خبرنامہ پاکستان

ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی

اسلام آباد: (ملت+آئی این پی) حکومت کی طرف سے سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2015-16ء کے دوران ملک میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی۔ 21 مزید ڈرگ انسپکٹرز کی بھرتی کی جارہی ہے ‘ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی شکایات پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں کئی جگہ مل کر کارروائی کرتی ہیں، ملک بھر میں 12ہزار 304 غیر رسمی بنیادی تعلیم کمیونٹی سکولز کام کر رہے ہیں،کمیونٹی ٹیچرز اور جگہ کا انتخاب کرتی ہے‘ کوئی سکول بند نہیں ہے‘ تمام سکول فعال ہیں، بلوچستان میں سڑکوں کے کنارے درخت لگانے کے لئے این ایچ اے کو ہدایت کی جائے گی،سعودی عرب میں 2.6 ملین پاکستانیوں میں سے صرف 8 ہزار ورکرز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا‘ ان کے مسائل کے حل کے لئے حکومت نے مستعدی سے اقدامات کئے۔ موٹروے پولیس کی نفری بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے،این ایچ اے میں گریڈ 9 تا 22 کام کرنے والے افراد کی تعداد 2000 کے قریب ہے، فاٹا اور بلوچستان سمیت پسماندہ رہ جانے والے علاقوں کو تعلیمی پروگرام سمیت مختلف معاملات میں ترجیح دی گئی ہے‘ سی پیک سے 20 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے ۔جمعہ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے امور داخلہ بلیغ الرحمان نے بتایا کہ مالی سال 2015-16ء کے دوران ملک میں بھی ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی کوئی اجازت نہیں دی گئی ہے تاہم کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2015ء کے تحت بعض مخصوص درجات کی ادویات میں آٹھ سے 20 فیصد اضافہ کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ ان کی قیمت بہت کم تھی جیسا کہ فولک ایسڈ گولیوں کی قیمت 30 پیسہ فی گولی سے بڑھا کر 43.60 پیسہ فی گولی 43.60) بحساب 100 گولیاں) وفاقی حکومت نے ڈرگ ایکٹ 1976ء کیتحت کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض ادویات ساز کمپنیوں نے وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر سندھ ہائی کورٹ‘ کراچی سے حکم امتناعی حاصل کرنے کے بعد قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ڈریپ اور وفاقی حکومت اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ذریعے ان مقدمات کی پوری طرح پیروی کر رہی ہیں۔ دونوں فریقین کی سماعت کے بعد معزز سندھ ہائی کورٹ‘ کراچی نے 19 دسمبر 2016ء کو ایک حکم جاری کردیا تھا مگر اس حکم کے خلاف مذکورہ کمپنیوں نے انٹراکورٹ اپیلیں داخل کردی تھیں جن پر انہیں ڈبل بنچ آف سندھ ہائی کورٹ نے دوبارہ حکم امتناعی جاری کردیا ہے۔ اس حکم پر ڈریپ اور وفاقی حکومت قانونی چارہ جوئی کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2015-16ء کے دوران 3272 ادویات کی رجسٹریشن کی منظوری دی گئی ہے جن میں سے 360 ادویات ایسی ہیں جو نئی ادویات ساز‘ لائسنس یافتہ کمپنیاں تیار کر رہی ہیں۔وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ جنوبی افریقہ میں پاکستانی سفارتخانے؍ مشن میں کام کرنے والے افراد کے خلاف کسی قسم کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی‘ نجم الثاقب وہاں ہائی کمشنر ہیں‘ ان سمیت 25 افراد کا عملہ وہاں تعینات ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے بتایا کہ اس وقت پندرہ وفاقی انسپکٹر برائے ادویات ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی سپردگی میں ہیں۔ وفاقی انسپکٹر برائے ادویات کی تعیناتی ڈرگز ایکٹ 1976ء کی دفعہ 17 کے تحت وضع کردہ طریقہ کار کے مطابق کی جاتی ہے۔ وفاقی انسپکٹر برائے ادویات اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں جن کے پاس فارمیسی کی ڈگری اور ادویات کی تیاری؍ جانچ؍ تجزیے یا انتظام و انصرام میں کم از کم دس سالہ تجربہ ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد انسپکٹروں کے انتخاب؍ تقرری کے لئے مجاز ادارے ہیں۔ حال ہی میں شفاف اور منصفانہ طریقے سے بھرتیاں کی گئیں جہاں این ٹی ایس کے امتحان کے ذریعے چنے گئے پہلے پانچ امیدواروں کو پالیسی بورڈ کی جانب سے مقرر کی گئی سلیکشن کمیٹی کی جانب سے حتمی انتخاب کے انٹرویو کے لئے بلایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ صحت کے حوالے سے صوبوں کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔‘ کئی جگہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور عمل مل کر کارروائی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کمپنیاں بعض اوقات خود دوائیں بہت کم منافع پر یا بغیر منافع کے بھی فروخت کرتی ہیں کیونکہ ان کی بعض دوسری ادویات کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور وہ ان سے منافع کما رہی ہوتی ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی اور شاہی سید کے ضمنی سوالات پر انہوں نے کہا کہ محض مفروضوں کی بنیاد پر چیزوں کو غلط یا صحیح نہیں کہا جاسکتا۔ 