نظام عدل کی مکمل بحالی کیلئے میگا اصلاحات کی ضرورت ہے،طلال چوہدری
کراچی(ٹی وی رپورٹ)وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ نظام میں اصلاحات اور کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے،عدلیہ پر جو تنقید ہورہی ہے دیکھنا ہوگا وہ جائز ہے یاناجائز ، عدلیہ آزادی کی جدوجہد چند ججوں کیلئے نہیں لوگوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے کی،نظام عدل کی مکمل بحالی کیلئے میگا اصلاحات کی ضرورت ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں سابق کرکٹر شعیب اختر،سماجی کارکن و گلوکار شہزاد رائے،گلوکار و سماجی کارکن جواد احمد اور سماجی کارکن و گلوکارہ حدیقہ کیانی سے بھی گفتگو کی گئی۔سابق کرکٹر شعیب اخترنے کہا کہ بچوں کا جنسی استحصال روکنے کے بجائے آپس میں پوائنٹ اسکورنگ کی جارہی ہے۔شہزاد رائے نے کہا کہ پاکستان میں ہر پانچویں بچے کو جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حدیقہ کیانی نے کہا کہ ہر طبقہ فکر کے افراد ریپ کلچر کا حصہ ہیں،بچوں اور بچیوں کو بہتر انسان بننے کی تربیت دینا ہوگی،بچوں کا استحصال مرد کررہا ہے ہمیں اس مرد کو بچپن سے تعلیم دینا ہوگی،کئی مرتبہ پڑھے لکھے افراد بھی ایسے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔جواد احمدنے کہا کہ بچوں کا جنسی استحصال روکنے کیلئے طویل المدتی اقدامات کرنا ہوں گے،تیسری دنیا کے ممالک میں بچوں کا بہت زیادہ جنسی استحصال ہوتا ہے لیکن واقعات رپورٹ نہیں ہوتے،جنسی ہراساں کرنے کے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں ہوتے ہیں۔وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا تمام مسائل حل ہوگئے ہیں، نظام میں اصلاحات اور کارکردگی بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جمہوریت میں ووٹر کارکردگی نہ دکھانے والوں کو ووٹ کی طاقت سے باہر پھینک دیتے ہیں،جب یہاں جمہوریت نہیں تھی تو پوری دنیا ہم پر لعنت بھیجتی رہی، چند آمر پوری قوم کیلئے کلنک کاٹیکہ بنے رہے ہیں، ان آمروں کی وجہ سے پاکستان کے مسائل کم نہیں ہوئے،بڑھے ہیں، عدلیہ پر جو تنقید ہورہی ہے دیکھنا ہوگا وہ جائز ہے یا ناجائز، کیا پاکستان میں لوگوں کوا نصاف مل رہا ہے، کیا لوگوں کے عدالتوں میں مسائل ختم ہوگئے ہیں، ہم نے عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد چند ججوں کیلئے نہیں لوگوں کو انصاف کی فراہمی کیلئے کی، ہم عدالتی نظام میں اصلاحات کرنا چاہتے ہیں، یہاں صرف ن لیگ یا نواز شریف کا نہیں ملک کا نقصان ہوا ہے، پاناما فیصلے سے پاکستان کا امیج متاثر ہوا ہے، ایک کلرک کو جس طرح نہیں نکالا جاسکتا ویسے ایک وزیراعظم کو نکال دیا گیا، نظام عدل کی مکمل بحالی کیلئے میگا اصلاحات کی ضرورت ہے۔سابق کرکٹر شعیب اخترنے کہا کہ ہم لوگ اندوہناک واقعات کے بعد انہیں روکنے کیلئے اقدامات کا سوچتے ہیں، کیا ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے زینب کا مرنا ضروری تھا، ہمارے ادارے پہلے سے اقدامات کیوں نہیں کرتے ہیں، بچوں کا جنسی استحصال روکنے کے بجائے آپس میں پوائنٹ اسکورنگ کی جارہی ہے، ہمارے کلچر میں چھوٹے اور بڑے حساس معاملات پر بات نہیں کرسکتے ہیں، میڈیا بھی بچوں اور والدین کو تربیت و آگاہی دینے کا موثر ذریعہ ہے۔ سماجی کارکن و گلوکار شہزاد رائے نے کہا کہ بچوں سے زیادتی کے مرتکب درندوں کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے، ہم اتنے بچوں کے ساتھ زیادتی کے باوجود بحث کا رخ درست سمت میں کرنے کو تیار نہیں ہیں،اس میں سب سے اہم ماں باپ اور بچوں کی ٹریننگ کی ضرورت ہے، پاکستان میں ہر پانچویں بچے کو جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچوں سے زیادتی کے واقعات میں زیادہ تر جاننے والےملوث ہوتے ہیں، بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ کمیونیکیشن بیریئر توڑنا ہوگا، ہمیں بچوں کو کسی غلطی پرمارنا نہیں چاہئے ورنہ وہ آپ سے باتیں چھپانا شروع کردیتے ہیں۔