خبرنامہ

پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ بہادری سے لڑی، احسن اقبال

چوہدری نثار

پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ بہادری سے لڑی، احسن اقبال

اسلام آباد:(ملت آن لائن) وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ بہادری سے لڑی اور اس میں فتح حاصل کی لیکن دہشت گردی کا وائرس نئی نئی شکلوں میں سامنے آتا رہتاہے اس لئے اسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ہمیں اس کے خلاف چوکس اور مستعد رہناہے، عالمی برادری دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے تنازعات کو حل کرے، بھارت نے معصوم کشمیریوں پر ریاستی دہشت گردی اور ظلم کی انتہا کردی، منگل کو اسلام آباد انٹرنیشنل کاؤنٹر ٹیررازم فورم کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے اندرون اور بیرون ملک سے شرکاء کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی کامیابیوں اور تجربات سے دنیاکو آگاہ کرنے کے لئے یہ فورم منعقد کیاگیاہے۔ پاکستان طویل عرصہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہاہے جس میں ہر شہری نے اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ ہم نے متحد اور یکجا ہو کر یہ جنگ لڑی ہے اور آج فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان جو چند سال پہلے دہشت گردی کی جنگ میں متاثرہ تھا آج اس جنگ کا فاتح ہے ۔ ” وکٹم” سے “وکٹر ” تک کاسفر آسان نہ تھا۔ یہ قوم کے عزم و حوصلے کاامتحان تھا جس میں ہم سرخرو ہوئے۔ چند سال قبل دہشت گردوں نے ہمیں محاصرے میں لے رکھا تھا۔ آج ہم نے ان کا محاصرہ کیاہوا ہے اور وہ بھاگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دنیا میں کم ہی قومیں ایسی ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف ایسی جنگ لڑی اور ایسی شاندار کامیابی حاصل کی، یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں سکول جانے والے بچوں، درسگاہوں، مساج، چرچوں، ہسپتالوں، پارکوں، مزاروں سمیت کوئی جگہ محفوظ نہ تھی۔ بچوں اور عورتوں سمیت ہمارے ہزاروں شہریوں نے اس جنگ میں قربانی دی۔ پوری قوم اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی، “نیوز ویک ” 2013 ء میں دنیا کی سب سے خطرناک ترین جگہ عراق نہیں بلکہ پاکستان کو قرار دے رہا تھا آج پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس جنگ میں مذہبی اداروں اور میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ دہشت گردوں نے اسلام کانام استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ 2 ہزار سے زیادہ علماء نے خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ دیا۔ انہوں نے کہاکہ نائن الیون کے بعد دنیا بدل گئی ، پاکستان نے مشکلات کے باوجود اپنا کرداراداکیا جبکہ مغربی ممالک بالخصوص یورپ اور امریکااپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے، یہ پاکستان نہیں تھاجس نے اسامہ بن لادن سمیت دنیا بھر سے جنگجوؤں کو افغانستان میں بلایا۔ جنگ کے بعد سب یہاں سے نکل گئے اور ہمیں مشکلات کے بھنور میں تنہا چھوڑ دیا۔وزیر داخلہ نے کہاکہ طویل افغان جنگ کے بعد یہاں معیشت نے نہیں ابھرنا تھا بلکہ اس جنگ سے ہمیں بہت سے مسائل کاسامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہاکہ امریکا افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل سست روی سے آگے بڑھانا چاہتا ہے اور ہمیں کہا جاتا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو واپس نہ بھجوایا جائے جبکہ خود شام سے ہجرت کرنے والے ایک درجن پناہ گزینوں کو بھی رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم پر انگلیاں اٹھانے والوں کو خطے میں امن کے لئے ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ پاکستان نے کئی دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کو سنبھال رکھا ہے اور دنیا سے مدد مانگے بغیر دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب اور ردالفساد جیسے کامیاب آپریشنز کئے کیونکہ یہ ہمارا اپنا عزم تھا کہ ہم نے پاکستان کو 2025ء تک دنیا کی 25 بہترین معیشتوں میں لے کر آنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سول اور ملٹری اداروں نے مل کر کام کیا ۔ دہشت گردوں کی فنانسنگ روکنے سمیت کئی اقدامات کئے گئے ۔ قوم نے بہادری سے جنگ لڑی، فیصلہ کن فتح کے لئے ہم نے یہ جنگ جاری رکھنی ہے اور دہشت گردوں کو مکمل شکست دینی ہے ۔ دہشت گردی ایک وائرس ہے جو نئی نئی شکلوں میں سامنے آتا رہتا ہے اسے نظر اندازنہیں کیاجاسکتا، ہمیں اس کے خلاف چوکس اور مستعد رہنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج جدید ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر دہشت گردی کو پھیلایا جاسکتاہے۔ اس لئے دنیا بھر کے ممالک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مل کر کوششیں کرنی ہیں ۔موجودہ حکومت نے نیکٹا کو مضبوط بنایا ۔اس فورم سے دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد ملی۔ انہوں نے کہاکہ ایسے خطے اور علاقے جو تنازعات کاشکار ہیں وہاں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مواقع ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔عالمی برادری کو تنازعات کے خاتمے کے لئے اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ خطے کو امن کاگہورہ بنانے کے لئے کشمیر کامسئلہ حل کرناہو گااور بھارتی فوج کی طرف سے ریاستی دہشت گردی اور معصوم و بے گناہ شہریوں پر ظلم بند کرانا ہو گا۔ زبان، نسل اور رنگ کی بنیاد پر امتیازکو ختم کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی آواز تو سنی جاتی ہے لیکن کشمیر کے عوام کی آواز پر کوئی کان نہیں دھرتا ۔ عالمی برادری مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لئے اپنا کردار اداکرے۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء پر زور دیاکہ وہ دنیا کو آگاہ کریں کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے نائن الیون کے بعد حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اس واقعہ کے پاکستان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ہمیں بہت سے مسائل کاسامنا کرنا پڑا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور خدمات کا اعتراف جس طرح کیاجانا چاہیے تھا اس طرح نہیں کیا گیا۔ پاکستان نے القاعدہ اور دہشت گردگروپوں کی کمر توڑ دی۔ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بے پناہ اقتصادی نقصانات اٹھانا پڑے اور یہ ایک غیر محفوظ ملک کے طورپر اس کا تشخص ابھرا۔ 2007ء کے بعد پاکستان اور امریکا میں بد اعتمادی اور دوریوں میں اضافہ ہوا اور امریکا نے پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ قربت اور شراکت داری بڑھائی ۔ نائن الیون کے بعد افغانستان بھی ہم سے دور ہوا، امریکا نے افغانستان میں بہت بڑی رقم خرچ کی لیکن وہاں امن نہیں آسکا۔ پاکستان نے اپنی سرزمین پر اپنے وسائل سے امن قائم کیا۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کی امریکا کے ساتھ قربت کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ متاثر ہوا۔ کشمیری اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے پر امن جدوجہد کررہے ہیں۔ امریکا نے افغانستان میں بھارت کاکردار بڑھایا ، ٹرمپ انتظامیہ سی پیک سے خوش نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت پاکستان کے خلاف بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں پراکسی وار لڑ رہا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیاں بند کرنی ہوں گی۔ انہوں نے بھارت کے زیرانتظام مقبوضہ جموں کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور معصوم کشمیریوں کا قتل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔ بھارتی فوج کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے اور وہ شہریوں پر بے رحمانہ مظالم ڈھا رہی ہے ۔ ان پر کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن کشمیریوں کی جدوجہد رنگ لائے گی اور کچھ بھی ہو جائے وہ اپنا حق لے کررہیں گے اور بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف غیر روایتی جنگ لڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لئے مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہاکہ پاکستان نے اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا، انسداد دہشت گردی کے لئے پاکستان نے دنیا میں سب سے زیادہ فوج تعینات کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی ملک کے خلاف اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ افغانستان کے ساتھ ہماری 2611 کلومیٹر کی طویل سرحد ہے۔ یہ بہت مشکل سرحد ہے، پاکستان نے اس پر 975 چیک پوسٹیں قائم کی ہیں جبکہ افغانستان کی طرف صرف 218 ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بھی خیبر پختونخوا میں ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ مزید مشکل ہو جاتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن چار مراحل میں کیا گیا ۔ فاٹا میں 46ہزار 378کلومیٹر کا علاقہ کلیئر کرایا ۔ افغانستان میں داعش سمیت دہشت گردوں کے کئی گروپ ہیں اس صورتحال کا پاکستان پر اثر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چند سال پہلے روزانہ دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے لیکن آج پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے آپریشنز کی بدولت دہشت گردی کااکا دکا کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس جنگ میں پاکستان نے 76ہزار جانوں کی قربانی دی ہے جبکہ 123ارب ڈالر کے معاشی نقصانات کاسامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں ہمارے 5706 افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ جوانوں کے مقابلے میں شہید ہونے والے افسروں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ فاٹا اصلاحات اور فاٹاکو قومی دھارے میں لانا ضروری ہے ۔ پاک افغان بارڈر مینجمنٹ کے لئے ایف سی کے 73 نئے ونگز قائم کئے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان خطے کی مشترکہ ترقی پر یقین رکھتا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری قربانیوں اور کوششوں کا اعتراف کیا جانا چاہے۔ قبل ازیں نیکٹا کے نیشنل کوآرڈینیٹر احسان غنی نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ رواں سال فورم کا موضوع دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کی کامیابیوں کو اجاگر کرناہے۔ انہوں نے کہاکہ معاشرے کے ہر طبقے نے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کیااور پاکستان نے اس جنگ میں بے مثال کامیابی حاصل کی لیکن دنیا میں اسے اجاگر نہیں کیا جاسکا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایسی کامیابی کی مثال نہیں ملتی ۔ انہوں نے کہاکہ نیکٹا انسداد دہشت گردی کے لئے منصوبے اور پالیسی سازی کاکام کرتا ہے۔ کانفرنس کے شرکاء غیر جانبداری سے پاکستان کی کامیابیوں کا تجزیہ کریں ۔ قبل ازیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ دہشت گردی پر بین الاقوامی ماہر پروفسیر ایڈم ڈولنک اور تجزیہ کار حسن عباس نے بھی خطاب کیا۔