15 انسپکٹر پہلے ہیں اور اب مزید 21 بھرتی کئے جارہے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹر کی تعداد بڑھانے کا مقصد بہتری لانا ہے۔ وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ سری لنکا میں پاکستانی سفارتخانے؍ مشن میں میجر جنرل (ر) سید شکیل حسین ہائی کمشنر ہیں‘ ان سمیت 30 افراد کا عملہ سری لنکا میں کام کر رہا ہے۔ مشن کے کسی اہلکار کے خلاف کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ منسٹر ڈی ایچ ایم سرفراز خان سپرا نے مشن میں اپنا عرصہ مکمل کرلیا ہے اور ان کا تبادلہ ہیڈ کوارٹرز میں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سفارتخانوں؍ مشنز کے افراد کو جو ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں ان کے حوالے سے ان کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے بتایا کہ غیر رسمی سکولوں کے ذریعے دور افتادہ علاقوں اور آبادیوں میں تعلیم کی سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کی ذمہ داری تھی کہ وفاقی حکومت کے ان سکولوں کو اڈاپٹ کرتے لیکن صوبوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ ملک بھر میں بارہ ہزار 304 غیر رسمی بنیادی تعلیم کمیونٹی سکولز کام کر رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں ویسے سکولوں کی تعداد 248 ‘ فاٹا میں 1061‘ بلوچستان میں 607‘ گلگت بلتستان میں 1425‘ آزاد کشمیر میں 203‘ب میں 5 ہزار 687‘ سندھ میں 1674 اور خیبر پختونخوا میں 1399 ہیں۔ ان سکولوں پر بہت کم اخراجات آتے ہیں۔ ہم صوبوں سے ان سکولوں کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ انہیں ان سکولوں پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ 2015/16ء میں حکومت کی جانب سے مذکورہ سکولوں کے لئے مختص کردہ فنڈز 1036.096 ملین روپے ہیں۔ ملک بھر کے تمام بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز فعال حالت میں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی بند نہیں۔ این جی اوز کی ان سکولوں کے حوالے سے کافی افادیت ہے۔ ان سکولوں کے لئے کمیونٹی ٹیچرز اور جگہ فراہم کرتی ہے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ ایبٹ آباد تا پشاور قومی شاہراہ کسی زمانے میں صوبے کی ملکیت تھی بعد ازاں یہ وفاق کے ادارے این ایچ اے کو منتقل ہوگئی۔ جنگلات صوبائی معاملہ ہے‘ اس سڑک کے کنارے درختوں کا این ایچ اے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ صوبائی محکمہ جنگلات کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرانے درختوں کو کاٹے اور نئے درخت لگائے‘ این ایچ اے سے کہوں گا کہ صوبائی حکومت سے کہے کہ پرانے درختوں کی جگہ نئے درخت لگائے۔ بلوچستان میں سڑکوں کے کنارے درخت لگانے کے لئے این ایچ اے کو ہدایت کی جائے گی۔وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ موٹروے پولیس کی کارکردگی اور دیانتداری پر ابھی تک انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ موٹروے پولیس کی نفری اور تعداد بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ سعودی عرب میں 2.6 ملین سے زیادہ پاکستانی ہیں۔ حالیہ واقعات میں متاثر ہونے والوں کی تعداد 8 ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ اس طرح متاثر ہونے والوں کی تعداد کافی کم ہے۔ پاکستانی ورکرز کے مسائل کو سعودی حکام کے سامنے اٹھایا گیا ہے اور ان کی معاونت کی گئی ہے تاکہ نادہندہ کمپنیوں سے اپنی رقوم کی بازیابی کے لئے قانونی چارہ جوئی کریں۔ مشن نے 2200 مزدوروں کو دوسری کمپنیوں میں ملازمت حاصل کرنے کی سہولت فراہم کی۔ تقریباً 3200 ورکرز نے فائنل ایگزٹ حاصل کرنا چاہا ان کو پاکستان میں جلد واپسی کے لئے مفت واپسی کی سہولت دی گئی۔ تقریباً 2100 متاثرہ ورکرز کو عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے کے لئے سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو دیگر کمپنیوں میں جانے یا واپس آنے کی سہولت بھی فراہم کی جارہی ہے۔وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے بتایا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں گریڈ 9 تا گریڈ 22 میں کام کرنے والے افراد کی تعداد 1998 ہے‘ این ایچ اے میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 47 افراد کو تعینات کیا گیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمان نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے انسانی وسائل میں اضافے کے لئے بے شمار اقدامات اٹھائے ہیں۔ بلوچستان اور فاٹا کو ہمیشہ زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور دی بھی جانی چاہیے۔ فیسوں کی معافی کے پروگرام میں بھی ان علاقوں سمیت پسماندہ رہ جانے والے اضلاع کو ترجیح دی گئی ہے۔ ترقی میں پیچھے رہ جانے والے علاقوں کا خاص خیال رکھا جارہا ہے۔ سی پیک سے 20 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہونے کی توقع ہے۔ نیوٹیک تعمیراتی شعبے میں قابلیت رکھنے والی افرادی قوت پیدا کرنے کے لئے اپنی کوششیں بروئے کار لا رہا ہے۔(آچ)