سماجی کارکن و گلوکارہ حدیقہ کیانی نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں ہر طبقہ فکر کے افراد ریپ کلچر کا حصہ ہیں، جسٹس فار زینب کیلئے نکلنے والے ہزاروں لوگوں میں کیا وہ لوگ شامل نہیں جو خود اس چیز کا حصہ ہیں،عریانیت بھی ہمارے معاشرے کے لئے ٹھیک نہیں ہے، کئی فنکاروں نے بھی اپنے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات کا ذکر کیاہے، ہمیں بچوں کے ساتھ والدین اور نوجوان کو بھی اس حوالے سے تعلیم دینا ہوگی، جس بچے کے ساتھ جنسی استحصال ہوتا ہے وہ یہ نہ سوچے کہ اسے ہر کسی کو یہ بات بتانی ہے، متاثرہ بچے کو بتایاجائے کہ ایسے واقعہ کو صرف اپنے والدین ،بہن بھائیوں یاایسے قابل اعتماد شخص کو بتایا جائے جو اس کا غلط استعمال نہ کرے، ہمیں بچوں کوبتاناہوگا کہ اسے نہ صرف اپنی باڈی بلکہ دوسرے انسان کی باڈی کابھی احترام کرنا ہے،بچوں کے ساتھ زیادتی کے اکثر واقعات میں مجرم کااپنے بچپن میں جنسی استحصال ہوچکا ہوتا ہے،ہمیں اپنے بچوں اور بچیوں کو بہتر انسان بننے کی تربیت دینا ہوگی کہ وہ اپنی اقدار کا احترام کریں، بچوں کا استحصال مرد کررہا ہے ہمیں اس مرد کو بچپن سے تعلیم دینا ہوگی، کئی مرتبہ پڑھے لکھے افراد بھی ایسے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ گلوکار ،سماجی کارکن اور چیئرمین برابری پارٹی جواد احمدنے کہا کہ بچوں کا جنسی استحصال روکنے کیلئے طویل المدتی اقدامات کرنا ہوں گے، اس کیلئے ایک مختصر مدتی حل مجرموں کو سخت ترین سزائیں دینا ہے تاکہ لوگوں میں کم از کم خوف پیدا ہو، اسکولوں میں بچوں کو آگہی دینا بھی حل کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، پاکستان میں تین کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے ہیں، تیسری دنیا کے ممالک میں بچوں کا بہت زیادہ جنسی استحصال ہوتا ہے لیکن واقعات رپورٹ نہیں ہوتے، بڑھتی ہوئی فحاشی اور عریانیت کی وجہ سے بھی اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، انٹرنیٹ پر قابل اعتراض مواد روکنے کیلئے بھی کاروائی کرنا ہوگی، جنسی ہراساں کرنے کے زیادہ تر واقعات دیہی علاقوں میں ہوتے ہیں۔میزبان حامد میر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکمران اور اہل سیاست معصوم بچوں پرزیادتی کے واقعات کی روک تھام کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف لڑائیوں میں مصروف ہیں، ان واقعات کی روک تھام کیلئے جس ادارے نے قانون سازی کرنی ہے سیاستدان اسی پر لعنت بھیجنا شروع ہوجائیں تو پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں،کچھ اور لوگ کچھ اور اداروں کی بھی مسلسل مذمت کررہے ہیں، پارلیمنٹ نے قانون سازی کرنی ہے اور عدلیہ نے قانون پر عملدرآمد کرنا ہے لیکن ان دونوں اداروں کو متنازع بنایا جارہا ہے،وزیراعلیٰ سندھ نے بھی ٹوئٹ کیا ہے کہ عدالتیں صرف سندھ کے ساتھ زیادتی کررہی ہیں ۔پروگرام میں لاہور پریس کلب کے باہر بیٹھے سیالکوٹ کے رہائشی خرم سے متعلق رپورٹ بھی دکھائی گئی،ام فرواکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ خرم کے رشتہ داروں نے جائیداد کے تنازع پر گزشتہ سال گھر میں گھس کر تین کمسن بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا، اس نے تھانے میں ایف آئی آر درج کروائی تو پولیس بھی ملزمان کے ساتھ مل گئی،مخالفین نے ایف آئی آر واپس نہ لینے پر اس کی گیارہ سالہ بیٹی ثمن کو اغواء کرلیا۔