خبرنامہ پاکستان

سردی کی سردردی اور دہشت گردی کی بے دردی۔۔۔اسداللہ غالب

طنز کی بھی کوئی حد ہوتی ہے مگر جب ہماری حالت ہی غیر ہو تو پھر طنز کرنے والوں سے کیا جھگڑا۔
تازہ تریں طنز یہ ہے اورا سے برداشت کرنے کا یارا ہے تو سن لیجئے کہ بڑا کہتے تھے کہ مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے مگر یہ تو اپنے ہی ا سکول بند کر کے بیٹھ گئے اور انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اسکول بند کیوں کئے ہیں، رانا ثناللہ کا کہنا ہے کہ سردی کی سردردی کی وجہ سے اسکول بند ہیں ، چودھری نثار کہتے ہیں کہ پنجاب والوں کو تعلیمی ادارے بند نہیں کرنے چاہیءں تھے، اس سے تو دشمن کا مقصد پورا ہو گیا۔وہ ہمیں ہراساں اور سراسیمہ کرنا چاہتا تھا۔
مگر پنجاب انتظامیہ پچھلے ایک دو دنوں میں ڈھیروں کے حساب سے اسکولوں کو تالے لگا چکی ہے ، وجہ یہ ہے کہ ان کی سیکورٹی معیاری نہیں تھی۔ یااللہ! یہ کونسازمانہ آ گیا کہ جن اسکولوں کو تعلیم دینا تھی،اب سیکورٹی کی ذمے داری بھی ان کے سر آن پڑی۔ ایک کمشنر بہادر نے کہا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب نے وڈیو خطاب میں ہدایت کی ہے کہ جس اسکول کی سیکورٹی معیار کے مطابق نہ ہو ،ا سکے ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل یا وائس چانسلر کو اندر کر دیا جائے۔ پہلے ہی جیلیں ان مولویوں سے بھری ہوئی ہیں جنہوں نے نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی کی اور لاؤڈا سپیکر کا استعما ل کیا، یہ لاؤڈ اسپیکر بھی عجب چیز ہے۔ پہلے پہل مولوی نے ہی اس کی مخالفت کی اور اسے شیطانی بھونکا کہا، لبرل طبقے نے مولوی کا مذاق اڑیا اور ڈسکو والوں نے لاؤڈا سپیکر کا بے محابا ا ستعمال کیا، پھر یہی لاؤڈ اسپیکر مو لوی کی ضرورت بن گیا، اب اس سے یہ ضرورت چھینی جا رہی ہے ا ور کسی کو پتہ نہیں کہ کیوں، اگر تو وزیر داخلہ یہ کہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل در�آمد سول انتظامیہ ا ور حکومت کی ذمے داری ہے تو اسکولوں کو بند کرنے کی طرح لاؤڈ اسپیکر پر قدغن بھی اسی جلد بازی اور پھرتی کا نتیجہ ہے، پولیس کو کوئی نیا اختیار ملنا چایئے۔ پھراس کی کارکردگی دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ابھی ا س پولیس نے محلے کے امام مسجد کو سا ئیکلو اسٹائل خطبہ جمعہ دینا ہے، پھر جمعے کی رونق بھی سمجھیں ختم شد۔ میں نے ایسا ایک جمعہ ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالم پور کی ایک یونیورسٹی میں ادا کیا تھا،ا س کے بعد مجھے جمعے کے لئے مسجد جانے میں کوئی چاشنی نظر نہ آئی۔
یہ حجت الوداع کا منظر ہے، ایک لاکھ کا مجمع ہے، اللہ کے آخری ر سول ﷺ اپنی زندگی کاآخری خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے، ایک لاکھ کے مجمع تک ان کی آواز پہنچانے کے لئے انسانی لاؤڈ اسپیکروں نے ڈیوٹی ادا کی۔ شکر ہے اس وقت کوئی نیشنل ایکشن پلان نافذ نہیں ہوا تھا ورنہ ہمیں کچھ معلوم نہ ہوتا کہ اس خطبے میں کیا ارشاد فرمایا گیا۔
پینسٹھ کی جنگ میں کوئی رانا ثناللہ نہیں تھا، الطاف گوہر تھے، تجمل حسین تھے، قدرت اللہ شہاب تھے، انہیں سرکاری بھونپو کہتے رہئے مگر دشمن کے مقابلے میں انہوں نے نفسیاتی جنگ جیت لی۔ دشمن کہتا تھا کہ وہ لاہور کی انارکلی میں فوج داخل کر چکا ہے، دشمن نے دعوی کیا کہ وہ سوہنے شہر قصور پر قبضہ کر چکا ہے، دشمن کہتا تھا کہ ا سکے بکتر بند ڈویژن نے جی ٹی روڈ کو گوجرانوالہ اور گجرات کے درمیان سے کاٹ دیا ہے۔مگر ہم نے ترانے گا کر یہ پراپیگنڈہ جھوٹ ثابت کر دیا۔