خبرنامہ پاکستان

نیب کا پرویز خٹک، سراج درانی، وسیم اختر کے خلاف تحقیقات کا حکم

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور میئر کراچی وسیم اختر سمیت بااثر افراد کے مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ہونے سے متعلق شکایات پر تحقیقات کی منظوری دے دی۔

چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ (ای بی ایم) میں نیب کی جانب سے ان بااثر افراد کے خلاف تحقیقات کے آغاز کا فیصلہ کیا گیا۔

اس اجلاس کے بعد نیب کی جانب سے والی پریس ریلیز تو جاری کی گئی لیکن پرویز خٹک، سراج درانی، وسیم اختر، معروف کاروباری شخصیت اقبال زیڈ احمد، سابق ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا خالد پرویز، منیجنگ ڈائریکٹر خیبرپختونخوا ٹورازم کارپوریشن مشتاق خان، یوسف جمیل انصاری، افتخار قائم خانی، ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، امتیاز ملاح، وزیر اعلیٰ سندھ کے سابق خصوصی مشیر، دلاور حسین میمن، سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کے سی ای او، ناظرسومرو اور میسر کرسٹل مووٹ ٹاؤن، راؤ محمد شاکر اور دیگر راؤ اور رانا ایسوسی ایٹس کے خلاف کیسز کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

نیب کے بیان میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں تفتیش اور تحقیقات کی تفصیلات مقررہ وقت پر سامنے لائی جائیں گی۔

تاہم نیب میں موجود ذرائع نے بتایا کہ پرویز خٹک، سراج درانی اور وسیم اختر کے خلاف پہلے درج ہونے والی شکایات 2 ماہ تک تصدیقی عمل سے گزریں اور اب انہیں تحقیقات کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔

نیب قوانین کے مطابق ایک شکایت کی تصدیق کے بعد یہ انکوائری میں تبدیل ہوتا ہے اور پھر اس کی تحقیقات کی جاتی ہیں جبکہ آخری مرحلے میں یہ ایک ریفرنس میں تبدیل ہوجاتا ہے، اس سارے عمل کو مکمل ہونے میں 10 ماہ کا وقت لگتا ہے۔

خیال رہے کہ وزیر دفاع پرویز خٹک پر الزام ہے کہ 2015 میں بطور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور جنگل کی 274 کنال زمین کو ریسورٹ تعمیر کرنے کے لیے 33 سال لیز پر دیا۔

ذرائع کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ نے لیز کے لیے بولیوں کا انعقاد نہیں کیا، ساتھ ہی انہیں یہ اختیار بھی نہیں تھا کہ وہ 15 سال سے زیادہ کے لیے لیز دیں۔

دوسری جانب سراج درانی پر آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے اور غیر قانونی تعیناتیاں کرنے کا الزام ہے۔

اسی طرح میئر کراچی وسیم اختر شہر قائد کے فنڈز کے مبینہ طور پر غلط استعمال پر نیب کی تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔

وسیم اختر کے خلاف پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) کے کراچی کے رہنما فیصل واوڈا نے جولائی میں سندھ ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں میئر کراچی کے ماتحت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریش (کے ایم سی) میں ’ کرپشن اور فنڈز کی بدانتظامی‘ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، ساتھ ہی سندھ حکومت کو بھی اس درخواست میں فریق بنایا گیا تھا۔

نیب اجلاس میں وائس چانسلر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر شاہد محبوب اور ڈائریکٹر جنرل فائننس بلوچستان علی گل کرد کے خلاف بھی تحقیقات کی منظوری دی۔

ای بی ایم میں مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر احسن علی اور دیگر کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی بھی منظوری گئی۔

ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے آئی ٹی کا سامان من پسند کمپنیوں سے مہنگے داموں خریدنے کا ٹھیکہ دیا، جس سے قومی خزانے کو 32 کروڑ 80 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔

نیب کی جانب سے خیبرپختونخوا کے سابق وزیر برائے تکنیکی تعلیم، افرادی قوت، صنعت اور مادنیاتی ترقی نوابزادہ محمودزیب کے خلاف 35 کروڑ روپے کے نقصان میں ملوث ہونے پر ریفرنس دائر کرنے منظوری دی گئی۔