خبرنامہ پاکستان

اپوزیشن نے سینیٹ میں ’’ پانامہ پیپرز انکوائری بل 2016‘‘ پیش کردیا

حکومت کی جانب سے شدید مخالفت،چیئرمین سینیٹ نے رائے شماری کے ذریعے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے حوالے کردیا، حق میں 32اور مخالفت میں 19 ووٹ، حکومت کی جانب سے بل میں مثبت ترامیم اور تجاویز کا خیر مقدم کریں گے ،بل کسی خاص شخص کیلئے نہیں اور نہ ہی اس میں کسی سے متعلق کوئی امتیاز برتا گیا ہے،پانامہ پیپرزمیں جتنے پاکستانیوں کے نام آئے ہیں،یہ بل تمام پر یکساں نافذ ہوگا، سینیٹ اجلاس میں قائد حزب اختلاف اعتزازاحسن کا بل پیش کرتے ہوئے اظہار خیال
بل میں اتنی خامیاں ہیں کہ سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کروں ،حکومت کا بل سپریم کورٹ کی سفارشات اورپارلیمنٹ کی متفقہ قراردادوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا، اپوزیشن کا بل مخصوص ذہنیت اور ایک شخص کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ، سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کا پانامہ پیپرز میں نام نہیں مگر بل میں ان کو شامل کرنے کیلئے خاندان کا سہارا لیا گیا ، اپوزیشن کے بل سے سب کو ملاکرتحقیقات ممکن نہیں، وزیر قانون زاہد حامد کا جواب
اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن نے پانامہ پیپرز میں ہونے والے انکشافات کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن کی تشکیل کا بل ’’ پانامہ پیپرز انکوائری بل 2016‘‘ پیش کردیا،حکومت کی جانب سے بل کی شدید مخالفت کی گئی۔چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے رائے شماری کے ذریعے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا،بل کے حق میں 32سینیٹرزاور مخالفت میں 19سینیٹرز نے ووٹ دیا۔پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی زیرصدارت ہوا۔اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے دستخط کردہ پانامہ انکوائری بل قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے پیش کیا۔اس موقع پر سینیٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ بل پر جماعت اسلامی کے کسی سینیٹرز کے دستخط نہیں مگر جماعت اسلامی بھی اس بل کی مکمل حمایت کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بل ایوان میں پیش ہونے کے بعدمتعلقہ قائمہ کمیٹی کو جائے گا،جس میں اپوزیشن حکومت کی جانب سے بل میں مثبت ترامیم اور تجاویز کا خیر مقدم کریں گے،پانامہ پیپرز کسی سیاسی جماعت یا ایجنسی نے نہیں بین الاقوامی اور خود مختار ادارہ کی جانب سے کیے گئے،چونکہ پانامہ میں موجود آف شور کمپنیوں کیلئے پاکستان سے پیسے بین الاقوامی سرحدوں سے ہوتے ہوئے غیرملکی تجوریوں میں گئے،یہ جاننے کیلئے کہ وہ پیسے قانونی راستے کے ذریعے گئے یا غیرقانونی طریقے سے پہلے سے موجود قانون کے تحت ان کی تحقیقات ممکن نہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ بل کسی خاص شخص کیلئے نہیں اور نہ ہی بل میں کسی سے متعلق کوئی امتیاز برتا گیا ہے،پانامہ پیپرزمیں جتنے پاکستانیوں کے نام آئے ہیں،یہ بل تمام پر یکساں نافذ ہوگا،ٹی او آرز کمیٹی میں کہا گیا کہ وزیراعظم کے ساتھ امتیازبرتا جارہا ہے مگر ہم نے کوشش کی بل میں کوئی ایسا تاثر نہ دیا جائے۔اس موقع پر حکومت نے بل کی شدید مخالفت کی۔وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ بل میں اتنی خامیاں ہیں کہ سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کروں،پانامہ پیپرز کا جب انکشاف ہوا تو دونوں ایوانوں میں ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی،جس کے تحت ٹی او آرز کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ٹرم آف ریفرنس بھی مقرر کیے گئے،ٹی اوآرز کمیٹی کے 8اجلاس ہوئے لیکن بدقسمتی سے اس میں اتفاق نہ ہوسکا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پانامہ پیپرز کی انکوائری کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا گیا مگر انہوں نے محدود قانون ہونے کی وجہ سے پانامہ پیپرز کی انکوائری کرنے سے انکار کردیا اور پانامہ پیپرز کی انکوائری کیلئے جامع قانون بنانے کا کہا۔حکومت کی جانب سے جو بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا،وہ سپریم کورٹ کی سفارشات اور دونوں ایوانوں میں پاس ہونے والی متفقہ قراردادوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کا بل مخصوص ذہنیت اور ایک شخص کو سامنے رکھ کر بنایا گیا،بل میں صاف صاف لکھا ہے کہ یہ بل صرف پانامہ پیپرز تک محدود ہے مگر جن لوگوں نے آف شور کمپنیوں کا اعتراف کیا اور ان کا ذکر پانامہ پیپرز میں نہیں ان کو اپوزیشن نے ازخود آزاد کردیا۔انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کا پانامہ پیپرز میں نام نہیں مگر بل میں ان کو شامل کرنے کیلئے خاندان کا سہارا لیا گیا اور بل میں وزیراعظم نوازشریف کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے خاندان کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کمیشن کو بتائیں۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے بل سے سب کوملاکر (اے کراس دا بورڈ) تحقیقات ممکن نہیں۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے حکومت کی جانب سے بل کی شدید مخالفت پر اپوزیشن کا بل پیش کرنے کیلئے یہ پہلے تین مرتبہ وائس ووٹنگ کروائی مگر فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے چیئرمین سینیٹ نے ایوان کی گیلریاں خالی کروا کر بل کے حق اور مخالفت میں سینیٹرز کو کھڑے ہو کر ووٹ دینے کی ہدایت کی،جس پر بل پیش کرنے کے حق میں 32اور مخالفت میں 19سینیٹرز نے ووٹ دیا۔جس پر چیئرمین سینیٹ نے کثرت رائے سے بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو ارسال کردیا۔