کیا آج بیس کروڑ عوام میں کوئی ایک بھی الطاف گوہر نہیں،نہ کوئی قدرت اللہ شہاب ہے اور نہ تجمل حسین، پراپیگنڈے کا جواب پراپیگنڈے سے دیا جاتا ہے، ہم نے پینسٹھ میں لوگوں کو حوصلہ دینے کے لئے کہا کہ راوی کے پل پر سبز پوش بابے بھارتی طیاروں کے بم اپنی جھولی میں سمیٹ لیتے ہیں۔دشمن نے خبر اڑائی کہ ا س نے لاہور میں چھاتہ بردار اتار دیئے ہیں ، ہم نے لاہوریوں کے ہاتھ میں ڈنڈے دیئے اور انہوں نے میانی صاحب میں ایک ایک فقیر کی درگت بنا دی۔ دشمن نے لاہور کے دل انار کلی پر بم برسانے کے لئے یلغار کی، میں خود گواہ ہوں کہ بائبل سوسائٹی کے سامنے سڑک کے بیچ پروفیسر قیوم نظر کے ہمراہ کھڑا دیکھ رہا تھا کہ انارکلی اور گردو نواح کے لوگ چھتوں پر ڈنڈے لے کر چڑھ گئے تھے اور بو کاٹا کے نعرے لگا رہتے تھے۔جب دشمن نے یہ بے پر کی اڑائی کہ ا س کے ٹینک باٹا پور کا پل عبور کر کے مغل پورہ ، ہر بنس پورہ اور شالیمار باغ کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں تو یہی لاہوریئے ڈنڈے سوٹے لے کر جی ٹی روڈ کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے، وہ تب واپس ہوئے جب پاک فوج نے انہیں بتایا کہ دشمن نے جھوٹ بولا ہے ا ور دفاع کے لئے بہرحال وہ خودموجود ہیں، فوج کے ہوتے ہوئے سول افراد کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
کیا آج لاہور اور گردو نواح کو ا س سے بڑا خطرہ درپیش ہے اور اگر ہے بھی تو کیا اس سے نبٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسکول بند کر دیئے جائیں ، کل کو دفتروں کو تالے، پھر دکانوں کے شٹر ڈاؤن ، دشمن یہی تو چاہتا ہے۔
مجھے یاد�آتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمن طیارے غول در غول لندن کی فضا ؤں میں داخل ہوتے تھے، ان کے جمگھٹے کی وجہ سے زمین پر اندھیرا ہو جاتا تھا اور پھر جرمن طیارے وحشیانہ بمباری کرتے، اس تباہی کے آثارآج بھی لندن کی عمارتوں پر دیکھے جا سکتے ہیں مگرکیا چرچل نے یہی حکمت عملی اختیارکی تھی جو ہمارے حکمران اپنا رہے ہیں۔ہمارے وزیر اعظم طویل دورے کے بعد تازہ تازہ لندن سے لوٹے ہیں ، کوئی ان سے پوچھے کہ لندن والوں نے ہٹلر کا مقابلہ کیسے کیا تھا۔یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، یہی پوچھنا کافی کے پینسٹھ میں لاہوریوں کا جذبہ کیا تھا۔ ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے حکومت نے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے، شاعروں ، موسیقاروں اورسازندوں نے کیا تاریخی کردار ادا کیا تھا ، اور کیا آج ہماری قوم بانجھ ہو چکی ہے، ایسے مردان فن آج کیوں موجود نہیں ہیں۔
میں ایک گواہی یہ بھی دیتا ہوں کی جنگ کے سترہ دنوں تک میں گورنمنٹ کالج جاتا رہا، بیچ میں کوئی اتوار�آتا تو اپنے رشتے داروں کا اتاپتہ معلوم کرنے قصور کی طرف نکل جاتا تھا، تب کوئی اسکول اور کوئی کالج بند نہیں ہوا تھا۔
میرے ذہن میں ا یک سوال،اور بھی �آرہاہے، بھارت ہر تیسرے روز دھمکی دیتا ہے کہ وہ پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کرے گا، خدا نخواستہ ایسی نو بت آ جاتی ہے تو پھر ہمارا لائحہ عمل کیا ہو گا، کیا ہم افغانستان اور ایران کی طرف بگٹٹ بھاگ کھڑے ہوں گے۔
مجھے حکومت کی حکمت عملی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ اختلاف تو وفاقی وزیر داخلہ کو ہے۔
جمعہ کے روز بالآخر وزیر اعظم کو احساس ہو اہے کہ پانی سروں سے اوپر بہہ رہا ہے، انہوں نے ایک اور اعلی سطحی اجلاس طلب کیا ہے، ایسے کئی اجلاس پہلے بھی ہو چکے ہیں، ان کے فیصلے کیا تھے اور تازہ فیصلہ کیا ہے، یہ تو حکومت کے آئندہ کے اقدامات سے ظاہر ہو گا۔ مگر خدا را ! دہشت زدگی،سراسیمگی اور خوف کی کیفیت پید انہ ہونے دی جائے۔ وزیر داخلہ نے پتے کی بات کر دی کہ ہم بندوق کی جنگ جیت رہے ہیں مگر نفسیاتی جنگ ہار رہے ہیں، کیا واقعی ہم یہ جنگ ہارنا چاہتے ہیں!!