خبرنامہ پاکستان

قومی اسمبلی میں افغان پارلیمان کے سپیکر اوران کے ہمراہ آنے والے مہمانوں کا بھرپورخیر مقدم

اسلام آباد ۔(اے پی پی) قومی اسمبلی میں حکومت اوراپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اراکین نے افغان پارلیمان کے سپیکر اوران کے ہمراہ آنے والے مہمانوں کا بھرپورخیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان باہمی‘ تاریخی‘ ثقافتی اور مذہبی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں‘ افغانستان میں استحکام پاکستان کے لئے لازم ہے‘ افغانستان کے حوالے سے پاکستان مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے‘ خطہ کی خوشحالی کا واحد راستہ معیشت کی ترقی ہے‘ وفد کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا رشتہ اور مضبوط ہوگا۔ افغان پارلیمنٹ کے سپیکر عبدالرؤف ابراہیمی اور دیگر مہمانوں نے بدھ کو قومی اسمبلی کا دورہ کیا اورپارلیمان کی کاروائی دیکھی ۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے مہمانوں کی گیلری میں افغان پارلیمنٹ (اولسی جرگہ) کے سپیکر عبدالرؤف ابراہیمی کی سربراہی میں وفد کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ افغان سپیکر ایک کہنہ مشق پارلیمنٹرین ہیں۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے افغان وفد کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تاریخی رشتے ہیں ۔ افغان وفد کا پارلیمنٹ میں آنا ہمارے لئے باعث عزت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان نے کئی مشکلات کا سامنا کیا ہے ، الحمد اللہ دونوں ممالک کی ثقافت‘ خوراک اور لباس ایک جیسا ہے۔ توقع ہے کہ ہمارے تاریخی رشتے ہمیشہ نہ صرف برقرار رہیں گے بلکہ ان میں مزید بہتری آئے گی۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے افغان سپیکر اور وفد کو ایوان میں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات تاریخ ‘ مذہب اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ رشتے لازوال ہیں، دونوں ممالک چار دہائیوں سے تاریخ کے کٹھن مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف کا کہنا درست ہے کہ راستہ آسان ہوتا نظر آرہا ہے، جب سے چار فریقی گروپ نے کام شروع کیا ہے امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کا امن پاکستان کا امن ہے۔پاکستان کا افغانستان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ اورفوجی روابط میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے حوالے سے تمام فیصلے افغان قیادت کو کرنے چاہئیں او باہر سے کوئی مداخلت نہیں ہونی چاہئیے ،اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہم افغانستان کے ساتھ امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ہمیشہ قائم رکھے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے افغان وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک ساتھ بیٹھ کر باہمی مسائل حل کرنے ہونگے۔ اگر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا تو پاکستان میں امن نہیں آسکتا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف امن عمل کے حوالے سے متحرک ہیں۔ ان کے دورہ قطر کی تفصیلات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔ عبدالرشید گوڈیل نے افغان سپیکر اور ارکان پارلیمنٹ کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک آزاد اور خودمختار ہیں، جنگیں مسائل کا حل نہیں ہیں۔ پاکستان‘ افغانستان اور ایران کی جغرافیائی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس خطہ کی خوشحالی کا واحد راستہ معیشت کی ترقی ہے۔ غربت اور بھوک دہشتگردی کو جنم دیتی ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے افغان مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ افغان اولسی جرگہ کے سپیکر کی پارلیمنٹ میں آمد تاریخی لمحہ ہے۔ انہوں نے پاکستان اور افغانستان میں پائیدار امن اور تعلقات میں استحکام کے حوالے سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ بہتر حکمت عملی کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہیے۔ دونوں ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان یک جان دو قالب ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان امن کے خواہاں ہیں، افغان وفد کے دورہ کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ حاجی غلام احمد بلور نے سپیکر عبدالرؤف ابراہیمی اور وفد کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت اے این پی کی ایک مدت سے یہ سوچ رہی ہے کہ پاکستان اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست سیاسی وژن کا نام ہے۔ افغانستان کے حوالے سے ہماری جماعت کا کردار اظہر من الشمس ہے۔ دونوں اطراف اگر نیک نیتی سے آگے بڑھیں تو تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ ہمیں بھائیوں کی طرح مل کر ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر آنا چاہیے۔آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے افغان اولسی جرگہ کے صدر اور وفد کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ پاک افغان فرینڈ شپ گروپ کے کنوینئر کی حیثیت سے میرا موقف ہے کہ دونوں ممالک کی پارلیمان سپریم ہیں۔ اگر دونوں ممالک کی پارلیمان اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھیں تو تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ توقع ہے افغان وفد واپس جائے گا تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کاا یک نیا دور شروع ہوگا۔ پارلیمنٹ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہم افغانستان کی خودمختاری تسلیم کرتے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان دونوں جگہ کوئی بھی ناخوشگوارواقعہ پیش آتا ہے تو دونوں ممالک کے عوام دکھی ہوتے ہیں۔ افغانستان میں امن نہیں ہوگا تو پاکستان میں بھی امن اور ترقی نہیں ہوگی۔ ہمیں اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ وفاقی وزیر اکرم خان درانی نے بھی افغان وفد کو خوش آمدید کہا انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان ایک ہی وجود کے دو حصے ہیں۔ کسی ایک حصہ میں درد ہو تو پورا وجود اس سے متاثر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس خطہ میں بسنے والے عوام دلیر‘ بہادر‘ جفاکش اور مہمان نواز ہیں۔ پوری دنیا یہ تسلیم کرتی ہے۔ پورے پاکستان کی عوام دل کی گہرائیوں سے مہمانوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔ افغان وفد کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنے گھر اور اپنی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ بعض غیر ملکی قوتوں نے دونوں ممالک کو دور رکھنے کی کوشش کی مگر ہمیں کوئی ایک دوسرے سے دور نہیں رکھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان کے ساتھ تمام معاملات مل بیٹھ کر حل کئے جائیں۔ محمود خان اچکزئی نے افغان سپیکر اور ان کے وفد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان ایک وجود ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ کے مطابق نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر اسلامی جغرافیہ تھا۔ مگر سامراجی قوتوں نے ہمارے اس جغرافیے کو نقصان پہنچایا۔ افغان سرزمین دنیا کی ہر قوم کے لئے امن کی جگہ تھی۔ بھارت کے ساتھ ہماری دو جنگوں میں افغانستان نے ہمیں یقین دلایا کہ افغان بارڈر کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کے اس احسان کو تسلیم کیا۔ افغانستان نے بھی روسی تسلط کے وقت پاکستان کے کردار کو احسان کے طور پر تسلیم کیا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایشیا جلنے سے بچے تو پاکستان اور افغانستان کو بین الاقوامی گارنٹیوں کے تحت قیام امن کی طرف بڑھنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی خودمختاری تسلیم کرلیں تو سارے ایشیا میں امن قائم ہو جائے گا۔ حاجی شاہ جی گل آفریدی نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ افغان وفد کے دورے سے پاکستان کے عوام خوش ہیں۔ وفد کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا رشتہ اور مضبوط ہوگا۔