پاکستان ایشیائی خطے کی ترقی کیلئے سرگرم ہے، رضاربانی
اسلام آباد(ملت آن لائن) چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہا کہ پاکستان ایشیائی خطے کی ترقی اور لوگوں کی خوشحالی کیلئے باہمی ہم آہنگی اور اتحاد کے ذریعے علاقائی خود انحصاری کے فلسفے پر عملدرآمد کیلئے سرگرم ہے۔ اکیسویں صدی ایشیا کی ہے ہمیں خطے میں اپنے ہمسایوں اور شراکت داروں سے بہتر تعاون اور روابط کے ضرورت ہے جیسے کے دوسرے خطوں میں ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ ہم سمجھیں کہ مغرب کیسے اور کیوں چاہتا ہے کہ ہم تقسیم شدہ اور غیر محفوظ رہیں۔ آپ کو دنیا میں موجودہ ہر جنگی نقطہ اشتعال سے جوابات مل جائیں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو مقامی ہوٹل میں تیسری ای سی او اٹارنیز/پراسیکیوٹرز جنرل کانفرنس2018 سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس کانفرنس کا انعقاد اٹارنی جنرل آفس نے کیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اس صدی کے دوران ایشیائی خطے کو نسلی ،لسانی اور قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے اور غیر مستحکم بنانے کی سازشوں کے مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔خطے کے اہم ممالک خطے میں متصادم اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ سرد جنگ کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ایشیائی خطے کے ممالک اپنے مستقبل سے نظریں ہٹا چکے ہیں اور پورا خطہ نسلی اور دیگر بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے جس سے ان کو تو کوئی فائدہ نہیں لیکن سرد جنگ میں شامل بڑے بڑے ممالک کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔خطہ مجموعی طور پر عدم استحکام کی شدید لہروں سے گزرا ہے اور پاکستان اس پورے عمل میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ایشیاء کے کسی ایک ملک کا عدم استحکام صرف اس ملک تک محدود نہیں بلکہ اس سے پورے خطے کی تقدیر جڑی ہوئی ہے۔اور یہ پورے خطے کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان کئی بین الاقوامی کنونشنز ،جن کا تعلق انسانی سمگلنگ اور بین اغوا کے واقعات سے ہے ،کا فریق ہے اور ان کی توثیق کی ہے۔اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو مالی امداد روکنے کے سلسلے میں بڑے موثر اقدامات کئے ہیں،تاہم یہ کنونشن اور معاہدے قوانین یا کسی ریاست کی سلامتی کی خلاف ورزی کیلئے بنیاد نہیں بننے چاہئیں۔دوبل بعنوان ”ٹریفکنگ ان پر سنزبل اور سمگلنگ آف مائیگرینٹس بل ”سینیٹ میں دوسری ریڈنگ کے مرحلے میں ہیں۔ ان بلوں کا مقصد پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ دار یوں کو پورا کرنے کیلئے اندرونی طورپر قوانین بدلنا ہے۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ مغرب ہم سے مطالبات کرتا ہے لیکن ہمارے مطالبات کا مثبت جواب نہیں دیتا۔ انسانی اسمگلنگ کی تشریح کرنا ضروری ہے۔ البتہ تارکین وطن مزدوروں کی اسمگلنگ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ان غریب مزدوروں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کیا جارہا ہے ، انہیں سمندر پار کرتے وقت کشتیوں اور سرحدوں پر گولیوں سے ہلاک کیاجاتاہے۔بین الاقوامی کاروباری ادارے ہمارے ملک میں آتے ہیں، یہاں کارخانے لگاتے ہیں، یہاں کے قدرتی اور انسانی وسائل سے مستفید ہوتے ہیں مگر ہمارے مزدوروں کو ان ممالک میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اقتصادیات کے شعبے میں مقابلے کے اس رحجان نے مختلف خطوں کے مابین اقتصادی جنگ کی صورت پیدا کردی ہے جو انتہاپسندی میں اضافہ کی ایک بنیادی وجہ بن رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ای سی او کی سطح پر ہونے والی کوششوں کو مزید موثراو ر نتیجہ خیز بنانے کے لیے میری تجویز ہے کہ قانونی ماہرین کے اس پلیٹ فارم پر اسی طرح کی تقریبات پارلیمنٹرین (جوقانون سازی کرتے ہیں)اور ایگزیکٹوز (جو قوانین پر عملدرآمد کرواتے ہیں)کے لیے بھی منعقد کی جائیں تاکہ ہم خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ کیلئے ایک جامع قانون اور طریقہ ہائے کار پر عمل پیرا ہوسکیں۔ ای سی او کو ایک نمونہ تنظیم بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں اپنے خطے کی بہترین تنظیم بنانے کیلئے ریاست کے تینوں ستونوں بشمول مقننہ، عدلیہ اور ایگزیکٹو کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