خبرنامہ

نیب راولپنڈی نے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کے ایڈیشنل سیکرٹری ارشد فاروق فہیم اور دیگر ملزمان کے خلاف احتساب عدالت اسلام آباد میں ضمنی ریفرنس دائر کر دیا، ادویات کی قیمتوں کے تعین اور ان کی فروخت سے ناجائز طور پر مالی فائدہ حاصل کرنے کا الزام

اسلام آباد ۔ (ملت آن لائن) قومی احتساب بیورو (نیب) راولپنڈی نے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کے ایڈیشنل سیکرٹری ارشد فاروق فہیم، ڈی آر اے پی کے سابق ممبر پرائسنگ ڈاکٹر محمد علی،محکمہ صحت حکومت سندھ کے سابق چیف ڈرگ انسپکٹر سلیم عشرت حسین، محکمہ صحت حکومت پنجاب کے سابق چیف ڈرگ کنٹرولر ایاز علی خان، محکمہ صحت خیبر پختونخوا حکومت کے سابق چیف ڈرگ انسپکٹر صابر علی، محکمہ صحت حکومت پنجاب کے سابق چیف ڈرگ انسپکٹر عبدالسلام مفتی، محکمہ صحت حکومت بلوچستان کے سابق سینئر ڈرگ انسپکٹر سلطان احمد، وزارت خزانہ کے شعبہ کاسٹ اکاؤنٹس کے سابق ڈائریکٹر راشد لطیف شیخ، سندھ ہائی کورٹ کے سابق ڈی اے جی اشفاق احمدتگڑ اور زم زم کارپوریشن کے پروپرائیٹر محمد اقبال وغیرہ کے خلاف احتساب عدالت اسلام آباد میں ضمنی ریفرنس داخل کردیا۔ یہ ریفرنس ادویات کی قیمتوں کے تعین اور ان کی فروخت سے ناجائز طورپر مالی فائدہ حاصل کرنے کے حوالے سے دائر کیاگیا جس میں کہا گیا ہے کہ قیمتوں میں اضافہ غیر قانونی طورپر کیا گیا۔ ضمنی ریفرنس کے مطابق ملزمان نے قیمتوں میں غیر قانونی اضافہ سے 1683.69 ملین روپے غیرقانونی منافع کی مد میں لوٹے گئے جس میں سے نیب نے احتساب عدالت اسلام آباد کی اجازت سے ملزمان سے پلی بارگین کر کے 900ملین روپے کی ریکوری کی ہے۔ قومی احتساب بیورو کے بیان کے مطابق یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیب نے نہ صرف ادویہ ساز کمپنیوں سے لوٹے گئے پیسوں کی ریکوری کی ہے بلکہ ان کی تیار کردہ ادویات کی قیمتوں میں کیا جانے والا ناجائز اضافہ بھی ڈی آر اے پی کے ذریعے واپس کرایا ہے تاکہ عوام کو فائدہ حاصل ہو سکے۔ قبل ازیں نیب راولپنڈی نے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایک عبوری ریفرنس نمبر 17/2016 دائر کیا تھا جس میں25 ملزمان شامل ہیں جن میں ڈی پی سی کے 8 ارکان ، ادویہ ساز کمپنیوں کے مالکان، غلط اعداد وشمار فراہم کرنے والی فرمز اور 2012-13ء میں ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے والی کمیٹی کے پانچویں اور چھٹے اجلاس کے دوران ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کے حوالے سے کمیٹی کو غلط معلومات کی فراہمی میں ملوث ملزمان شامل ہیں۔ بیان کے مطابق دوران تفتیش 15 ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور کیس کی سماعت کے دوران 16 ملزمان نے رضاکارانہ طورپر اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہوئے نیب کو پلی بارگیننگ کی درخواست کی جس کی منظوری احتساب عدالت اسلام آباد سے حاصل کی گئی۔ ملزمان کے خلاف نیب آرڈیننس 1999ء کے سیکشن 15 کے تحت کارروائی کی گئی۔ نیب نے ضمنی ریفرنس میں 10 ملزمان کو شامل کیا ہے جن میں پلی بارگیننگ کرنے والے ملزمان شامل نہیں ہیں۔