خبرنامہ پاکستان

‘انگریزی کی بے شمارغلطیاں’، عدالت نے خادم رضوی کی گرفتاری کے خلاف دائردرخواست نمٹا دی

لاہورہائیکورٹ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست میں انگریزی کی بے شمار غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے نمٹا دیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ٹی ایل پی کے سربراہ خادم حسین رضوی کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ درخواست واپس لیں، متعلقہ پارٹی کو فریق بنائیں اور انگریزی کی غلطیاں ٹھیک کریں۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، کیا آپ سنجیدہ ہیں؟ درخواست میں انگریزی کی بے شمار غلطیاں موجود ہیں۔

عدالت نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہیں خادم حسین رضوی کو کس نے اٹھایا ہے اور وہ کہاں ہیں، جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہے ان کی بازیابی کے لیے ہی تو عدالت سے رجوع کیا ہے۔

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ پورے پاکستان کو پتہ ہے وہ کہاں ہے، صرف آپ کو معلوم نہیں۔

اس موقع پرسرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ خادم حسین رضوی اور دیگر کی نظر بندی کے لیے ڈی سی لاہور نے نوٹیفکیشن جاری کیا، ہم خادم حسین رضوی کے اہل خانہ کو نظر بندی کے احکامات دینے کے پابند ہیں، وکیل کو نہیں۔

سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست ناقابل سماعت ہیں اوراسے خارج کیا جائے، جس پر عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہتے ہیں تو درخواست واپس لیں اور دوبارہ دائر کریں۔

جس کے بعد عدالت عالیہ نے خادم حسین رضوی کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست نمٹا دی۔

خیال رہے کہ مذکورہ درخواست گزشتہ روز سید ظفر حسین گیلانی کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جسے سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا تھا۔

درخواست میں وفاقی وزارت داخلہ، ہوم ڈپارٹمنٹ پنجاب اور آئی جی پنجاب کو فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ خادم حسین رضوی کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا، پولیس نے خادم حسین رضوی کے گھر میں چار دیواری کا تقدس پامال کیا اور گرفتاری کے وقت گرفتاری کی وجوہات اور گرفتاری وارنٹ نہیں دکھائے گئے۔

درخواست گزار نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پولیس کی جانب سے خادم حسین رضوی پر ذہنی اور جسمانی تشدد کیا جا رہا ہے۔

درخواست میں لاہور ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی تھی کہ عدالت خادم حسین رضوی کی بازیابی کا حکم دے اور ان کی نظر بندی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ ماہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے الزام سے بری کرنے کے فیصلے کے خلاف تحریک لبیک نے ملک بھر میں 3 روز تک احتجاج کیا تھا۔

مذہبی و سیاسی جماعت نے وفاقی اور پنجاب حکومت سے معاہدے کے بعد یہ احتجاجی دھرنا ختم کیا تھا، جس کے تحت حکومت نے آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کے لیے قانونی کارروائی اور فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل پر معترض نہ ہونے کی حامی بھری تھی۔

جس کے بعد 24 نومبر کو ٹی ایل پی کے سربراہ خادم حسین رضوی کو 30 روز تک نظر بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اور ساتھ ہی ملک بھر میں ان کی پارٹی کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا گیا۔

بعد ازاں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘خادم حسین رضوی کو حفاظتی تحویل میں لے کر مہمان خانے منتقل کیا گیا ہے’۔