خبرنامہ پاکستان

سینیٹ نےسائبرکرائمزبل متفقہ طورپرمنظورکرلیا

اسلام آباد:(اے پی پی) سینیٹ میں سائبر کرائمز بل متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا جس کے تحت اب نفرت انگیز تقریر سمیت فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر 7 سال سزا ہوگی۔ سینیٹ اجلاس کے دوران وزیرمملکت انوشہ رحمان نے سائبر کرائم بل پیش کیا جس کی ایوان نے شق وار منظوری دی۔ بل میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ 50 ترامیم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ سائبر کرائمز بل کے مسودے کے مطابق دہشت گردی سے متعلق سائبر جرائم میں ملوث افراد پر 14 سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا جب کہ نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر7 سال سزا ہوگی، انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر بھی 7 سال سزا ہوگی۔ بل کے تحت بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جب کہ موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔ بل کے مسودے کے مطابق انٹرنیٹ صارفین کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا۔ اس بل کے مسودے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سائبرکرائم قانون کا اطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد پر بھی ہوگا۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ریاستی سالمیت کے خلاف کام کرنے والے افراد کی گرفتاری کے لیے متعقلہ ممالک سے رجوع کیا جائے گا۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزا احسن کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی سے پاس ہونے والابل نامکمل اور ناکافی تھا لیکن اب سینیٹ نے سائبر کرائم بل میں 50 ترامیم پیش کی ہیں جسے حکومت نے منظور کیا جب کہ اس بل کو ریاست اور عوام دوست بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بل کے ذریعے اظہار رائے پر پابندی لگنے کا تاثر درست نہیں، بل میں پارلیمانی مانیٹرنگ کی شق شامل کی گئی ہے تاہم سائبر قانون بل اب بھی پسندیدہ قانون نہیں ہے۔ اس موقع پر جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم بل کے حوالے سے ابہام بہت زیادہ ہیں اس لئے حکومت کو ان کو دور کرنا ہوں گے جب کہ ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم بل کے حوالے سے ہماری جماعت سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ سائبر کرائم بل کو رواں سال اپریل میں قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا تاہم پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد بل کو قائمہ کمیٹی بھجوایا گیا جہاں سے منظوری کے بعد اسے سینیٹ میں پیش کیا گیا۔