں کا ترجمان ہے

قومی ہیلتھ وژن

قومی ہیلتھ وژن 2016ء تا 2025ء صحت کے شعبے میں قومی امنگوں کا ترجمان ہے

اسلام آباد:(ملت آن لائن) وزارت صحت نے صوبائی حکومتوں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر قومی ہیلتھ وژن 2016ء تا 2025ء کی کامیابی سے تشکیل کی جو صحت کے شعبے میں قومی امنگوں کی ترجمان ہے۔ وزیر قومی صحت سائرہ افضل تارڑ کی سربراہی میں وزارت مئی 2013ء میں قائم ہوئی اور چار سال کا عرصہ گزرنے کے بعد صحت کے شعبے میں جو وفاقی حکومت کا مینڈیٹ تھا، اس کے مطابق کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ ابتدائی طور پر سب سے اہم قدم اس نئی وفاقی وزارت اور صوبوں کے درمیان فرائض و ذمہ داریوں کا تعین کرنا اور اہداف و سمت کا تعین کرنا تاکہ مطلوبہ وسائل کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے، لہٰذا وزارت صحت نے کامیابی سے صوبائی حکومتوں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر قومی ہیلتھ وژن 2016ء تا 2025ء کی تشکیل کی جو صحت کے شعبے میں قومی امنگوں کی ترجمان ہے۔ وزارت قومی صحت کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے جدید خطوط پر استوار کیا گیا اور اس کی آئی ایس او سرٹیفکیشن کروائی گئی جو ایک مثال ہے۔ وزارت صحت کے ذرائع نے کہا کہ ایک بڑا چیلنج جو وزارت صحت کو ورثے میں ملا وہ پولیوہے جو ملک میں ایک وبائی صورت اختیار کر گیا تھا۔ پاکستانی بچے سینکڑوں کی تعداد میں اس بیماری سے معذور ہو رہے تھے اور یہ امر دنیا بھر میں ہماری رسوائی کا باعث بن چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کی قیادت میں ہم نے ایک قومی ٹاسک فورس تشکیل دی اور اس چیلنج سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ چاہے وہ بچوں اور علاقوں تک رسائی کا مسئلہ ہو، سیکورٹی کے چیلنجز ہوں، مانیٹرنگ کا معاملہ ہو یا پروگرام کے لیے فنڈز کی بلاتعطل فراہمی کا مسئلہ ہو، وزیر قومی صحت سائرہ افضل تارڑ کی سربراہی میں ان تمام مسائل پر مضبوط فیصلہ سازی اور حکمت عملی کے ذریعے قابو پایا اور آج نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب ہم نے کام شروع کیا تو ملک میں پولیو کے 306 کیسز موجود تھے جبکہ گذشتہ سال پولیو مہم کی تاریخ کے سب سے کم کیسز یعنی 20 کیسز رپورٹ ہوئے۔ رواں سال آدھا گذر چکا اور اب تک صرف 2 کیسز ملک بھر میں سامنے آئے، یہ وزارت صحت کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ماں اور بچے کی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام کو بہتر بنانا ہماری ترجیحات میں شامل تھا۔ ویکسین منیجمنٹ کے معیاری نظام کی عدم موجودگی میں ویکسین کے ضائع ہونے، آگ لگنے کے واقعات اور کولڈ چین کا خستہ حال نظام ایک بڑا چیلنج تھا۔ ای پی آئی پروگرام صرف 54 فیصد بچوں تک رسائی حاصل کر رہا تھا جو ایک تشویشناک صورتحال تھی۔ اس صورت میں ملکی وسائل کا ضیاع ہو رہا تھا۔ وزارت نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ایک جامع حکمت عملی کے تحت عالمی معیار کے مطابق وی ایل ایم آئی ایس ویکسین منیجمنٹ کا نظام متعارف کرایا۔ ای پی آئی بچوں تک رسائی کو بہتر بنایا گیا اور اس میں 15 سے 20 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے جس کا اعتراف پلڈاٹ کی کارکردگی رپورٹ میں کیا گیا۔ ایک اہم قدم تاریخ میں پہلی بار ای پی آئی ویکسین کے سٹوریج اور سپلائی کے نظام کی عالمی معیار کے مطابق آئی ایس او سرٹیفکیشن تھی جسے ایک قلیل عرصے میں مکمل کیا گیا۔ وزارت کی اس کاوش کو ’’گلوبل الائنس فار ویکسینز اینڈ امینیونائزیشن‘‘ (جی اے وی آئی) نے بے حد سراہا۔ ویکسین کے حصول میں خصوصی حکمت عملی کے ذریعے صرف ایک ویکسین یعنی ’’پینٹاویلنٹ‘‘ جو پانچ بیماریوں کے لیے کارگر ہے، کی خریداری میں قومی خزانے کی 1.8 بلین کی بچت کی گئی جو ایک مثال ہے۔ صوبوں کو ای پی آئی پروگرام کو مضبوط بنانے کے لیے فنڈز کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔ اس سلسلے میں ورلڈ بنک، صوبائی حکومتوں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں 180 ملین امریکی ڈالر حاصل کئے گئے جس سے یہ پروگرام مستحکم ہوگا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ای پی آئی پروگرام کے تحت بچوں کے لیے نمونیا، روٹا وائرس( ڈائریا) اور پولیو ویکسین کی مفت فراہمی کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان کی حفاظتی ٹیکہ جات کی اصلاحات کو عالمی ادارہ جی اے وی آئی نے بے حد سراہا اور پاکستان ان 78 ممالک جو جی اے وی آئی سے امداد حاصل کرتے ہیں، میں واحد ملک ہے جس کی عالمی فورم پر ستائش کی گئی۔ وزارت صحت کے ذرائع نے کہا کہ پاکستان نرسنگ کونسل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اور عالمی معیار کے مطابق چلانے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی گئیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک پی ایچ ڈی نرس کو ایک شفاف طریقہ کار کے مطا بق منتخب کیا گیا۔ رجسٹریشن کے انتہائی خستہ اور پیچیدہ نظام کو ختم کر کے اسے جدید ترین بنیادوں پر استوار کیا گیا اور آن لائن رجسٹریشن کا نظام قائم کیا گیا۔ اس کے علاوہ رجسٹریشن کارڈز کے ایک دن میں اجراء کا نظام متعارف کرایا گیا۔ پاکستان فارمیسی کونسل میں اصلاحات کی گئیں جس کے تحت نئی کونسل کی تشکیل کی گئی اور ایک شفاف طریقہ کار کے مطابق انسپیکشن پروفارما کے ذریعے کالجز/سکولوں کو تسلیم شدہ کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ پی ایم ڈی سی تباہ حالی کا شکار تھی جو ادارہ مسیحائی کی تعلیم کی بہتری کے لیے ذمہ دار تھا، وہ سیاست اور مفاد پرستی میں گھرِا ہوا تھا۔ آئے روز قومی ذرائع ابلاغ میں اس ادارے کے حوالے سے نت نئے سکینڈلز سامنے آ رہے تھے جس سے ہمیں بھرپور رہنمائی حاصل ہوئی۔ وزارت نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے نیا قانون متعارف کرایا جس کے ذریعے شفاف الیکشن کرائے گئے اور نئی کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ تاریخ میں پہلی بار مفادات کا ٹکراؤ جو کہ کونسل کی تباہ حالی میں ایک بنیادی معاملہ تھا، سے نمٹنے کے لیے خصوصی اقدامات کئے تاکہ کونسل کو اس مسئلے سے پاک کیا جائے۔ بین الاقوامی طور پر رائج طریقہ کار کے مطابق کونسل میں آزاد ماہرین کو شامل کیا گیا۔ حال ہی میں پاکستان کو عالمی ادارہ صحت کے اعلیٰ ترین پالیسی ساز ادارہ ایگزیکٹو بورڈ کا چےئرمین منتخب کیا گیا ہے، یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہے اور صحت کے حوالے سے عالمی سطح پر پاکستان کے اہم کردار کا اعتراف ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2015ء میں پاکستان کو جی اے وی آئی بورڈ کا ممبر منتخب کیا گیا۔ پاکستان کو عالمی ادارہ صحت کی علاقائی کانفرنس جس میں 22 ملکوں کے وزرائے صحت نے شرکت کی، کے لیے میزبان ملک کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد اسلام آبادمیں ہوا۔ یہ یقیناً پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ وزارت قومی صحت کے لیے اس مالی سال میں 54.4 بلین کے ترقیاتی فنڈ مختص کئے گئے ہیں جبکہ پچھلے سال یہ فنڈ 30.6 بلین تھے۔ اس سال ترقیاتی بجٹ میں 77 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے جو ترقیاتی پراجیکٹس میں وزارت قومی صحت کی بہتر کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ترقیاتی پراجیکٹس میں پرائم منسٹر نیشنل ہیلتھ پروگرام، پرائم منسٹر پروگرام فار نیو ہاسپٹلز اور نیشنل پریوینٹو ہیلتھ پروگرام شامل ہیں۔