اسلام آباد: (ملت+آئی این پی) سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل گزشتہ سات دہائیوں سے زیر التواء ہے، بھارتی فوج کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے، گزشتہ تین سال میں مسئلہ کشمیر پر درجنوں قراردادیں پیش کی گئیں ،مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی قوانین کو کالا قانون قرار دیا ہے، بھارت کشمیریوں کا قتل عام فوری بند کرے۔وہ کشمیر پر بین الاقوامی سیمینار سے خطاب کررہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کی جانب سے کشمیر کے بارے میں اس بین الاقوامی پارلیمانی سیمینار میں آپ سب کا خیر مقدم کر نا میرے لئے باعث اعزاز ہے ۔میں بالخصوص وزیراعظم پاکستان کا شکرگزار ہوں کہ وہ اس مسئلے پر منعقدہ دو روزہ اجلاس کی افتتاحی تقریب میں رونق افروز ہوئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر یقیناًوزیر اعظم کے دل کے بہت قریب ہے ۔ آپ کی ہمارے درمیان موجودگی یقیناًاس بات کی غمازی کر تی ہے کہ آپ مسئلہ کشمیرمیں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔اور انہیں اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں بر طانیہ ، یورپی یونین اور کینیڈا سے آئے ہوئے اپنے دوستوں سے نیک خواہشات کا بھی اظہار کر تا ہوں۔انہوں نے کہا کہمیں اس موقع پر کر سمس اور سال نو کی بھی مبار کباد پیش کر تا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ہم اپنے مہمان اراکین پینل کی موجودگی کا دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کر تے ہیں جو نیک مقصد کے لئے دور دراز کا سفر کر کے یہاں تشریف لائے ہیں۔وہ مقصد جس کے لئے ایک قوم اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے جد و جہد کر تی رہی ہے ۔وہ وعدہ جو اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین بین الاقوامی فور م سے ان کے ساتھ کیا گیا تھا!۔وہ مقصد جس کے لئے انسانی حقوق کے علمبرداروں اور محافظوں کی عین ناک کے نیچے بھارتی قابض فوجیوں کے ہاتھوں لاکھوں نہتے کشمیریوں کو جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑاہے۔انہوں نے کہا کہآزمائش کی اس گھڑی میں ، مسئلہ کشمیر کے محرکات پر بحث کرنے ور جائزہ لینے کہ آیا اقوام متحدہ اور عالمی براداری نے کشمیریوں کینسل کشی کو روکنے کے لئے کچھ کیا۔ اوگزشتہ سات دہائیوں کے دورا ن میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے مصائب کو سننے کے لئے یہاں آپ کی موجودگی مظلوم کشمیریوں کے ساتھ آپ کی یکجہتی کے اظہار اور امید کا پیغام ہے ۔کشمیر کے دوستوں کے اس ہمدردانہ اظہار کو کشمیری عوام اور پاکستان دونوں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہہمارے درمیان ایسے کشمیری بھی ہیں جو لاکھوں دیگر عوام کے بھارتی مظالم کے ایک طویل عرصے سے گزرے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں کشمیرمیں قابض بھارتی افواج کی جانب سے قتل و غارت گری کی چشم دید تفصیلات سے آگا ہ کر سکتے ہیں ۔ یہ انکے جن کے پیار ے کبھی نہ واپس آنے کے لئے بھارتی سیکیورٹی فورسز کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان ماؤں جن کے بچے بھارتی مظالم کا نشانہ بن گئے کے درد کوبیان کر سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ تمام بین الاقوامی فورموں پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی قومی اسمبلی کی جاری کوششوں کے حصہ کے طور پر اس اہم سمینار کے اہتمام کے لئے نوجوان پارلیمنٹرین کی مخلصانہ کاوش قابل تحسین ہیں۔انہوں نے کہا کہگزشتہ اکتوبر جنیوا میں منعقد ہونے والی بین الپارلیمانی یونین کی جنرل اسمبلی کے سامنے میں نے کشمیریوں کے مصائب پر بات کی ۔انہوں نے کہا کہمیں نے اسلای ممالک کی پارلیمانی یونین ایگزیکٹو کمیٹی کے سامنے بھی بھر پور طریقے سے اس معاملہ کو اٹھایا ، جوکہ گزشتہ سال انقرہ میں منعقد ہو ئی تھی ۔اس کے نتیجے میں ، اس سال جنوری میں مالی میں منعقد ہونے والے اپنے سالانہ اجلاس میں کشمیر پر دو قرار داد یں پیش کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہگزشتہ تین سالوں کے دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر کشمیرپر درجن سے زیادہ قرار دادیں منظور کیں۔