خبرنامہ پاکستان

العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت میں خواجہ حارث کی واجد ضیاء پر جرح، سماعت 10 ستمبر تک ملتوی

اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت ہوئی، جہاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح جاری رکھی۔

احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت میں پیشی کے لیے لایا گیا۔

واضح رہے کہ نواز شریف کے تینوں ریفرنسز کو آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے 8 ستمبر 2017 کو احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز دائر کیے تھے۔

گزشتہ روز مذکورہ درخواست پر سماعت کے دوران واجد ضیاء سے جرح کے دوران عدالت میں بولنے پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی نیب پراسیکیوٹر سے کچھ گرما گرمی ہوگئی تھی، تاہم جج ارشد ملک کے دلچسپ تبصرے کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔

خواجہ حارث کی جانب سے نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کو بات کرنے سے ٹوکنے پر احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیئے کہ ‘کارروائی کے دوران سُستی چھا جاتی ہے، تھوڑی دیر بعد ایسی گرما گرمی کے جھٹکے بھی ضروری ہیں’۔

آج بھی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی واجد ضیاء پر جرح جاری رہی۔

دوران سماعت واجد ضیاء نے عدالتی اجازت کے بعد سپریم کورٹ سے حاصل کیے گئے سربمہر والیم ٹین سے ایم ایل ایز پڑھ کر جواب دیئے۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا مکمل نام ہل ماڈرن انڈسٹری فارمیٹل اسٹیبلشمنٹ ہے، تاہم 31 مئی 2017 کو سعودی عرب کو ایم ایل اے بھجواتے وقت انہیں کمپنی کا مکمل نام معلوم نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایم ایل اے ‘ایچ ایم ای’ سے متعلق لکھا، ہل ماڈرن انڈسٹری فار میٹل اسٹیبلشمنٹ سے متعلق نہیں۔

واجد ضیاء نے بتایا کہ دستاویزات کے مطابق یہ کمپنی اسٹیل بزنس سے متعلق ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کو بھجوائے گئے ایم ایل اے میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا کوئی بزنس ایڈریس نہیں لکھا گیا اور ایڈریس کے طور پر صرف جدہ لکھا گیا۔

سربراہ پاناما جے آئی ٹی نے بتایا کہ 3 جون کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، جنہیں شامل تفتیش کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے حسین نواز کی طرف سے فراہم کی گئی اضافی معلومات کی تصدیق کے لیے سعودی حکومت کوخط نہیں لکھا اور نہ ہی ان کی طرف سے دیئے گئے کمپنی کے رجسٹریشن نمبر کی تصدیق کرائی گئی۔

واجد ضیاء کے مطابق حسین نواز کی طرف سے پیش کردہ بعض دستاویزات عربی زبان میں بھی تھیں۔

خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ آپ عربی سمجھ لیتے ہیں؟

جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ‘میں نے وہاں کچھ وقت گزارا ہے، اس لیے تھوڑی بہت سمجھ لیتا ہوں’۔

واجد ضیاء نے مزید بتایا کہ تحقیقات میں یہ بات اہم تھی کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ فرد واحد کی ملکیت ہے یا پارٹنر شپ پر چلنے والی کمپنی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایم ایل اے میں اس مخصوص سوال کا جواب نہیں مانگا گیا۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ آپ نے ایم ایل اے میں سعودی حکام سےکمپنی سے متعلق کیا معلومات مانگیں؟

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایم ایل اے کا جواب نہیں آیا اور ایم ایل اے بھی سربمہر فولڈر میں ہے، یہ سوال نہیں پوچھا جاسکتا۔

واجد ضیاء نے مزید کہا کہ دستاویزات کے مطابق یہ کمپنی اسٹیل کے کاروبار سے منسلک ہے۔

واجد ضیاء نے مزید بتایا کہ حسین نواز کی طرف سے دی گئی قرض کی دستاویزات بھی تصدیق کے لیے سعودی عرب نہیں بھجوائیں اور نہ ہی جے آئی ٹی نے حسین نواز سے تفتیش میں پوچھا کہ کمپنی ان کی ذاتی ملکیت ہے یا کسی کے ساتھ پارٹنرشپ پر۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے حسین نواز کے ریکارڈ کیے گئے بیان کا درست ریکارڈ عدالت میں پیش کیا؟

جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ حسین نواز کی تمام 5 پیشیوں کا مکمل درست ریکارڈ پیش کیا گیا ہے۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ حد ہے کہ واجد ضیاء ہر بات پر رضاکارانہ بیان دینا شروع کر دیتے ہیں، خود ہی سوال بناتے اور خود ہی جواب دیتے ہیں۔

احتساب عدالت کا جج کا خواجہ حارث کے معاون وکیل سے مکالمہ

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل محمد زبیر خالد کے بار بار گھڑی دیکھنے پر جج احتساب عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ‘اب زبیر صاحب نے کلاک کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے’۔

جس پر محمد زبیر خالد ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ اب تو دوسری سائیڈ بھی گھڑی کی طرف دیکھ رہی ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ آج جمعے کی وجہ سے سماعت جلد ختم کی جائے۔

جس پر جج احتساب عدالت نے ریمارکس دیئے کہ میں تو سوچ رہا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد شام پانچ بجے تک سماعت کی جائے۔

بعدازاں احتساب عدالت نے کیس کی سماعت پیر (10 ستمبر) تک کے لیے ملتوی کردی۔