خبرنامہ پاکستان

وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی خالی آسامیوں پربھرتی کویقینی بنایاجائے

اسلام آباد(آئی این پی)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے پاکستان نیشنل ایکریڈیشن کونسل میں 2014سے خالی 11آسامیوں پر بھرتیاں نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزار ت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو ہدایت کی کہ خالی آسامیوں پر بھرتی کو یقینی بنایا جائے، سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فضل عباس میکن نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پی سی آر ڈبلیو آر کے عارضی ملازمین کو مستقل کرنے کے حوالے سے سمری فنانس ڈویژن میں پہنچ چکی ہے اور اس منصوبہ پر پہلے کہا گیا تھا کہ نئے سرے سے آسامیوں کو پر کیا جائے اور پچھلا منصوبہ طویل تھا اور 10سال تک منصوبہ چلا اور ان میں سے اکثر لوگ اوورایج ہوگئے ہیں میں نے خود ذاتی طور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات کی اور ان 158ملازمین کو مستقل کرنے کیلئے مثبت طورپر قواعد میں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم سے منظوری لی جائیگی،چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک لاکھ روپے کی چیز 20ہزار روپے مانگی جائے تو چین وہ بھی تیار کرکے بھیج دے گا،بہاولپور میں 100میگاواٹ کے منصوبے سے ایک دن میں16میگاواٹ اور باقی 10سے12میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور چین کے600 مزدور وہاں کے قیدی ہیں ان کی سیکیورٹی کیلئے 800پولیس اہلکار بھرتی کیے گئے ہیں،کمیٹی رکن علی محمد خان نے کہا کہ پاکستانی سیاستدانوں کا بڑامسئلہ ہے کہ وہ اداروں کو ٹھیک کرنے کے بجائے صرف اپنے اگلے آنے والے انتخابات کے بارے میں سوچتا ہے،حکومت کو اپوزیشن کو شیشہ دکھانا چاہیے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی طارق بشیر چیمہ کی صدارت میں ہوا،سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فضل عباس میکن نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ سارک کانفرنس میں 55وفود تھے32سے 34ممالک سمیت دیگر تنظمیوں کے بھی وفود تھے اور جو لوگ اس کانفرنس میں کام کر رہے تھے ان کو اعزازیہ دیا گیا تھا اورلوئرسٹاف کو بھی اعزازیہ دیا گیا تھا۔انہوں نے مزید کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پی سی آر ڈبلیو آر کے عارضی ملازمین کے سمری فنانس ڈویژن میں پہنچ چکی ہے اور اس منصوبہ پر پہلے کہا گیا تھا کہ نئے سرے سے آسامیوں کو پر کیا جائے اور پچھلا منصوبہ طویل تھا اور 10سال تک منصوبہ چلا اور ان میں سے اکثر لوگ اوورایج ہوگئے ہیں میں خود ذاتی طور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے ملاقات ہوئی ہے اور ان 158ملازمین کو مستقل کرنے کیلئے مثبت طور قواعد میں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم کی منظوری دی جائیگی۔لال چند ملہی نے کہا کہ اس پر ہمیں کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی،جس پر سیکرٹری نے جواب دیا کہ اس پر پیش رفت ہورہی ہے۔چیئرمین کمیٹی طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ وزیراعظم کی سطح پر کام ہورہا ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ پنجاب میں گذشتہ 9سالوں میں صرف ایک بیج پیدا کیا گیا ہے۔علی محمد خان نے کہا کہ پاکستانی سیاستدانوں کا بڑامسئلہ ہے کہ وہ اداروں کو ٹھیک کرنے کے بجائے صرف اپنے اگلے آنے والے انتخابات کے بارے میں سوچتا ہے،حکومت کو اپوزیشن کو شیشہ دکھانا چاہیے۔سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کمیٹی کو بتایا کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ترقیاتی بجٹ کو 13فیصد بڑھایا گیا ہے اور غیر ترقیاتی بجٹ کو 6کروڑ سے26کروڑ کردیا گیا ہے اور منصوبہ بندی ڈویژن کو مزید بڑھانا چاہیے،ہمارے سائنسدان ریسرچ پروپوزل ہی نہیں بناسکتے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جب تک معاملات حکومتی ترجیحات میں نہیں آتے اس وقت تک مسائل حل نہیں ہوتے۔کمیٹی رکن عالیہ کامران نے کہا کہ وزرات اچھا کام کررہی ہے مگر مزید بہتری لائی جاسکتی ہے ڈی جی پی این اے سی نے پی این اے سی کے اغراض و مقاصد اور کام کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی،ڈی جی پی این اے سی نے کمیٹی کو بتایا کہ اشیاء کے معیار کے حوالے سے عوام میں شعور و آگہی پیدا کی جاتی ہے۔کمیٹی رکن عالیہ کامران نے کہا کہ بیرون ملک میں اشیاء معیاری ملتی ہیں مگر وہی اشیاء پاکستان میں غیر معیاری ہیں اور پاکستان میں کم قیمت پر طلب کی جاتی ہے۔سیکرٹری فضل عباس میکن نے کہا کہ پاکستان میں بہت سی ا شیاء سرٹیفیکشن کے بغیر نہیں آتیں،حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معیاری اشیاء اور تصدیق شدہ ملک میں عوام کو مہیا کرے ہماری برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 1لاکھ روپے کی چیز 20ہزار روپے مانگی جائے تو وہچین وہ بھی تیار کرکے بھیج دے گا،بہاولپور میں 100میگاواٹ کے منصوبے ایک دن 16میگاواٹ اور باقی 10سے12میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور چین کے مزدور وہاں کے قیدی ہیں ان کی سیکیورٹی کیلئے 800پولیس اہلکار بھرتی کیے گئے ہیں۔کمیٹی رکن عالیہ کامران نے کہا کہ آپ نے آج تک اس مسئلے کو اسمبلی میں نہیں اٹھایا۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ میں نے ٹی وی شوز میں اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔عالیہ کامران نے کہا کہ ہم اپنے ڈیوتی پوری نہیں کرتے۔ڈی جی پی این اے سی نے کہا کہ یہ افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے 20گھنٹے کام کرتے ہیں۔سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے بتایا کہ این ٹی ایس کے ذریعے ملازمتوں پر بھرتی کے بجائے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے بھرتیاں کی جائیں گیں اور ان سے اس ضمن میں معاہدہ ہوچکا ہے،ڈی جی پی این اے سی نے انکشاف کیا 2014سے 11سیٹوں پر تعیناتیاں نہیں ہوسکیں۔علی محمد خان نے کہ کہ خالی گاڑی پر جھنڈا لگا کر بیٹھنا یہی کام سمجھا جاتا ہے،قوم کیلئے کوئی کام نہیں کیا گیا ہے ہمارے پاس یونیورسٹیز ہیں اور قابل لوگ ہیں اور اہم وزرات کیلئے ڈیڑھ ارب کا بجٹ رکھا گیا ہے اس کیلئے 50ارب روپے بجٹ ہونا چاہیے۔ڈی جی پی این اے سی نے بتایا کہ تنخواہوں اور مراعات کی کمی کی وجہ سے لوگ اس ادارے کی طرف نہیں آتے۔علی محمد خان نے کہا کہ ہماری بیوروکریسی میں کچھ ہیروز موجود ہیں،ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔(خ م+ع ح)