جب کہ میں اس بات کا بھی ذکر کر نا چاہوں گا کہ میں نے ذاتی طور پر دنیا کی تمام پارلیمانوں کو خطوط لکھے جن میں ان کی توجہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طر ف سے دلوائی ۔پاکستان کی پارلیمنٹ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جائزجدو جہد میں ان کو تمام اخلاقی اور اصولی حمایت فراہم کرنے پر کار بند ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی ایذا رسانی ، قتل و غارت ، جعلی مقابلوں ، بڑے پیمانے پر زنا بالجبر ، ماورائے عدالت قتل ، نسل کشی اور من مانی گرفتاریوں کے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں ، جو ان کے ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہو جانے پرمتنج ہو ئے ہیں۔انہوں نے کہا کہآپ انسانیت کے خلاف کسی بھی قسم کے جرم کا نام لے سکتے ہیں اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس کا ارتکاب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز نے کشمیریوں پر کیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طر ف سے آبادیاتی تبدیلی لانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔۱۹۴۷ء میں یہاں مسلمانوں کی کل آبادی ۷۹فیصد تھی جو اب کم ہوکر ۶۸ فیصد رہ گئی ہے ۔ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کی جانے والی یہ کمی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے حوالے سے تبدیلی لانے کے لئے کی گئی دیگرتدابیر کا ایک حصہ ہے جو بھارت میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں انجام دیتی رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہمیں نے کئی بار اس نسل کشی کا اظہار کیا ہے ۔ میں نے ایسا اس لئے کہا کیونکہ بھارتی فورسز مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ سات دہائیوں سے جو کچھ کر رہی ہیں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد۲۶۰ الف (سوم) آرٹیکل ۲ کے مطابق نسل کشی کی تعریف پر ہر طرح سے صادق آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کو نسل کشی کے پہلے یورپین کنونشن کی قائم نظیر سے بھی تقویت ملتی ہے ۔جو اگست ۲۰۰۱ ء میں ایک بوسنائی جنرل کے حوالے سے کیا گیا۔۱۹۹۵ء میں اس کی کمانڈ میں فورسز کو ۰۰۰،۸بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کرنے کا ذمہ دار پایا گیا ۔ اس حوالے سے عدالت کے فیصلے کے مطابق بوسنائی سرب فورسز نے سربنیکا کے تمام مر دوں کو قصداً قتل کرناشروع کیا ۔اب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کا موازنہ کریں۔نومبر ، ۱۹۴۷ء مہاراجہ جموں و کشمیر کی فوج نے بھارتی قابض فوج اورہند و دہشت گر د تنظیم ، آر ایس ایس کی مدد سے نسل کشی کر تے ہوئے پانچ لاکھ سے زائد کشمیر یوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔اس وقت سے کشمیری ہر سال ۶؍ نومبر کو ’’ یو م شہداء ‘‘ کے طور پر مناتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت سے لے کر اب تک متواتر نسل کشی کے ذریعے مزید دس لاکھ افراد کو قتل کیا گیا ہے ۔ ۱۹۹۰ ء سے ۲۰۱۶ء کے دوران ریکارڈ کے مطابق بھارتی افواج نے ۱۸ سے زائد مر تبہ قتل عام کا ارتکاب کیا اور ہر مر تبہ سینکڑوں کشمیریوں کو ہلاک کیا گیا ۔ ان سالوں کے دورا ن حراست میں لئے جانے والے ہزاروں افراد لاپتہ ہو گئے ۔ ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں البتہ سال ۲۰۰۹ کے دوران کئی ہزار بے نشان اور بے نام اجتماعی قبروں میں سے چند منظر عام پر آئیں ہیں جن سے ۶۷۰۰ کشمیریوں کا پتہ لگایا گیا جن کو تشدد کے بعد قتل کر کے دفن کیا گیا۔سال ۲۰۰۹ ء میں انسانی حقوق کے سر گرم کا رکنوں ، پر ویزا مروز ، پرو یز خرم اور ان کے دوستوں نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں بے نام اور بے نشان اجتماعی قبروں کا پتہ چلایا۔بھارتی مقبوضہ کشمیر کی انٹر نیشنل پیپلز ٹریبونل نامی این جی او نے نومبر ، ۲۰۰۹ء میں ’’ دفن ثبوت ‘‘ کے نام سے ۱۱۲صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ شائع کی ۔اس رپورٹ نے بھارتی ظلم و ستم کو بے نقاب کیا ہے ۔ اس رپورٹ نے بھارت کے اس جھوٹ کو بے نقاب کیا ہے کہ کنٹرول لائن کے پار سے درا ندازی ہو رہی ہے مزید یہ کہ اس حقیقت کو بھی بے نقاب کیا کہ بھارتی افواج مقامی کشمیر یوں کو غیر ملکی در انداز قرار دے کر جعلی مقابلوں میں قتل کرر ہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیاق و سباق کے حوالے میں یہاں پر ، آئی پی ٹی کے کئی ایک نتائج میں سے صرف دو کا ذکر کر تا ہوں۔انہوں نے کہا کہٹر بیونل نے ۵۰ مقدمات کی تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ سوائے ایک کے باقی ۴۹ جعلی مقابلوں میں مارئے گئے ۔انہوں نے کہا کہٹر بیونل اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ رپورٹ ہو نے والی ۸۰۰۰ سے زیادہ جبری گمشدگیاں ، جعلی مقابلے اور بے نام و نشان ہر ایک اجتماعی قبر میں لا تعداد لاشوں کا آپس میں تعلق ہے ۔انہوں نے کہا کہیہ نتائج مجھے بر طانوی مؤرخ ولیم ڈال رمپل William Dalrymple’s) ( کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کئی گئی تحقیقات کی یاد دلا رہے ہیں کے ۔ایل او سی کو عبور کرنے کی بار ہا بیان کی جانے والی بے بنیاد کہانی بھارتی پروپیگنڈے کا حصہ ہے تا کہ حق خو د ارادیت کی مقامی تحریک کو دہشت گر دی کے طور پر پیش کیا جائے ۔ اس بے بنیاد دعوے کو اسلامی ممالک کی تنظیم کی جانب سے استنبول میں او آئی سی کے تیرہویں سربراہی اجلاس کے حتمی اعلامیے میں مسترد کیا گیاہے ۔انہوں نے کہا کہبحیثیت مجموعی بین الاقومی برادری نے بھی بھارتی دعوے سے اتفاق نہیں کیا ۔میں اس بات کو واضح کر نا چاہتا ہوں کہ انسانی حقوق کی خلاف ور زیوں کے ٹریک ریکارڈ کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنی زمین پر دہشت گر دی کے جعلی حملے کر و ا کے دوسروں پر الزام لگانے میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں ان کے اپنے انسپکٹر جنرل پولیس مہاراشٹر نے اپنی کتاب بعنوان’ Who Killed Karkare?‘میں ایسے بے شمار دہشت گر دی کے حملوں کی فہرست درج کی ہے ۔ یہ کتاب کافی حد تک ثابت کر تی ہے کہ کیسے بھارت ’ جعلی فلیگ آپریشنز ‘ میں شامل رہا ہے ۔ یہ خفیہ آپریشن ہیں جو اس انداز سے دھوکہ دینے کے لئے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ یہ آپریشن ایسے دکھائی دیں کے گویا انہیں ادارے ، گروہ یا قومیں سر انجام دے رہی ہیں بجا ئے اُن کے جنہوں نے در اضل ان کی منصوبہ بندی کی اور مکمل کیا۔بھارت دہشت گرد ی کا شکار ہونے کا دعوی کر تا ہے ۔ اسے اس پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور یہ حقیقیت بھی ہے کہ پاکستان میں تخریب کاری ، دہشت گر دی کی سر گرمیوں کی معاونت اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے دہشت گردوں کی مالی معاونت میں بھارتی ریاستی عناصر کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت موجودہیں ۔یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ بھارت افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گر دوں کی سر گرمیوں کے لئے بھی استعمال کر تا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سال ۸؍ جولائی کو نوجوان کشمیری رہنما بر ہان مظفر وانی کے ماورائے عدالت قتل کے تناظر میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہنگامیوں کی حالیہ لہر دنیا کے لئے یاد دہانی ہے کہ دنیا کا سب سے سنگین مسئلہ حل نہیں کیا گیا ہے ۔۹؍جولائی کے بعد جو کچھ ہو ا وہ انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں کی دل دہلادینے والی کہانیوں کی یاد دلاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہظالمانہ ترین اقدمات ، سینکڑوں افراد کو ہلاک کرنے کے علاوہ کشمیری نوجوانوں ، بشمول بچوں کو پیلٹ گنوں کا نشانہ بنا کر نابینابنایا ہے ۔ چھ ہزار سے زائد کشمیری پیلٹ گنوں کا نشانہ بن چکے ہیں اوربھارتی افواج کی سفاکی ایک پوری نسل کو نا بینا کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہیہ انسانیت سوز مظالم نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ آزاد ادنہ تحقیقات اوربھارت سے وضاحت طلب کر نے کا جواز فراہم کر تے ہیں ۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کے ذریعے کشمیر یوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر ہار ہے۔ بھارت نے گزشتہ سالو ں کے دوران اپنی قابض افواج کو لامحدود اختیارات اور قانونی احتساب سے استثنیٰ دینے کے لئے متعد د کالے قوانین نافذ کیے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کئی دن اور راتیں لگ سکتی ہیں اگر کوئی کشمیر میں انسانیت پر ہونے والے جرائم کی مکمل داستان رقم کر ے جو کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نے کیے ہیں ۔یہ بد قسمتی ہے کہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ور زی پر انسانی حقوق کے تحفظ کے حامیوں اور علمبرداروں نے بین الاقوامی فورمز یا اقوام متحدہ میں بھارت کی مذمت نہیں کی ہے ۔بھارت نے یو این ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق،او آئی سی ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پارلیمنٹرنیز ، ای یو اور اسٹریلیا ، کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں آزادانہ تحقیقات کے سوال کو مسترد کر دیا ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھارت کیا چھپانا چاہتا ہے اور انسانی حقوق کے لئے بلند ہونے والی آوازوں پر بھارت کی مذمت سے کیا ہو تا ہے ؟۔یہ ہم سب کے لئے باعث تشویش ہونا چاہیے کہ انسانی حقوق پر اقتصادی اور اسٹراٹیجک مفادات کو زیادہ اہمیت دی جائے !۔میں نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو اجاگر کیا ہے جو کہ ملک کا خراب ترین پہلو ہے جو ایک ایسے ملک کا خراب ترین پہلوہے جو خود کو جمہوری قرار دے رہا ہے ۔میری یہ خواہش ہے کہ میں صدمے سے دو چار مسئلہ کشمیر کی اہمیت ظاہر کر وں جو کہ تمام علاقے اور اس کے پار تحفظ و استحکام کا حامل ہے ۔مسلہ کشمیر خطے کے امن و استحکام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے طور پر رہا ہے او ر یہ دو ملکوں کے درمیان جنگوں کی وجہ رہا ہے ۔ خطے میں جو دنیا کی انتہائی غریب آبادی پر مشتمل ہے۔ بھارت اور پاکستان اپنے وسائل کا ایک بڑا حصہ دفاعی سازوسامان کی خریداری پر خر چ کر رہے اور مہلک فوجی سازو سامان در آمد کرنے والا دنیا کا دوسر بڑاملک ہے ۔ یہی تشویش کی اصل معاملات ہیں جن پر روشنی ڈالنا اس سیمینا ر کے انعقاد کے مقاصد میں شامل ہے ۔ پینل کے سطح پر غوروخوض کے لئے جن تین موضوعات کا انتخاب کیا گیا ان کا مقصد کشمیر کے تنازعہ پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالنا ہے اور ا میں نے اُن کا مختصر اً ذکر کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جب پینل کے معزز اراکین اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لیں گے تو ان پر اس کا انکشاف ہو گا کہ تنازعہ کشمیر اس علاقے کی سیکیورٹی اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر منفی معاشرتی و معاشی اثرات کا حامل ہے مزید یہ کہ اس تنازعہ کے موجود رہنے سے لوگوں کا بین الاقوامی اداروں پر اعتماد بھی متزلزل ہو گا۔دو روز کے لئے ایک جگہ پر جمع ہونے کا یہ مقصد صرف یہ نہیں کے تنازعہ کشمیر کہ مختلف پہلو ؤں پر غوروخوض کیا جائے بلکہ اس کے پائیدار حل کے لئے کچھ کر نا ہو گا اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ کشمیریوں کے قتل عام کو فوری طور پر بند کرایا جائے۔بھارتی درندگی کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے ، وہ جو کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے ذمہ داران ہیں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے نیز بڑا اور پر خطر منڈلاتا ہوا بحران جو کہ مکمل طو ر پر بھارت کر رہا ہے ، کو روکنے کی ضرورت ہے ۔میں اس خواہش کے ساتھ بات کا اختتام کر تا ہوں کہ ان تین موضوعات پر بہت مفیدبحث و مباحثہ ہو گا اور توقع کر تا ہوں کشمیریوں کی اپنے اگلے اقدامات پر رہنمائی کی جائے گی ۔آپ کا تعاون اس طویل المدتی تنازعہ کے پرامن حل میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہو گا۔
خبرنامہ
مسئلہ کشمیر کا حل گزشتہ سات دہائیوں سے زیر التوا؛ ایاز
